یہ ہماری بدقسمتی رہی ہے کہ وطن عزیز میں قائم ہونے والی زیادہ تر حکومتیں درینہ عوامی مسائل کو حل کرنے میں اپنی توانائیاں اور توجہ صرف کرنے کے بجائے اپنے سیاسی مسائل کی گتھیاں سلجھانے میں مگن رہتی ہیں۔ ہر نئی آنے والی حکومت ، ہرجانے والی حکومت پر طنز کے نشتر چلاتی ہے اور اسے ہی تمام تر مسائل کا ذمہ دار ٹھہرا کر خود کو بری الذمہ ثابت کرنے کی گویا ناکام سعی میں مصروف دکھائی دیتی ہے۔ “مسائل ہمیں ورثے میں ملے ہیں “حکومتی زعمائوں کا پسندیدہ ترین جملہ بنا رہتا ہے اور وہ ہر میڈیا ٹاک میں بھی یہی تاثر دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ ملک اور عوام کو درپیش مشکلات کا تسلسل ماضی سے جڑا ہوا ہے۔
ہمارے یہاں بڑے سے بڑا عوامی مسئلہ تو اکثر اوقات حکومتی توجہ حاصل نہیں کر پاتا جبکہ اس کے مقابلے میں کسی ایک قومی یا صوبائی اسمبلی کی خالی نشست پر ہو نے والا ضمنی الیکشن پوری حکومت کی نظر میں اس قدر اہمیت کا حامل ٹھہرتا ہے کہ تمام تر حکومتی مشینری اس حلقہ کے الیکشن میں حصہ لینے والے حکومتی امیدوار کی حتمی جیت اور یقینی کامیابی کے لیے سو طرح کے جتن کرتی اور ایڑی چوٹی کا زور لگا تی ہے۔
اس لیے کہ حکومت اس ہار جیت کو اپنے لیے انا، ہتک، عزت ، فتح اور ناکامی کے تصور میں شمار کرتی ہے ۔ لیکن حیرت ہوتی ہے کہ ملک بھر میں مسائل کے گرداب میں دھنسے اور جکڑے ہوئے کروڑ ہا لوگوں کی مشکلات کو اپنے لیے کوئی حکومت چیلنج اور ناکامی کے پیمانے سے تعبیر کیوں نہیں کرتی ؟کیا ہمارا سیاسی شعور ابھی تک قطعی طور پر اس نہج کو نہیں پہنچ سکا اور نہ ہی اس قدر بلند ہوا ہے کہ ہم سیاست کے طے شدہ قوانین اور مروجہ اصولوں کی پاسداری کو بطور حکمران یا سیاستدان اپنا شعار بنائیں ؟ حالیہ امریکی انتخابات کے دوران امریکہ میں دونوں صدارتی امیدواروں ڈونلڈ ٹرمپ اور جوبائیڈن کے حامیوں کے درمیان گھمسان کا جو رن پڑا توقرائن یہی بتا رہے تھے کہ یہ فسادات اور ہنگامے اس قدر طوالت اور شدت اختیار کر جائیں گے جنھیں روکنے میں نئی حکومت کو کافی عرصہ درکار ہوگامگر حالات کی اس قدر سنگینی کے باوجود انتقالِ اقتدار کے بعد موجودہ امریکی صدر نے کسی دن بھی ڈونلڈ ٹرمپ کو تنقید کا ہدف نہیں بنایا اور نہ ہی وہ سر پکڑ کر بیٹھے ہوئے ہیں کہ سابقہ حکومت نے امریکہ کو اتنا نقصان پہنچایا کہ اب حالات کو معمول پر لانے کے لیے بہت برس چاہئیں بلکہ ان کی توجہ شروع دن سے امریکی مفادات اور امریکہ کی بہتری پر مرکوز ہے۔
کرہ ارض پر نظامِ حکومت چلانے کا مروجہ اصول بھی یہی ہے کہ جب کوئی لیڈر شپ اور سیاسی جماعت کسی ملک کا اقتدار سنبھال لیتی ہے تو وہ ماضی کی حکومتوں کی ناکامیوں کا رونا رونے اور ڈھنڈورا پیٹنے کے بجائے عوامی فلاح کے لیے عملی اقدامات اٹھا کر یہ ثابت کرنے کی جدوجہد میں مصروفِ عمل رہتی ہے کہ وہاں کے عوام سابقہ حکومتوں کی نسبت ان کے دورِ حکومت کی کارکردگی میں نمایاں بہتری محسوس کریں ۔ تحریک انصاف کی حکومت کو قائم ہوئے تین برس ہونے کو ہیں ۔ اقتدار کے پہلے سو دنوں میں ملک اور عوام کی تقدید بدلنے کی دعویدار تحریک انصاف کی کارکردگی ، گڈ گورننس اور عوامی ریلیف کے حوالے سے قابلِ ذکر یا خاطر خواہ ہر گز نہیں ۔ بلاشبہ مہنگائی ایک ایسا عنصر ہے جس سے ملک کی سو فیصد آبادی یقینی طور پر متاثر ہوتی ہے۔
ہر آئے دن اشیائے ضروریہ کی قیمتیں بڑھنے کے ساتھ ساتھ پٹرولیم مصنوعات اور بجلی کی قیمتوں میں ہوشرباء اضافے کے باعث کسان، کاشتکار خاص طور پر عام آدمی، مزدور ، دیہاڑی دار اور سفید پوش طبقے کی زندگی اجیرن ہو کر رہ گئی ہے۔پاکستان بیورو آف شماریات کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق صرف ماہِ فروری میں مرغی کی قیمت میں 37فیصد، بجلی چارجز میں 29.45فیصد، خوردنی تیل میں 11.92فیصد ، پھل 9.26فیصد، گھی 9فیصد، دالیں 5.50فیصد، گاڑیوں کا ایندھن 1.64فیصد اور چاول کی قیمت میں 1.20فیصد اضافہ ہوا۔اسی طرح گزشتہ چار ماہ کے دوران گندم اور آٹا کی قیمتوں میں بالترتیب 23.79فیصد اور 13.51فیصد اضافہ ہوا۔
اِس برق رفتاری کے ساتھ بڑھتے ہوئے مہنگائی کے حالیہ طوفان کے باوجود مہنگائی کو کنٹرول کرنے کے حوالے سے حکومت کا غیر سنجیدہ رویہ اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ حکومت شاید اتنے بڑے عوامی مسئلہ کو بھی کوئی خاص اہمیت دینے کو تیار نہیں ہے۔ جو کہ ایک نہایت افسوس ناک امر ہے۔ وطن ِ عزیز کے غریب عوام تحریک انصاف کی حکومت، قیادت اور پالیسی سازوں سے یہ سوال کرنے پر مجبور ہیں کہ مہنگائی کی وجہ سے پیدا ہونے والی اس خوف ناک صورت حال میں انہیں گھبرانے کی اجازت ہے یا نہیں ؟