تحریر : عماد ظفر وطن عزیز میں ایک دہائ قبل تک اداروں ،شخصیات اور تیار کردہ بیانیوں کا نرگسیت پسندی کی عادت میں رہنا ممکن تھا۔ لیکن وقت اور زمانے کی رفتار کے ساتھ ساتھ اب یہ ناممکن ہو چکا ہے۔ اسی طرح کچھ عرصہ قبل تک من پسند باتوں اور بیانیوں کو عام عوام پر زبردستی مسلط کرنا بھی بے حد آسان تھا لیکن انٹرنیٹ ، سوشل میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا کی مسلسل مقبولیت اور عام عوام تک ان کی رسائ کے بعد اب زبردستی نظریات ،عقائد یا بیانیوں کو عوام پر تھوپنا ممکن نہیں رہا۔ اس بدلتی ہوئ صورتحال کو جن سیاستدانوں ،سیاسی جماعتوں نے سمجھا وہ کسی نہ کسی حد تک اپنی عوامی جڑیں بچانے میں کامیاب رہیں ۔ اسی طرح وہ ادارے اور گروہ جو قوم کے دفاعی اور مذہبی بیانیوں پر بلا شرکت غیرے اجارہ داری کرتے چلے آ رہے تھے ان قوتوں کیلئے اس بدلتی ہوئ صورتحال سے ایک ایسی فضا پیدا ہو گئ کہ جس میں ان کو سوالات اور تنقید کا سامنا کرا پڑا اوران قوتوں کو چاہتے اور نہ چاہتے ہوئے بھی اس حقیقت کو ایک کڑوی گولی کی مانند نگلنا پڑا۔
ہمارے دفاعی اور مذہبی بیانیوں کے ٹھیکیداروں نے تیزی سے بدلتی ہوئ دنیا کے تقاضوں کے مطابق سوشل میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا کو استعمال تو کیا لیکن اپنی پرانی روش تبدیل کرنے کی کوشش نہیں کی۔ان موثر اور تیز ترین ذرائع ابلاغ کے نتیجے میں ایک کلک یا وڈیو کلپ کے ذریعے عوام حقائق تک نہ صرف باآسانی رسائ حاصل کر لیتے ہیں بلکہ اپنی رائے کا اظہار بھی کر لیتے ہیں۔ ایسی صورتحال میں اب مطالعہ پاکستان میں مسخ شدہ تاریخی حوالوں پر پڑھی لکھی عوام قہقہے لگاتی ہے۔ معلومات تک عام آدمی کی انٹرنیٹ کے توسط سے برق رفتار رسائ نے اب غلط اور فرسودہ بیانیئوں اور پالیسیوں پر اجارہ داری کو ناممکن بنا دیا ہے ۔ ایسی صورتحال میں دہائیوں پرانے رویوں اور بیانیوں کو کم سے کم پڑھی،لکھی عوام پر مسلط کرنا ناممکن نظر آتا ہے۔اس صورتحال میں دفاعی ایسٹیبلیشمنٹ اور مذہبی بیانیے کے ٹھیکیداروں کو اپنے اپنے رویوں اور بیانیوں میں تبدیلی کی اشد ضرورت ہے۔ دفاعی ایسٹیبلیشمنٹ کو اب اس حقیقت کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ آج کی جدید دنیا میں کسی بھی پالیسی یا بیانیے پر نہ تو تن تنہا اجارہ داری قائم کی جا سکتی ہے اور نہ ہی عوام کی رائے کو مسترد کرتے ہوئے کوئ نظریہ زبردستی ذہنوں میں بسایا جا سکتا ہے۔
اچھے سکولوں کالجوں اور جامعات سے پڑھے ہوئے نوجوان اب سر جھکا کر من و عن بیانیوں کو تسلیم کرنے کے بجائے ان پر مدلل سوالات اٹھاتے ہیں اور تنقید کرتے ہیں۔ بطور شہری یہ ان کا بنیادی حق بھی ہے ۔ ملکی وسائل کا زیادہ تر حصہ کب دفاعی بجٹ میں جائے گا تو سوال بھی اٹھیں گے اور تنقید بھی ہو گی۔ چونکہ ماضی میں دفاعی ایسٹیبلیشمنٹ کا کردار سیاسی بھی رہا پے اور وطن عزیز میں چار مارشل لا بھی نافذ کئے گئے اس لئیے دفاعی ایسٹیبلیشمنٹ پر موجودہ حالات و واقعات کے تناظر میں پولیٹیکل انجئنرنگ کے حوالے سے شکوک شبہات بھی جنم لیں گے اور سوالات بھی اٹھیں گے۔