تحریر : حاجی زاہد حسین خان کھیلیں صحت مند معاشرے کے لئے تریاق کا کام کرتی ہیں۔ ہمیں تو یہ محسن انسانیت آقا دو جہاں کی طرف سے یہ کھیلیں ورثے میں ملی ہیں۔ جن میں تیر اندازی بھی تھی اور نیزہ بازی بھی۔ کشتیاں بھی تھیں اور گھوڑ سواری بھی ۔ قرون اولیٰ کا نوجوان جہاں علم وہنر سے آراستہ تھا وہاں ان سب کھیلوں سے آشنا بھی۔ گردش ایام میں اور زمانوں کے سفر میں ان میں مزید جدت آتی گئی۔ ان انفرادی مقابلوں کی جگہ گروپوں کی صورت میں نئی کھیلیں کھیل کود کے میدانوں میں دیکھائی اور کھلائی جانے لگیں۔ جن میں فٹ بال والی بال بھی آئے اور ہاکی اور مکہ بازی بھی۔ گزشتہ صدی میں ہاکی کا جنون سرچڑھ کر بولتا رہا حتی کہ ہمارے نوزائیدہ پاکستان کا قومی کھیل ہاکی کوہی قرار دیا گیا۔ پھر قارئین ہمارے سمیع اللہ تھے شہناز سینئر جونئیر اور انکی ٹیموں نے ملک کا وہ نام روشن کیا کہ اگر یورپ میں فٹ بال کا طوطی بولتا تھا تو بر صغیر پاک و ہند میں ہاکی جس میں پاکستان کا نام نمایاں تھا۔ پھر چڑیاں چگ گئیں کھیت ۔ ہاکی بھی ہم سے چھن گئی۔ نہ حسن سردار سمیع اللہ رہے نہ شہناز شہباز رہے ہمارا قومی کھیل زوال پذیر ہو گیا۔ اس کی جگہ کرکٹ نے لے لی گلی محلے کھیتوں کھلیانوں میں ہمارے نونہال بھی اور جوان بھی حتی کہ بڈھے بھی کھیلتے چوکے لگاتے نظر آئے۔ ہمارے قومی ٹیم نے شارجہ ہو یاموہالی ہو یا کلکتہ اپنے ملک کا نام روشن کیا۔
مشتاق محمد تھے یا ظہیر عباس ، سعید انور تھے یا جاوید میاں داد ۔ کیا انکے آخری چھکے تھے۔ اپنے تو اپنے گورے بھی ہمارے ملک کو سلامیاں دینے لگے۔ پھر بد نظروں کی ایسی نظر لگی کہ وہ اعزاز بھی ہم سے چھن گیا۔ ہمارے کھیل میں سیاست نے گھر کر لیا۔ ہمارے کھلاڑی ملک کے لئے نہیں اپنے لئے کھیلنے لگے۔ سبز گھاس پر نوجوان نہیں بڈھے کھلاڑی دوڑنے لگے۔ پہلے گوروں نے پھر ہمارے فطری حریف انڈیا نے ہمیں پہلے سے دوسرے ، چوتھے پھر چھٹے نمبر پر لا کھڑا کر دیا۔ ستم یہ کہ سیفٹی کے نام پر یہاں دوسروں کو روکنے ڈرانے لگے۔ سازش کر کے سری لنکا کے کھلاڑیوں پر حملہ کرایا ۔ کل کے چھوکروں بنگالیوں کو بھی ورغلایا ڈرایا ۔ پھر کیا تھا ہمارے کھیل کے میدان ویران ہو گئے۔
ہم غیر ملکی کھلاریوں کیلئے ترسنے لگے۔ قوم مایوس ہو گئی۔ مگر ہمارے نوجوانوں نے ہمت نہ ہاری وہ گلی کوچوں سے نکل کر میدانوں میں آگئے۔ سارے صوبوں کی اپنی اپنی ٹیمیں وجود میں آگئیں۔ نئے پرانے بھی ساتھ مل بیٹھے مقابلے کا جذبہ بیدار ہو گیا۔ پی ایس ایل وجود میں آگیا جیتتے ہارتے دو ٹیمیں فائنل میں آن پہنچیں۔ اور پھر فائنل لاہور پاکستان میں کرانے کا اعلان ہوا ۔ قریہ قریہ بچے بوڑھوں کا جوش دیدنی تھا۔ ہمارے کھلاڑیوں کے ساتھ چند غیر ملکی کھلاڑی بھی جان ہتھیلی پر رکھ کر لاہور آن پہنچے ۔ دنیا بھر کی نظریں ہم پر ہمارے پاکستان پر لگی رہیں۔
Imran Khan
