تحریر : محمد اعظم عظیم اعظم اِس میں شک نہیں ہے کہ ہم تاریخ کے انتہائی نازک ترین دور سے گزر رہے ہیں یہ بھی ٹھیک ہے کہ ہم پاکستا نی اور بحیثیت مسلمان دینِ اسلام کی چھتری تلے جمع توضرور ہیں، مگر بڑ ے افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑرہا ہے کہ پھر بھی پتہ نہیں کیو ں؟ ہم بظاہر اچھے اور متحد نظرآنے والے اندر سے با ہم متحدو منظم اور ملی یکجہتی اور یگا نگت کا ویسا نمو نہ نہیں ہیں جیسا کہ ہمیں حقیقی معنوں میں ہونا چا ہئے تھا اور آج جیساکہ ہم سے اپنی بقا ءو سا لمیت کے حوا لوں سے وقت اور حالات تقا ضہ کررہے ہیں ابھی ہمیں بہت کچھ کرنا ہے مگرہم توجھوٹ ، فریب دھوکہ بازی اور اسلامیات ، ایما نیا ت ، دینیات ،اخلاقیات ، سما جیات، سیاسیات، معاشیات ،اقتصادیات اور اقتداریات سے لے کر زندگی کے ہر شعبے میں دونمبری مشہور ہو گئے ہیں۔
اگر ابھی ہم نے اپنا محا سبہ اور احتسا ب نہ کیا توخدشہ ہے خا کم بد ہن ہم کہیںقصہ پا رینہ نہ بن جا ئیں ،قبل اِس کے کہ ایسا کوئی بُرا لمحہ یا وقت آئے ،ا للہ ہمیں تو بہ کرنے اور خود کو سُدھارنے اور صحیح معنوں میں پکا پاکستا نی اور سّچا مسلمان بننے کی تو فیق عطا فرما ئے(آمین یا رب العالمین)۔ اِس سے اِنکار نہیں کہ پا کستان بنانے والے ہما رے با نیان نے تو پاکستان سو فیصد صحیح بنا یا تھا مگر گزشتہ ستر سا لوں میں سرزمینِ پاکستان پر جن سِول اور آمر حکمرانوں اور اِن کے اُدھر اُدھر کے چیلے چپاٹوں کی جیسی حکمرانی قا ئم رہی اور ہنون جا ری ہے اِن سب ہی نے اپنی جیب اور پیٹ بھر نے ا ور اپنے مفادات والی سوچ پر حکمرا نی کی ہے اِن میں سے کبھی بھی کسی سِول یا آمر حکمران نے اپنے مفادات سے ہٹ کر مُلک اور قوم کے بہتر مستقبل اور فلا ح و بہبود کے جذ بوں سے سرشارہو کر اپنا حقِ حکمرا نی ادا نہیں کیا ہے اگر کسی نے بھی اپنے سے زیادہ مُلک اور قوم کے مفادات اور فلا ح و بہبود کو مقدم جان کر اپنا مسندِ اقتدار سنبھالا ہوتا تو مُلک و قوم نہ اپنے بنیا دی حقوق سے محروم رہتی او ر نہ مُلک کی ترقی کاکبھی پہیہ رکتا اور نہ ہی پاکستا ن توا نا ئی کے طرح طرح کے بحرانوں میں جکڑاجا تا اورنہ ہی پاکستا نی قوم دہشت گردی ، لوٹ مار قتل و غارت گری کا شکار ہو کر بیرونی قرضوں کے بوجھ تلے دھنس کر مہنگا ئی کے نہ ختم ہو نے والے طوفان سے تباہ حال ہو کر مشکلات ا ور پریشا نیوں کے منہ میں پس رہی ہوتی۔
