تحریر : سجاد گل اپنی ملت پہ قیاس اقوامِ مغرب سے نہ کر خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی ایک طرف اپنے پیرومرشد علامہ اقبال کا شعر پڑھتا ہوںاور دوسری طرف انسانوں کے ریوڑپر نگاہ ڈالتا ہوں تو اس ریوڑ کی حالتِ زار پر ترس آتا ہے،یقیناآپ کے ذہین میں یہ بات آرہی ہو گی کہ ریوڑ تو جانوروں کے ہوتے ہیں، انسانوں کی جمعیت کو توقوم کا نام دیا گیا ہے،جی میں بھی اس مفروضے پر صدق دل سے ایمان رکھتا ہوں، مگر اس کے ساتھ ساتھ اس بات پر بھی یقین ہے کہ قوم ایک عظیم لفظ ہے ،جو انسانوں کے کسی بھی ریوڑ پر نصب نہیں کیا جا سکتا،اس بات کی دلیل میں اللہ رب العزت کی عظیم کتاب سے بھی پیش کر سکتا ہوں،سورہ الاعراف کی آیت نمبر179 میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ، جو لوگ صرف موج مستیوں میں مگن ہیں اور اپنی زندگی کے اصل مقصد سے غافل ہیں ،ایسے غافل لوگ جانور ہیں، بلکہ جانوروں سے بھی گئے گزرے۔
ملک میں ادھم مچا ہوا ہے ، ہندوستان ہمیں دھمکیاں دے دے کر ہمارے وطن میں تخریب کاری کر رہا ہے،بچو ں کے لاشے اٹھا اٹھا کر ہم تھک چکے، ہزاروں جوان فوجیوں کے جنازے ہم اپنی آنکھوںسے دیکھ چکے،کتنے گھر وں کے آنگن میں خزاں نے بسیرا ڈال لیا،کتنی بیٹیوں اور بہنوں کے سہاگ اجھڑگئے،کتنے بچوں کو یتیمی کا روگ لگ گیا،جب خبر آتی ہے دہشتگردوں سے مقابلہ کرتے ہوئے کیپٹن حفیظ جام شہادت نوش کر گئے، تین ماہ بعد شادی تھی،ذرا تصور تو کریں اس کے اہلِ خانہ پر کیا گزرتی ہوگی، نہ ہمارے اسکول محفوظ نہ ہی کالج ، نہ ہی جامعات اور نہ ہی پارک اور بازار،نہ ہی مسجدیں محفوظ اور نہ مدارس ،دہشتگردی کا یہ ناسور ہے کہ ٹلنے کا نام نہیں لے رہا ،اور دوسری طرف ہمارے بے حس حکمران جنکا اندازِ حکمرانی نہایت شرم ناک،رسول اللہ ۖ نے فرمایا تھا کہ مسلمان ایک جسم کی مانند ہیں جب جسم کے کسی ایک حصے میں تکلیف ہوتی ہے تو پورا جسم اسکا درد محسوس کرتا ہے،سوال یہ ہے کہ کیا یہ حکمران بھی ان تڑپتے ہوئے لاشوں کا درد محسوس کرتے ہیں، اٹھتے ہوئے جنازوں پر ان کے دلوں میں بھی کوئی ٹیس اٹھتی ہے، یا پھر وہی نظر وہی عشق وہی عاشقانہ انداز برسوں بعد بھی نہ گیا کافر کا ،کافرانہ انداز
کوئٹہ میں پولیس ٹریننگ کالج میں دہشتگرد گھس آئے ، خون و کشت کا بازار گرم، 63 کیڈٹ کے تابوت ان کے نواہی علاقوں میںپہنچا دئیے گئے، وزیرِ اعظم کی اس سانحہ پر پُر زرر مذمت،اور کہا کے مجرموں کو انجام تک ضرور پہچایا جائے گا،جانے دیجیئے جناب، اب تو عادت سی ہو گئی ہے آپ کے یہ بھاشن اور بھڑکیں سنتے ہوئے،میں تو سمجھتا تھا سب سے زیادہ بھڑکیں مولوی مارتے ہیں مگر اب حقیقت آشکار ہو چکی کہ اس کار خیر میں اول پوزیشن سیاستدانوں کی ہے،ن لیگ کے مردار شیرو تم اپنے آپکو شیر کہتے ہو ، میرے آقا ۖنے بھی دلیر آدمی کو اسداللہ (یعنی اللہ کا شیر کہا تھا) پتہ نہیں آپ کے ہاں شیر کس معیار پہ کہاجاتا ہے،دنیا تمہیں شیر کہتے ہوئے فخر محسوس کرے گی اگر تم اپنے ہی پاکستانیوں پر دھاڑنے کے بجائے مکار دشمن بھارت پر دھاڑو، تمارے تیور بتاتے ہیں کہ تم نے انڈیا کو ناراض نہ کرنے کی قسم کھائی ہوئی ہے۔ بس اپنی مستی میں ٹن ،کرسی کے نشے میں پاگل،اقتدار کی ہوس کا جنون ،سروں میں ایک ہی سودا سوار”کرپشن کرپشن اور پھر کرپشن” اتنی کہ 165ممالک میں پندرویں نمبر پر۔