ہمارے بدخواہوں کو منہ کی کھانی پڑی ۔پشاور جیتا کوئٹہ ہارا۔ مگر ہمارا پاکستان جیت گیا۔ عوام کو ایک طویل عرصے بعد ایک میگا ایونٹ دیکھنے کو ملا۔ حکومت کے اس اقدام کو سراہا گیا۔ مگر بدقسمتی سے ہمارے نا عاقبت اندیش سیاستدانوں کو ملک اور عوام کی یہ خوشی ایک آنکھ نہ بھائی باہر سے آنے والے دلیر کھلاڑی اور مہمان اچھے نہ لگے۔ انہوں نے اپنے طنز یہ تیر برسانے شروع کر دیے اپنوں کے ساتھ بیگانے مہمانوں کو چلے ہوئے کارتوس بیکار حتی کہ پھٹیچر قرار دے دیا قارئین پھٹیچر کے لفظی معنی بیکار غیر معروف غیر اہم ناتجربہ کار ہوا کرتے ہیں۔ وہ معروف اور دلیر کھلاڑی جنہوں نے اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر ہمارے ملک کی شان بڑھائی دوسروں کو ترغیب دی ۔دشمنوں کے منہ بند کئے۔ ان مہمانوں کو ہم نے ان جاہلانہ القابات سے نوازہ ۔ ہم کیسی قوم ہیں کیسا ہمارا معاشرہ ہے۔ کیسے یہ ہمارے لیڈر اور سیاستدان ہیں جنہیں عوام اور ملک کی خوشیاں ایک آنکھ نہیں بہاتی۔ ہم اپنے مہمانوں خیر خواہوں کی قدر نہیں کرتے۔ لگتا ہے ہمارا سارا معاشرہ بھی اور یہ ہمارے سیاستدان بھی پھٹیچر بن گئے ہیں۔
پھٹیچر ہمارے وہ خیر خواہ نہیں ہم خود ہیں۔ پاکستان کو لوٹنے والے بکنے والے کرپشن کرنے والے پھٹیچر ہیں یہ غیر ملکیوں کے ایجنڈے پر کام کر نے والے یہ خود پھٹیچر ہیں۔ غیر ملکیوں کی پالیسیوں پر عمل کرنے اور ملک کو ماسی کا ویڑاہ بنانے والے ہمارے حکمران اور سڑکوں پر ملک کی قسمت کا فیصلہ کرنے والے یہ خود پھٹیچر ہیں وزارت عظمیٰ کے امیدوار عمران خان صاحب کو عوام اور ملک کی خوشیاں کیوں ایک آنکھ نہیں بہاتیں۔ چھ چھ ماہ اسمبلیوں کا بائیکاٹ چینی صدر کے آنے کا بائیکاٹ ترکی کے صدر کا ملک میں آنے اور پی ایس ایل کے فائنل کا بائیکاٹ قانون ساز اداروں کا بائیکاٹ قوم کی خوشیوں کا بائیکاٹ یہ کہاں کی اور کیسی سیاست ہے۔ دوسروں کو برا بھلا کہنا یہ کہاں کی عقلمندی دانشمندی ہے۔ کیا ایسی پھٹیچر سیاست کی مثال دوسرے ممالک میں بھی ملتی ہے۔ انکا غصہ نواز شریف اور انکی حکومت پر ہے۔ وہ جانیں اور نواز حکومت خدا کے لئے اپنے عوام اور ملک اور ملک کے خیر خواہوں کو تو معاف کریں۔ اپنے عوام اور انکی خوشیوں اورغمیوں میں تو انکا ساتھ دیں۔
ملک کے لئے اچھے فیصلوں تعمیرانہ اقدام میں تو انکا ساتھ دیں۔ ورنہ وہ اپنے خیر خواہوں چاہنے والوں سے مسلسل محروم ہوتے چلے جائیں گے۔ ملک اور عوام کو دو جماعتی باریوں سے چھٹکارہ تو کیا موجودہ اپنی سیاسی پذیرائی سے بھی وہ ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔ سیانے کہتے ہیں کہ جب تمہہارے دشمنوں بد خواہوں کی تعداد بڑھنے لگے تو اپنے خیر خواہوں دوستوں کی تعداد میں اضافہ کیا کریں۔ خدا کے لئے ملک جو اس مشکل دور سے گزررہا ہے چاروں اطراف ہمارے اور ہمارے ملک کے بدخواہوں کی یلغار جاری ہے۔ ایسے نازک وقت میں ایسی پھٹیچر سیاست ساتھیوں اور مفاد پرستوں سے اپنی جان چھڑائیں انتخابی سیاست کا معرکہ قریب ہے وہاں دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو کر رہے گا۔ انشاء اللہ۔ اس وقت کا انتظار کریں قوم کو نہ ہی پی پی اور نون لیگ کی باریاں پسند ہیں اور نہ ہی آپ کی یہ پھٹیچر سیاست انہیں تو اٹھکلیاں سوجی ہیں عوام بیزار بیٹھے ہیں۔
Haji Zahid Hussain
تحریر : حاجی زاہد حسین خان (کالمسٹ) پلندری سدہنوتی آزاد کشمیر hajizahid.palandri@gmail.com