آج یقینا سرزمینِ پاکستان اور پوری پاکستانی قوم کو دنیا کی غر بت اور لا چا رگی کے اندھے کنوئیں میں دھکا دینے والے ہما رے ما ضی و حا ل کے (سِول اور آمر) حکمرا ن ہیں، آج مُلک اور قوم کو اپنے ذاتی اور سیاسی مفادات کے لئے استعمال کرنے والے سیاسی ( نوازا ور زرداری)خا ندانوں نے مُلک اور مُلکی آئین اور عوام اور قومی اداروں کو تواپنا غلام اور اپنی لو نڈی سمجھ لیا ہے،جن کے کبھی ستارے نہیں ملتے تھے آج یہ سارے سیاسی باز ی گر کبھی میثاقِ جمہوریت یا مذاقِ جمہوریت تو کبھی NROتو کبھی معا ہدہ بھور پن پر بغل گیر ہوئے اور آئندہ والے دِنوں میں پھر یہ سب اپنے اپنے مفادات کے تحفظ اور اقتدار کے لئے ایک ہو نے کو ہیں ایسے ہی جیسے یہ کبھی بیٹھے بیٹھا ئے ایک دوسرے کے قومی خزا نوں کو لوٹ کر بنا ئے گئے اپنے بڑے بڑے محلوں میں کھا نے کی ٹیبلو ں پر سیاسی محبت کا دم بھر تے ہوئے ایک دوسرے کے منہ میں لقمہ ٹھونستے نظر آئے ہیں یعنی یہ کہ یہ اپنے مفادات کے حصول میں آج اتنے گر گئے ہیں کہ ایک طرف تو عوام می نظروں میں دُھول جھو نکنے کے لئے کبھی نوراکُشتی کرتے ہیں تو اکثر و بیشتر یہ اپنے تمام مصنوعی سیا سی اختلافات کو بھلا کر خالصتاََ اپنے ذاتی اور سیاسی مفادات کے خاطر ایک گھاٹ پر پا نی پیتے بھی دِکھا ئی دیتے ہیں، ن لیگ اور پی پی پی کے سیاسی خاندانوں کے درمیان ایک بڑے عرصے سے یہی کچھ ہوتا چلاآرہاہے اورپھر ہو نے کو جا رہاہے جبکہ اِدھر بیچارے پریشا نیوں میں جکڑے بد حال عوام ہیں کہ یہ اِن دونوں خا ندان والوں کا سیاسی کھیل سمجھ ہی نہیں پا رہے ہیں۔ اَب ایک بار پھر مملکت ِ پاکستان کے سیاسی خاندان ن لیگ اور پی پی پی والے اور میرے دیس کے بہروپئے سیاستدان اپنی بڑی بڑی کرپشن کو احتساب کے عمل سے بچا نے کے لئے نیب کا نیا چیئر مین بھی لے آئے ہیں۔
اَب امتحان تو سیاسی خاندانوں ، سیاستدانوں اور نیب جیسے قومی احتساب بیورکا شروع ہو اہے،دیکھنا یہ ہے کہ آج قو می احتساب بیورو کی سربراہی کے منصبِ اعلیٰ پر سیاسی خاندان والوں اور اِن کے اِدھر اُدھر کے حواریوں نے جن ذاتی اور سیاسی مقاصد کے حصول کے خاطر سُپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس جا وید اقبال کو نیب کی سربرا ہی سونپی ہے یہ مسٹر جاوید اقبال صاحب سیاسی خا ندانوں اور سیاستدانوں کے دباو ¿ میں آتے ہیں ؟؟ یا اپنی ایماندارا نہ صلا حیتوںاور اپنی فطرتاََ اور عادتاََ کھرے پن کو بروئے کار لا تے ہوئے مُلک اور قوم میں کرپشن کے زہر کو نکالا باہر پھینکنے اورقوم کے بہتر اور تابناک مستقبل کے خاطر کرپشن کی گھٹی میں تر کرپٹ سیاسی خا ندانوں اور سیاستدانوں کا کڑا احتساب کرتے ہیں،ا ٓج اگر سا بق جج جسٹس جا وید اقبال نیب کا منصبِ خا ص سنبھالنے کے بعد اپنی ذمہ داریاں احسن طریقے سے انجام دیتے ہوئے اپوزیشن اور قوم کے معیار پر پورا اُترتے ہیں تو اُمید کی جا سکتی ہے کہ مُلک سے کرپٹ عنا صر کا خاتمہ ممکن ہوسکے گا ورنہ ، نہ صرف نیب جیسے قومی احتساب بیور بلکہ اعلیٰ منصب پر فا ئز شخصیات کے دُہرے معیار پر بھی قوم سوالیہ نشان لگا نے سے دریغ نہیں کرے گی۔