١٨ویں اور ١٩ ویں آئینی ترامیم اس لحاظ سے شاہکار تر امیم تھیں کہ یہ متفقہ طور پر منظور ہوئی تھیں لیکن ان ترامیم کے بعد جمہوری سوچ کو بڑی زک پہنچی کیونکہ ان ترامیم کے بعد کوئی اسمبلی ممبر اپنی قیادت کے خلاف نہ ہی اظہارِ خیال کر سکتاہے، نہ ہی اس کے کسی فیصلے سے اختلاف کر سکتا ہے اور نہ ہی اس پر تنقید کر سکتا ہے اور جو کوئی ایسا کرنے کی کوشش کرے گا پارٹی چیف اس کے خلاف سپیکر قومی اسمبلی کو ریفرینس بھجوا کر اسے اسمبلی سے فارغ کروا دیگا۔یہ ترمیم بد ترین آمریت کی انتہائی بد نما اور بھونڈی کوشش تھی جس کا مقصد اپنی جماعت وں کے اندر ہر قسم کی آوازوں کو دبا نا تھا تا کہ پارٹی چیف کا رعب و دبدبہ اورتسلط قائم رہے اور ممبرانِ اسمبلی اس کے سامنے قاسہِ گدائی لئے کھڑے رہیں۔
وہ اپنے ضمیر کی آواز ،سچائی کے وجدان اور حق کے اظہار سے محروم رہیں، پارٹی قائد کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے سچائی کا گلہ گھونٹ دیں اور کوئی ایسی بات کرنے کی کوشش نہ کریں جو پارٹی چیف کی طبعِ نازک پر ناگوار گزرے۔ان ترامیم کے خلاف اس وقت چند آوا زیں اٹھی تھیں ، جن میں خو اجہ سعد رفیق، مخدوم جاوید ہاشی اور شمائلہ طارق بڑی واضح تھیں لیکن ان کی سنی ان سنی کر دی گئی اور یوں یہ ترامیم آئین کا حصہ بنا دی گئیں ۔ا ن ترامیم نے مک مکائو کی ایسی سیاست کو جنم دیا جس نے احتساب او رجوابدہی کے سارے فلسفے کی دھجیاں بکھیر کر رکھ دیں۔
اس کے نتیجے میں جو حکومتیں بنیں وہ حکومت اور اپوزیشن لیڈر کی باہمی ضا مندی سے تشکیل پائیں اور چند خاندانوں کے اقتدارکو قائم رکھنے کی سازش کا سب سے مضبوط ہتھیار بنیں۔انہی ترامیم کی وجہ سے عوام کا مقدر غلامی بنا اورچند مخصوص خاندان پاکستان کے سیاہ و سفید کے مالک قرار پائے ۔ان ترامیم کو جسطرح جمہوریت کی بقا کا ضامن بنا کر پیش کیا گیا تھا وہ بھی سب کے سامنے ہے۔ ان ترامیم کے بعد ڈھندور چیوں نے جس طرح آسمان سر پر اٹھا لیا تھا وہ بھی کسی سے پوشیدہ نہیں ہے ۔پتہ نہیں ہم یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ وقت کا پہیہ کسی انسان کے قابو میں نہیں ہوتا ۔وقت اپنا راستہ خود بناتا ہے۔
لوگ اپنے مکرو فن سے انسنانی اذہان پر جب بھی قابض ہونے کی کوشش کرتے ہیں فطرت کے اندر سچائی اپنا راستہ بنانے کیلئے کسی دیدہ ور کو سامنے لا کر کھڑا کر دیتی ہے اور پھر سچ اپنا لوہا منواکر رہتا ہے۔دنیامیں کوئی ایسا خاندان نہیں ہوا جسکی سدا بادشاہی قائم ہوئی ہو۔ ہر خاندان ایک نہ ایک دن زوال پذیر ہو کر تاریخ کا حصہ بن جاتا ہے۔ پاکستان کی ٦٧ سالہ تاریخ اسکی سب سے بڑی گواہ ہے لیکن ہم پھر بھی عقل و شعور سے کام نہیں لیتے۔،۔