یہ ایک فطری عمل ہے جس سے خائف ہونے کے بجائے دفاعی ایسٹیبلیشمنٹ کو اس مجموعی رائے کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنی آئینی اورقانونی ذمہ داریوں تک اپنے آپ کو محدود کر لینا چائیے۔ پڑوس کے ملک بھارت کی مثال ہمارے سامنے ہے جہاں دفاعی ایسٹیبلیشمنٹ اور فوج کے ادارے کا کام بیانیوں کی تشکیل کے بجائے محض سرحدوں کی حفاظت کرنا ہے ۔ یہ ایک سیدھا سا نقطہ ہے کہ جوں جوں عوام باشعور ہوتی جائے گی توں توں دفاعی ایسٹیبلیشمنٹ کا کردار ملکی پالیسیوں ، بیانیوں اور سیاسی انجئینرنگ میں کم ہوتا جائے گا۔ بدقسمتی سے دفاعی ایسٹیبلیشمنٹ کا ایک حصہ اس حقیقت سے فرار اختیار کرتے ہوئے جبری طور پر عوام اور ان کے نمائندوں پر اپنا تسلط قائم کرنا چاہتا ہے۔ دفاعی ایسٹیبلیشمنٹ کے اس حصے کے بارے میں سابق آرمی چیف اور مفرور ملزم پرویز مشرف بھی بابنگ دہل وقتا فوقتا ذکر کرتے رہتے ہیں۔ یہ حصہ یا گروہ دفاعی ایسٹیبلیشمنٹ کیلئے بذات خود اب سبکی کا باعث بننا شروع ہو گیا ہے۔ اس گروہ کو یہ سیدھی سی منطق سمجھ نہیں آ رہی کہ دیو مالائ داستانوں اور پرفریب خوابوں کے دم پر قائم بیانئے اب نہ صرف ناقابل قبول بن چکے ہیں بلکہ کسی بھی فرضی یا حقیقی دشمن سے زیادہ یہ خود اپنے ہی معاشرے کیلئے نقصان کا باعث بنتے چلے جا رہے ہیں ۔
سٹریٹیجک اثاثوں نے وطن عزیز میں اپنوں ہی کو بارود کی آگ میں جھونک کر جو خون کی ہولی کھیلی وہ سب کے سامنے ہے۔ آرمی پبلک سکول کے سانحے سے لیکر لعل شہباز قلندر کے مزار تک ہر کونےمیں ان سابقہ اثاثوں نے اپنی وحشت اور بربریت کے گل کھلائے۔ جبکہ موجودہ اثاثوں کی بدولت نہ صرف کشمیر پر ہمارا موقف عالمی دنیا میں کمزور ہوا بلکہ ہمیں ایک شدت پسند ریاست کے طور پر پوری دنیا میں جانا گیا۔ مذہبی بیانیئے کے سہارے دفاعی بیانیہ تیار کر کے ہم نے اس کے مضر اثرات خوب اچھی طرح سے بھگتے اب بھی اگر دفاعی ایسٹیبلیشمنٹ کا کوئ گروہ یا حصہ اسی فرسودہ بیانئے کے سہارے قوم کو اکیسویں صدی میں بھیڑ بکریوں کی مانند دھکیلنا چاہتا ہے تو خود دفاعی ایسٹیبلیشمنٹ کے کرتوں دھرتوں کو ایسےعناصر کی حوصلہ شکنی اور سرکوبی کی اشد ضرورت ہے۔ اسی طرح سیاست کے کھیل میں دفاعی ایسٹیبلیشمنٹ کے ایک حصے کا دخل دینا بھی پورے ادارے کی بدنامی اور تضحیک کا باعث بنتا ہے۔ سیاست کے محاذ پر گزشتہ ستر برسوں سے کبھی براہ راست اور کبھی بلاواسطہ مداخلت کا نتیجہ ہم کمزور جمہوری نظام اور “مصنوعی رہنماؤں ” کی صورت میں بھگت چکے ہیں۔ اب جب پلوں کے نیچے سے بے تحاشہ پانی بہہ چکا ہے ایسے میں دفاعی ایسٹیبلیشمنٹ کو بذات خود اپنی حد کو از سر نو متعین کرنے کی ازحد ضرورت ہے۔ جو کھیل کبھی پردے کے ہیچھے سے چھپ کر کھیلے جاتے تھے اب ان کو پردے کے پیچھے چھپانا بے حد مشکل بلکہ ناممکن ہے۔