Kulbhushan Yadav
ہم کتنے کلبھوشن یادیو اور پکڑیں گئے تو ہمیں یقین ہو گا کہ ہمارا وہ پڑوسی جس سے ہم تجارت کی پینگیں بڑھانے کے لئے مرے جا رہے ہیں وہ مکار اور خطرناک دشمن ہے اور بس،ہمیںاور کتنے اجیت کمارڈوول بلوچستان کو پاکستان سے الگ کرنے کی دھمکیاں دیں گے تو ہمیں عقل آئے گی اور ہم تسلیم کریں گے کہ بھارت ہمارا صرف دشمن ہے باقی سب اسکی عیاری ومکاری ہے، اگر کوئی شخص بغیر بالوں والے صاحب سے یہ امید رکھتا ہے کہ وہ بھارتی جارحیت کا منہ توڑ جواد دیں گے تو وہ احمقوں کی جنت میں رہتا ہے، آخر وہ تو ٹھہرے کاروبار ی ،سونے پہ سہاگہ کاروبار بھی بھارت میں۔دوسری طرف عمران خان کی قلابازیاں اور پینترے ختم ہونے کا نام نہیں لے رہے ”کچھ بھی ہو جائے 2نومبر کا دھرنا نہیں رک سکتا کیوں کہ ہم جب بھی دھرنے اور احتجاج کی طرف جاتے ہیںکسی نہ کسی طرف کوئی نہ کوئی پٹاخہ پھٹ جاتا ہے اور سانحہ رونما ہو جاتا ہے ، غالب نے اپنے آپکو کہا تھا” شرم تم کو مگر نہیں آتی” دراصل یہ شعر فٹ ان سنگدل حکمرانوں پہ ہوتاہے،ہمارے ان رویوں سے دنیا کے سامنے ہمارا کیا امیج جاتا ہے، واللہ دنیا ہم پر ہنستی ہے۔
فیس بک پر کسی غیر ملکی سے فرینڈ شپ ہو اُسے بتایا جائے کہ میں پاکستان سے ہوں ،آگے سے جواب ملتاہے، اچھا اچھا وہ ملک جس میں بم دھماکے بہت زیادہ ہوتے ہیں، ایک طرف یہ صورت حال ہے اور دوسری طرف سیاسی لوٹوں کا طوفانِ بدتمیزی، اور یہ حالت۔ ہم وہاں ہیں جہاں سے ہم کو بھی کچھ ہماری خبر نہیں آتی کسی سمجھدار آدمی نے کہا تھا کہ ” نفرت جاگتی ہے تو عقل کا چراغ بجھنے لگتا ہے” مجھے یقین ہے یہ بات جس آدمی نے کہی تھی وہ عمران خان سے بالکل بے خبر و نا آشنا ہو گا، مگر سمجھدار ایسی ہی باتیں کرجاتے ہیں جو کسی بھی قادری یا خان پر فٹ کی جا سکتی ہیں،اسی طرح پیارے رسولۖ نے فرمایا تھا ”پہلوان وہ نہیں جو کُشتی میں اپنے بالمقابل کو بچھاڑ دے ،بلکہ اصل پہلوان وہ ہے جو غصے کو قابو رکھ سکے،عمران خان کو دراصل غصہ اس بات کا ہے کہ وہ وزیراعظم کیوں نہیں بن سکے، اور آگئے بھی وہ غالب کے اسی شعر کا مصداق نظر آرہے ہیں۔ کوئی امید بھر نہیں آتی کوئی صورت نظر نہیں آتی
اب وہ اس غصے اور نفرت کے دو باٹوں میں پس رہے ہیں، اور دن بادن انکی سیاسی ساگ کمزور ہو رہی ہے،اسی لئے وہ اسی تاڑا لوٹی میں لگے رہتے ہیں، عمران خان وہ آدمی ہے جس نے پاکستانی سیاست کو ایک ایسا رنگ دیا ہے جو قابل شرم ہے، ناچ گانا،اوے ابے والی زبان کا استعمال، عدم برداشت،بس یہی ” تبدیلی آئے گی نہیں،تبدیلی آگئی ہے” طاہرالقادری صاحب کامعاملہ بھی اس سے کچھ زیادہ مختلف نہیں، وہ بھی کسی شارٹ کٹ کی تلاش میں ہیں،ان سب ڈرامے بازوں نے پوری قوم کوآگے لگایا ہوا ہے، کوئی عمران خان کے ترانے گا رہا ہے تو کوئی نواز شریف کے گُن،کوئی طاہرالقادری کی کرامات کے کھاتے کھول کر بیٹھا ہے،تو کوئی فضل الرحمان کی اندھی تقلید کا مرتکب، پوری قوم انتشار کا شکار نظر آرہی ہے بھلا بتائیں تو قوموں کی حالت یہ ہوا کرتی ہے، نہیں جناب یہ حالت ریوڑ کی ہوتی ہے او راسی لئے میں نے کہا کہ ہم قوم نہیں ریوڑ ہیں ، کوئی شک نہیں کہ ہم قوم ہوا کرتے تھے ،مگر اب ریوڑ ہیںریوڑ۔
Sajjad Gul
تحریر : سجاد گل dardejahansg@gmail.com Phon# +92-316-2000009 D-804 5th raod satellite Town Rawalpindi