یہ پاکستانی سرزمین پر حکمرا نی کرنے والوں کا طرہ امتیاز بن گیا ہے کہ مُلک اور قوم کی ترقی اور خوشحالی کے نام پر بیرونی آقاو ¿ں کے اشاروں اور ڈکٹیشنز پر عمل کرتے رہے اور اپنی دال دلیہ چلاتے رہو، مُلک اور قوم کی حالتِ زار کی بہتری کے خاطر اربوں کی امداد اور قر ضے تو لو مگر اِنہیں مُلک کو بحرا نوں اور قوم کو مہنگا ئی سے نجات دلانے کے بجا ئے ساری رقوم اپنے اور اپنے خاندانوں کے افراد کے نا موں سے کھولے گئے بیرون ممالک سوئس بینکوں اور دیگر عالمی بینکوں کے اکاونٹس /کھاتوں میں منتقل کرواور اثا ثے بڑھا تے جا و ¿، اورقومی خزا نے کو لوٹ کھا و ¿ اورمُلک اور قوم کا ستیاناس کرتے جاو ¿، بھا ڑ میں جا ئے قومی وقار بس اپنا وقار اورامیج مجروح نہ ہو نے دو،اور جب کبھی آف شورکمپنیاں سا منے آجا ئیں تو پھر اعلیٰ عدلیہ سے اپنی نا اہلی پر چیخ چیخ کر ” مجھے کیوں نکالا؟ مجھے کیو ں نکالا؟؟ کی رٹ لگاتے سڑکوں پر نکل آ و ¿، قوم اداروں کے خلاف مشتعل کردو اور پھر قوم اور اداروں کو لڑوا کر اپنا اپنا اُلو سیدھا کرتے جا و ¿، آ ج کچھ میرے پاکستان میں اہمیت اختیار کرگیاہے۔آج ایک طرف میرے مُلک میں سیاسی خاندان ن لیگ اور پی پی پی کے عیار مکار سیاستدان اور حکمران ہیں جو اگلے انتخابات میں اپنی اپنی باریوں کے مطابق اقتدار کے حصول کے لئے ہر نا جا ئز عمل کو جا ئزقرار دلوا نے پر تُلے بیٹھے ہیں تو دوسری جا نب ستر سالوں سے سیاستدانوں کے ہا تھوں اپنی آنکھوں پر سیاہ پٹی با ندھے مفلوک الحال، نیم مدہوش ،پاگل اور لٹو کی طرح دو وقت کی رو کھی سُوکھی روٹی کے حصول کے لئے ناچتے عوام ہیں کہ جو ابھی تک مُلک میں عیار و مکار سیاسی خا ندانوں ن لیگ اور پی پی پی والوں کی چالاکیا ں سمجھنے کے لئے ہوش میں آنے اوراپنی عقل سے کام لینے کو تیار ہی نہیں ہیں۔
آج یہ کتنے افسوس کی بات ہے کہ ا بھی پاکستا نی عوام کی ایک اچھی خا صی تعدا د سا بق وزیراعظم نوازشریف کی پانا ما لیکس کے ایشو پر اقا مہ پر نا اہلی کے فیصلے کو یہ کہہ کر” ایک نوازشریف نے ذراسی کرپشن کیا کرلی ہے تواِسے نا اہل قرار دے کر عوامی مینڈیٹ کی توہین کرتے ہوئے کان سے پکڑکرنکال باہر کردیا گیا ہے جبکہ دوسرے بھی تو کرپٹ ہیں جن کا کسی نے کچھ نہیں بگاڑا ہے“ تسلیم کرنے کو تیار ہی نہیں ہیں جبکہ یہ بھی سوچنا چا ہئے کہ جب اِسی سرزمین پراِن جیسا کو ئی بھوکاغریب ایک روٹی چوری کرلیتا ہے تواُسے یہی قا نون فوراََ سزادیتا ہے۔(ختم شُد)