سماج کے ٹھیکیدار

Society Helping

Society Helping

تحریر: اے آر طارق
ملک میں جس طرح ”جنتا سیوک ”حکمرانوں کی بہتات ہے ۔اسی طرح یہاں برسات کے مینڈکوں کی طرح ابھرتے ”سماج سیوک”افراد کی بھی کوئی کمی نہیں پائی جاتی۔جنتا سیوک حکمرانوں کی طرح یہ سماج سیوک افراد بھی اپنے ”عوامی سیوہ” کے جذبے سے سرشار عوام دوست مسائل کے حل پر اپنے آپ پر پھولے نہیں سماتے اور اپنے آپ کو علاقہ کے لیے ”ناگزیر ضرورت ” کا تصور لیے اس ادائے فریبانہ پر شاداں وفرحاں دکھائی دیتے ہیں۔ بطور منصف مسائل پر اپنے من پسند انہ حل ،دوسروں پر زبر دستی مسلط کرتے دکھائی دیتے ہیںاور اپنے کیے گئے فیصلے ہر کسی کو بلاچون وچراں ماننے کا حکم صادر فرماتے ہیں۔چاہے اس فیصلے سے کسی کے برسوں کے ارمان ملیامیٹ ہوجائے یا کسی محروم کا ان انصاف کے برعکس فیصلوں سے گلہ کٹ جائے،ان پر اس بات کا کوئی اثر نہیں پڑتا کہ آیا کہ ان کا یہ فیصلہ صحیح ہے یا غلط۔

آیا کہ ان کے اس فیصلے سے کسی کا ناحق نقصان یا کسی کا حق کٹ جائے۔ان خود ساختہ سماج سیوک اشخاص کے فیصلے جو کہ زیادہ تردھونس اور جبر کی پیداوار ہوتے ہیںاکثر جس کی لاٹھی ،اسی کی بھینس والے کا ساتھ دیکر غریب کے گھر پر ہی بجلیاں بن کر گرتے ہیں،جو پہلے ہی جبرو استبداد کے ہاتھوں ستائے ہوئے ہیں،معاشرتی وسماجی ناہمواریوںکا شکار ہونے پر آفت بن کر برستے ہیں۔ ان جنتا سیوک صاحبان کے بیشتر فیصلے ” شخصی مفادات ”کے گرد ہی گھومتے ہیں،چاہے اگلا کتنا ہی سچا ہو اور حقدار ہو۔ان لوگوں کی نظر فیصلہ سناتے وقت انصاف کے تقاضوں کے مطابق درست فیصلہ دینے کی بجائے ،جس کے بارے میں فیصلہ دینا ہو،اس کی معاشرے میں حیثیت واہمیت ،اثرو رسوخ،کام کی نوعیت، ان کے لیے کتنا معاون ہوگا کی سوچ لیے اپنے بہترین مفاد میں سنائے جاتے ہیں،جس میں روائتی ڈنڈی مارتے ہوئے” عام و خاص”کے لیے بنائے گئے الگ الگ پیمانوں کو مدنظر رکھتے ہوئے فیصلہ زور آور شخص کے حق میں نکلتا نظر آئے گا۔

Decision

Decision

آپسی اختلافات کی صورت میں فضول الزامات کی بھرمار اور جھوٹ کی آمیزش کی وجہ سے وہ پنچایت سے سرخرو اور شرفاء کو بے عزت کروا کر نکلے گااور مالی اور جائیداد کی تقسیم کے معاملات میں بھی ان فیصلہ ساز وں کی غیر منصفانہ فیصلہ کے باعث ناحق مال مفت دل بے رحم کی طرح مال واسباب بٹورتا نظر آئے گا اور یہی سماج سیوک تمام تر معاشرتی اصولوں،انصاف کے تقاضوں کو پس پشت ڈال کر اپنے ہمنواء افراد کو بہتی گنگا میں اشنان کروا کر اسے نا حق نوازتے نظر آئیں گے۔شخصی یا گروپس کی لڑائی میںبھی طاقتور گروپ کی طرفداری کرتے نظر آئیں گے اور کمزور پر شکنجہ کستے۔سماج کے یہ ٹھیکیدار پولیس کے معاملات میں بھی پولیس کے ٹاوٹ کا کردار ادا کرتے ہوئے ان مسائل میں گھرے عوام کی ہمدردیاں سمیٹتے ہوئے قانونی پیچیدگیوں اوران کے داوپیچ سے ڈراتے ہوئے کام کے عوض بطور رشوت پیسے”نکے تھانیدار،وڈے تھانیدار بمع عملہ” کودینے پر ملی بھگت سے اپنا حصہ بھی وصول کرلیتے ہیں۔دفتری پھنسے ہوئے معاملات میں بھی کام کی طوالت اور اس حوالے سے مشکلات کا احساس دلا کر رشوت کے سو بہانے تراشتے دکھائی دیں گے۔