اگر فوج کے تعلقات عامہ کا شعبہ 2014 کے دھرنوں کے دوران اسلام آباد پر عمران خان کی یلفار کے دوران یہ ٹویٹ جاری کرے کہ فریقین یعنی حکومت اور بلوائ مذاکرات کے ذریعے معاملات حل کریں تو پھر وسوسے اور شبہات عوام کے ذہنوں میں سر اٹھائیں گے ۔ کیونکہ اس پیغام سے بلوائیوں کو فریق بنا کر حکومت کےبرابر لا کھڑا کرنے کا تاثر پیدا ہوتا ہے۔ اگر شکریہ راحیل شریف کی ایک منظم مہم ہمہ وقت اس طرح چلائ جائے کہ اس سے یہ تاثر ابھرے کہ ملک کے تمام معاملات راحیل شریف چلا رہے ہیں تو شکوک و شبہات کا پیدا ہونا ایک فطری عمل ہے۔ راحیل شریف کی مدت ملازمت کی معیاد ختم ہونےکے دنوں میں دارلحکومت کو لاک ڈاون کرنے کی عمران خان کی کال یا پھر ڈان لیکس پر حکومتی کاروائ کو مسترد کرنے کی ٹویٹ یہ تمام اقدام واضح طور پر دفاعی ایسٹیبلیشمنٹ اور منتخب حکومت کے درمیان طاقت کے توازن کی رسہ کشی کو کھل کر عیاں کرتے ہیں۔ اور جب نوبت یہاں تک آ جائے کہ ڈی جی آئ ایس پی آر آصف غفور جو کہ انتہائ دھیمے مزاج اور معتدل شخصیت کے مالک ہیں وہ بھی پریس کانفرنس کے زریعے حکومت کے وزیر کے بیان پر ادارے کی جانب سے ناپسندیدگی کا اظہار کریں تو پھر واضح نظر آتا ہے کہ معاملات سیدھے اور واضح نہیں۔آئینی و قانونی طور پر چونکہ فوج حکومت کا ذیلی اور ماتحت ادارہ ہے اس لئیے بجائے ٹویٹ کرنے یا پریس کانفرنس کے ذریعے ناپسندیدگی کا اظہار کرنے کے ,باضابطہ طور پر اگر متعلقہ وزارت کےزریعے پیغامات پہنچائے جائیں تو نہ صرف وطن عزیز میں جاری ہیجانی کیفیت کا خاتمہ کرنے میں معاون ثابت ہو سکتے ہیں بلکہ بذات خود اداروں کی عزت و تکریم میں اضافے کا باعث بن سکتے ہیں ۔
بصورت دیگر اگر اسی طرح ٹویٹس یا پریس کانفرنسوں کے ذریعے ایک دوسرے کو نیچا دکھانے یا اظہار پسندیدگی کا سلسلہ جاری رہا تو حکومت اور دفاعی ایسٹیبلیشمنٹ دونوں کو ہی تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑے گا اور افواہ سازی کا بازار بھی گرم ہو گا۔ چونکہ حکومت سیاسی جماعت کی ہے اور سیاستدانوں کا کام تنقید برداشت کرنا ہوتا ہے کہ سیاست میں دراصل خود پر ہونے والی تنقید بھی اکثر و بیشتر سیاسی جماعت یا سیاسی رہنماوں کو تقویت دیتی ہے اس لئیے حکومت کو اس کا کوئ خاص نقصان نہیں ہوتا۔البتہ دفاعی ایسٹیبلیشمنٹ کا معاملہ قدرے مختلف ہوتا ہے اور تنقید کے ساتھ ساتھ ان کی ساکھ کو بھی اس سے نقصان پہنچتا ہے۔ اگر کچھ عرصہ کیلئے حکومت اور دفاعی ایسٹیبلیشمنٹ محض اپنی اپنی آئینی حدود میں رہتے ہوئے کام کریں اور اختلافات کو ٹویٹ یا بیان بیازی کے بجائے مذاکرات کی میز پر حل کریں تو صورتحال بہتر بھی ہو سکتی ہے اور دفاعی ایسٹیبلیشمنٹ کو اپنے اوپر ہوتی ہوئ تنقید کم ہوتی بھی دکھائ دے گی۔ بصورت دیگر اب محض” وطن خطرے میں ہے” ، “جمہوریت خطرے میں ہے” یا “ی سازشوں کا سامنا ہے” جیسے لالی پوپ ، پڑھی لکھی اور باشعور شہری مڈل کلاس کو بیچنا ناممکن ہے۔ سیاسی اشرافیہ اوردفاعہ اشرافیہ دونوں کو اس حقیقت کا جتنی جلدی ادراک ہو جائے اتنا ہی یہ ریاست کے استحکام اور معاشرے کے پھلنے پھولنے کیلئے فائندہ مند ثابت ہو گا۔