متذکرہ بالا ترامیم کی رو سے انتخا بات ٢٠١٣ کیلئے من پسند افراد الیکشن کمیشن کے ممبر بنائے گئے اور چیف الیکش کمشنر کا عہدہ بے اثر کر دیا گیا تا کہ جوابدہی کا تصور کمزور پڑ جائے ۔ نگران حکومتوں میں ان افراد کو چن چن کرنامزد کیا گیاجھنوں نے دونوں بڑی جماعتوں کی جیت کیلئے میدان صاف کرنا تھا ۔ پنجاب میں یہ قرعہِ فال نجم سیٹھی کے نام نکلا اور انھوں نے جس تندہی سے مسلم لیگ (ن) کے لئے کام کیا وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔وہ دھاندلی کی وکٹ پر اس تیزی سے بھاگے کہ سب پر بازی لے گئے اور پنجاب میں جس طرح انھوں نے پنکچر لگانے کا کارنامہ سر انجام دیا وہ اب کوئی راز نہیں رہا۔
ان کے کارناموں کے ہر سو چرچے ہیں، ان کی فن کاری کے ہر سو تذکرے ہیں اور ان کی ضمیر فروشی کا ہر سوشو رہے ۔ نجم سیٹھی کو اس عظیم خدمت کے عوض جس طرح نوازا گیا وہ بھی سب کے سامنے ہے۔ پہلے کرکٹ کٹرول بورڈ کا چیرمین بنایا گیا اور جب عوام نے اس پر ناپسندیدگی کا اظہاار کیا تو ا نھیں اس سے الگ کر دیا گیا۔عدالت نے بھی ان کی تقرری کو غیر آئینی قرار دے کر فارغ کر دیا لیکن نجانے ان کی ذات میں کونسا ایسا گہرِ نایاب ہے کہ ا نھیں ایک دفعہ پھر پاکستان کرکٹ بورڈ کا سی ای او(چیف ایگزیکیٹو )بنا دیا گیا ہے اور یوں کرکٹ کے سارے معاملات ایک دفعہ پھر ان کے حوالے کر دئے گئے ہیں۔
عوام ابھی تک یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ ایک سکے بند صحا فی میں وہ کونسا وصفِ خا ص ہے کہ اسے باربار کرکٹ کے معاملات سونپے جا رہے ہیں۔ کرکٹ کے پروفیشنل اور کرکٹ کی سوجھ بوجھ رکھنے والے بھی ششدر ہیں کہ نجم سیٹھی میں اچانک کون سے ایسے ٹیلنٹ نے جنم لے لیا ہے جس کی بناء پر وہ کرکٹ کے ناخدا بنا دئے گئے ہیں۔کرکٹ ان کا میدان نہیں ہے لیکن اس کے باوجود وہ کرکٹ کے باس ہیں کیوکہ میاں محمد نواز شریف ان کی پشت پر ہیں۔
Pakistan
کر کٹ پاکستان کا سب سے مقبول کھیل ہے جو اس بات کا تقاضہ کرتا ہے کہ اس کھیل کے معاملات کو ان لوگوں کے سپرد کیا جائے جو اس کے اہل ہیں اور اسے سمجھتے ہیں اور جھنوں نے اس خا رزار میں اپنی ساری زندگی صرف کی ہے لیکن ایسا کرنے کی بجائے معاملات ایک ایسے شخص کے حوا لے کئیے گئے ہیں جو کرکٹ کی الف ب سے بھی واقف نہیں ہے ۔ ایسا کیوں ہو رہا ہے اسے سمجھنے کیلئے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں ہے ۔قصہ یہ ہے کہ ١١ مئی ٢٠١٣ میں نجم سیٹھی نے جسطرح مسلم لیگ (ن) کو پنچر لگا کر خوش کیا تھا اس کا کوئی تو صلہ ہونا چائیے تھا اور کرکٹ کی سردا ری اسی دھاند لی کا معرکہ سر کرنے کا صلہ ہے۔،۔