اگر کوئی مصیبتوں مارا اپنے گھراپنے گھر والوں سے اپنی کمزور معاشی حالات اور مفلسی کا رونا روئے اور اپنے ہاتھ میں کچھ نہ دیکھ کر احتجاجا ”صدائے احتجاج” بلند کر بیٹھے یا کسی بات پر گھر والوں سے لڑ پڑے تو یہ سماج کے ٹھیکیدار فوری ہمراہ مقامی الاو لشکر کے ،اس پر لفظوں کے نشتربرساتے،اس کوغیرت کا سبق پڑھاتے، مہذب معاشرے میںچلنے کے اصول و قاعد و ضوابط بتاتے (جن کا ان پر دور دور تک کوئی شائبہ نہیں ہوتا)آن وارد ہوتے ہیںاوران کی مجبوریوں اور مسائل کا حل کرنے کی بجائے حق ہمسائیگی ادا کرتے ہوئے محلہ سے نکال دینے تک کی دھمکیاں بھی دے ڈالتے ہیں،اور عملی اقدام بھی کر ڈالتے ہیں۔ایسے میں ان میں سے کچھ ایسے افراد جن کا کام ہی لوگوں کو لڑاناہوتا ہے ،جن کا نام فساد ڈالنے کی وجہ سے کام والی جگہ اورمحلے میں” پسوڑی ”پڑا ہوتا ہے بھی باتیں کرنے سے باز نہیں آتے ۔ ان سماج کے ٹھیکیداروں کے کیا کہنے ،ان کی کوئی کل سیدھی نہیں۔درست کو غلط اور غلط کو درست کرنے میں ان کا کوئی ثانی نہیں۔ان سماج سیوک کا اگر زور پڑتا ہے تو غریب عوام پر،جن کو یہ اپنے سے حقیر ،کمترسمجھتے ہیں۔پنچایت میں ان بیچاروں کو بولنے کا موقع بھی نہیں دیتے اور عقل کل بنتے فریقین کو سنے بغیر اپنی ہی عقل اور دانست میںتمام تر فیصلہ دے دیتے ہیںاور پھر اس پر محرومین سے یہ امید بھی کرتے ہیں کہ ان کے کیے گئے فیصلے کو چیلنج بھی نہ کریںبلکہ بلا چون وچراں اسی فیصلے پر پہرہ دیں۔چاہے اس سے کسی کے جذبات کو ٹھیس پہنچے یا ناحق کسی کی حق تلفی ہو۔یہ سماج سیوک اشخاص ہی ہمارے معاشرے کا ظالم روپ ہیں ،جو ہمدردی اور احساس کے نام کی چادر میں لپٹے ہمارے نصیب کھوٹے کررہے ہیں۔

Wrong Way

Wrong Way

ہمارے جذبات واحساسات ،غیرت وحمیت اور خاندانی نظام میں غیر محسوس انداز میں بطور منصف غیر منصفانہ فیصلہ کی آڑ میں دڑاریںڈال رہے ہیں۔جبرپرمبنی زبردستی فیصلے ماننے کی ریت نے ہمارے معاشرتی نظام کو پست اورحقیر بنادیا ہے۔ہمدردی اور خیر خواہی کے روپ میں ہماری جڑیں کاٹ رہے ہیں اور ہمیں ذہنی پستی اورغلامی کی گہری دلدل میں دھنسائے اپنے غلط فیصلے ہم پر مسلط کر رہے ہیں۔ان میں بعض سماج سیوک افراد تو اپنے فیصلے کو لوہے کی لکیر گردانتے ہیں،(کسی کے بارہا توجہ دلانے پر بھی کہ آ پ کا کیا گیا فیصلہ غلط ہے ،نظر ثانی کریں)کواپنی باعزتی ،توہین اور شان میں گستاخی تصور کرتے ہیںاور اپنے فیصلے پر اڑے ہوئے کئی گھروںمیں خود ساختہ انصاف کے نام پر نفرت کی دیواریں کھڑی کر دیتے ہیں۔جس سے متاثرہ فریق کے اندر انتقام کی چنگاڑیاں نکلنے لگتی ہیں ،جس کے بعد ازاں بھیانک نتائج برآمد ہوتے ہیں ،جس میں جل کر سب کچھ بھسم ہوجاتا ہے۔ بعض اوقات ان غلط اور غیر منصفانہ فیصلوں کی بھینٹ کبھی کبھی یہ سماج سیوک لوگ بھی چڑھ جاتے ہیں۔جو کسی بھی زور آور شخص کی ہمدردیاںپاتے،کسی بھی مظلوم آدمی ،جس کاحق انہوں نے اس سے چرایا تھا کی نذر ہوجاتے ہیں۔ان سماج سیوک افراد کی بات ہی کیا ہے اپنے آپ کو انسانی مخلوق کم اور خلائی زیادہ سمجھتے ہیں۔بطور منصف اپنے فیصلے دوسروں پر ایسے مسلط کرتے ہیں،جیسے انہوں نے اس معاشرے یا ان باسیوں میں رہنا ہی نہ ہو۔ان کو اس معاشرے میں رہنے والے لوگوں کی کوئی ضرورت ہی نہ ہو،ان سے کبھی کام نہیں پڑنا۔ان کی ان کے فیصلوں میںپائی جانے والی مفادانہ اور حرصانہ سوچ معاشرے کو اخلاقی طور پر لے بیٹھی ہے۔

جس کے باعث انجام کار اچھا نہیں ہوتااور خیر اور بھلائی کی کرنیں پھوٹے سے بھی نہیں پھوٹتی۔اور پھر ان جابرانہ فیصلوں کے نتیجے میں قتل وغارت گری،نفرت اور انتقام کی فضاء جنم لیتی ہے جو کہ سارے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے۔جس سے آس پاس میں انتشار اور بگاڑ کا ماحول پیدا ہوتا ہے لوگوں میں ان غیر منصفانہ فیصلوں کی وجہ سے نفرت کے جذبات ابھرتے ہیںجس سے آنے والی نسلیں برباد ہوتی ہیںاور کچھ باقی نہیں رہتا۔ایسے میں ان سماج سیوک کا جاتاکچھ نہیں اور ان کے ظلم وستم ،غیر منصفانہ فیصلوں،معاشرتی ناہمواریوں کے شکار افراد کے پاس کچھ رہ نہیں جاتا۔ان جنتا سیوک افراد کے فیصلوں کی کچھ جھلک ملاحظہ فرمائیں۔

A R Tariq

A R Tariq

تحریر: اے آر طارق
03074450515