محمد افضل خان (سابق ڈپٹی سیکر ٹری الیکشن کمیشن ) نے ٹیلیویژن پر آ کر جس دھڑلے سے انتخابات ٢٠١٣ کی شفافیت کا پردہ چاک کیا ہے اس نے ان انتخابات کے بارے میں رہی سہی کسر بھی پوری کر دی ہے ۔ اب تو بچے بچے کی زبان پر ہے کہ ان انتخا بات میں ریکارڈ دھاندلی ہوئی ہے۔ان انکشافات کے بعد اس بات میں کوئی شک و شبہ باقی نہیں رہ جاتا کہ مئی ٢٠١٣ کے انتخا بات دھاندلی زدہ تھے اور میاں برادران نے اس میں جی بھر کر لوٹ مار مچائی تھی۔وہ حلقے جہاں پر مسلم لیگ (ن) کے امید وار ایک بڑے فرق کے ساتھ ہار رہے تھے ان حلقوں میں وہ ہزار ہا ووٹوں سے جیت گئے ۔نہ جیتنے والوں کو یقین آیا اور نہ ہارنے والے سمجھ پائے کہ یہ سب کچھ کیسے ہو گیا؟پی پی پی پنجاب کی حد تک کافی کمزور ہو چکی تھی لیکن پھر بھی چند نشستوں پر جیت کی امیدوار تھی لیکن وہ بھی دھاندلی کی نذر ہو گئیں۔
لیکن تحریکِ انصا ف جو نئے ووٹرز کو پولنگ سٹیشنوں تک لائی تھی، اسے اس ہار نے آدھ موا کر دیااور اس کیلئے یہ نتائج کسی صدمے سے کم نہ تھے ۔ اگر تحریکِ انصاف کے امیدوار ابتدائی نتائج میں ہار رہے ہوتے تو پھر کوئی اچھنبے کی بات نہ تھی لیکن وہ تو ابتدائی نتائج میں پورے پاکستان میں جیت رہے تھے لیکن جیسے ہی رات کے سائے گہرے ہوتے گئے نتائج بھی بدلتے چلے گئے اور صبح ہونے تک ہارنے والے فاتح قرار پائے اور جیتنے والوں کا مقدر ہار بنی جو آج تک تحریکِ انصاف کیلئے معمہ بنی ہوئی ہے ۔تحریکِ انصاف نے اس شکست کے اسباب کی کھوج لگانے کے لئے ایک خصوصی کمیٹی تشکیل دی جس نے پاکستان کے چار حلقوں میں وو ٹو ں کی دوبارہ گنتی اور انگوٹھوں کی شناخت کا مطالبہ کر دیا۔حکومت نے اس مطالبے پر کوئی کان نہ دھرااور یوں یہ معاملہ بڑھتے بڑھتے اس لانگ مارچ تک آن پہنچا جو ١٤ اگست کو شروع ہو کر ریڈ زون میں پہنچ چکا ہے۔
لاکھوں لوگوں کی ریڈ زون میں موجودگی سے کاروباِ زندگی معطل ہو چکا ہے اور ہر آنے والا دن اس بحران کی شدت میں اضافہ کا باعث بن رہا ہے ۔اس لانگ مارچ مین عمران خا ن نے میاں محمد نواز شریف کے استعفی اور نئے انتخا بات کا مطالبہ کر دیا ہے اور ان کا اصرار ہے کہ وہ میاں محمد نواز شریف کا استعفی لئے بغیر اسلام آباد سے نہیں لوٹیں گئے۔ معاملات کی سنگینی کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے حکومت نے مذاکرات کا ڈول ڈ الا لیکن مذاکرات بھی تعطل کا شکار ہو گئے کیونکہ میاں محمد نواز شریف مستعفی ہونے سے انکار ی ہیں۔حکومت کا کہنا ہے کہ کچھ بھی ہوجائے میاں محمد نواز شریف مستعفی نہیں ہوں گئے کیونکہ عوام نے نھیں اپنے وو ٹو ں سے منتخب کیا ہے جبکہ تحر یکِ انصاف کا موقف یہ ہے کہ مسلم لیگ (ن کا مینڈیٹ جعلی ہے کیونکہ اس نے انتخابا ت میں دھاندلی کی ہے۔
حکومت اب چار حلقوں میں تحریکِ ا نصا ف کے دوبارہ گنتی کے مطا لبے کو بھی ماننے پر آمادہ ہو چکی ہے لیکن عمران خان اب میاں محمد نواز شریف کے استعفی سے کسی بھی صورت میں دستبردار ہونے کو تیار نہیں ہیں۔ وہ ہر آنے والے دن کے ساتھ مزید جارحانہ انداز اپنا رہے ہیں۔ان کا یہ جار حا نہ انداز کیا نئے پاکستان کی بنیادیں رکھنے میں کامیاب و کامران ہو جائیگا یا سٹیٹسکو کی بے رحم طا قتیں اس مہلک وار سے بچ جائیں گی اور عوام یونہی طوقِ غلامی پہنے رہیں گی؟