تحریر : اسلم انجم قریشی چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار کے سامنے ملک کی جو صورتحال ہے اور بے شمار واقعات و سانحات رونما ہوئے اور ہورہے ہیں ان سے واقف اور باخبر رہتے ہوئے عوام اس بات پر بھرپور توجہ دیں کہ( اللہ تعالیٰ نے جو انہیں منصب عطا کیا ہے آج الحمداللہ) وہ اپنے منصبی فرائض احسن طریقے سے انجام دے رہے ہیں اور ان کے طریقے کار سے معاشرے میں اچھے اثرات سامنے آرہے ہیں ۔بنیادی طور پر تو جنہیں عوام اپنے قیمتی ووٹوں سے منتخب کرتی ہے اور پھر یہ ارکان اسمبلی ملک میں حکمرانی کرتے ہیں عوام کی فلاح و بہبود اور ان کے جان ومال کے تحفظ کو یقینی بنانے کا حلف بھی اُٹھاتے ہیں اور لازماً ان کی اولین ذمہ داری بھی اس میںشامل ہیں ۔لیکن بدقسمتی سے آج جو ماحول پیدا کردیا گیا ہے اس ماحول سے لوگوں میں ہیجانی کیفیت پائی جارہی ہے یہ سب کچھ انہی حکمرانوں کی بد اعمالی کا نتیجہ ہے کاش طرز حکمرانی آئین و قانون کے مطابق اپنائی جاتی تو عوام کو چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان اور پاک فوج کے سربراہ سے مطالبہ کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی جب حکمرانوں کے عوام کے ساتھ ناروا سلوک ان کی بے حسی عوام کے حقوق کو پامال کرنے ظلم و زیادتی پر مبنی جیسے معاملات واقعات و سانحات پیش آئیں گے تو ملک کے اہم اداروں کو ملک قوم کے بہتر مفاد کے لئے آگے آنا ہوتا ہے۔
آج ملک میں جس قسم کی صورتحال پیدا کردی گئی ہے جس سے عوام ایک ذہنی اذیت سے دوچار ہورہی ہے جیسا کہ کچھ دنوں سے جو واقعات کھل کر سامنے آئے ہیں اور یہ معاملات متواتر کے ساتھ ہوتے رہے ہیں جن کی ذمہ داری تھی وہ اپنی پوری نہیں کرسکے اس طرح عوام میں لاقانونیت بے راہ روی اور دیگر جرائم کی جڑیں مضبوط ہوتی رہیں کیونکہ حکمرانی کرنے والے کھوکھلے دعووں کے سوا کچھ نہیں کرسکے جس کے نتیجے میں جو آج معاملات سامنے آئے ہیں وہ ایک عرصے سے رونما ہوتے رہے لیکن عوام کی آواز کو سنا ہی نہیں گیا پھر ہوتا کیا ہے کہ عوام کا حکمرانوں پر عدم اعتماد کا اظہار حکمرانوں سے اپیل کرنے کے بجائے چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان اور چیف آرمی سے مطالبہ کرنے کی صدائیں سنی جارہی ہیں اور حقیقت میں عوام کے ساتھ ظلم وزیادتی نا انصافی کے ہندوناک ، شرمناک ،خطرناک واقعات و سانحات ہونگے تو پھر عوام کی داد رسی کون کریگا ؟ سوال کا جواب یہی ہے کہ ملک کے اہم اداروں کو اپنا کردار ادا کرنا لازمی ہوتا ہے چند واقعات جن کا ذکر کرتا ہوں یہ چند واقعات ہی اس قسم کے ہیں کہ ہمارے سر شرم سے جھک گئے ہیں ان واقعات نے معاشرے میں ہیجان سی کیفیت پیدا کردی جس کے سبب عوام ہر سطح پر مجبور ہوگئی ہے عوام میں عدم تحفظ اس قدر پایا جارہا ہے کہ عوام کی سوچ مفلوج بن کر رہے گئی ہے یہ چند واقعات آج کے پیدا کردہ نہیں ہیں یہ ایک عرصے سے چلے آرہے ہیں۔
عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والے اراکین اسمبلی جو اقتدارکے منصب پر پہنچے اور ان کے دور حکومت میں یہ گھناونے جرائم ہوتے رہے مگر دعویدار ان واقعات کی پردہ پوشی کرتے رہے آخر کار پھر ظلم و زیادتی و نا انصافی کی جب انتہا ہوئی تو یہ چند واقعات سامنے آئے ان واقعات نے قوم کی آنکھیں کھول دی ہے کہ قوم سے ساتھ کس قدر بھیانک کھیل کھیلا جارہا ہے جس کا تصور بھی نہیں کرسکتے تھے جو ایسے واقعات سامنے آئے ہیں کہ دل کانپ رہا ہے ایسی سفاکی درندگی کے منظر آنکھوں میں گردش کر رہے ہیں جو ایک پل بھی آنکھوں سے اوجھل نہیں ہورہے اور ہوں بھی کیسے کیا وہ ہماری پھول جیسی زینب و دیگر بچیاںبیٹی نہیں وہ نقیب اللہ جسے ظالم نے بے گناہ قتل کرکے ابد ی نیند سلادیا کیا وہ کسی کا بھائی نہیں کسی کا بیٹا نہیں کسی کا شوہر نہیں وہ سب کچھ ہمارا تھا وہ اس ملک کا باشندہ تھا۔ وہ باپ کا شہزادہ ماں کا لخت جگر اپنے بچوں کا رکھوالا نقیب اللہ محسود جس کاغم بھولایا نہیں جاسکتا اور دیگر بے گناہ نوجوانوں کو مبینہ جعلی پولیس مقابلے میں ہلاک کئے جانا یہ درندگی بھی آخر کب تک اب اس کی ذلت کو دیکھیں کہ ان بے گناہ بیچاروں کو مبینہ جعلی پولیس مقابلے میں ہلاک کرنے والا مفرور معطل کئے جانے والا ایس ایس پی رائو انوار جس کی گرفتاری کے لیے سپریم کورٹ کی جانب سے 72 گھنٹے کا وقت دیا گیا تھا تاحال وہ گرفتار نہیں ہوسکا اب مذید دس دن کی مہلت دی گئی ہے ،لیکن کب تک آخر اس کا انجام بھی عبرت ناک ہوگا کیونکہ بے گناہ لوگوں کا خون رائیگا نہیں جائے گا ۔مفرور رائو انور کی عدم گرفتاری حکومت سندھ کی ناہلی ہے اسی طرح صوبہ پنجاب کے ضلع قصور کی کمسن بچی جسے وحشی درندے نے اپنی ہوس کا نشانہ بنایا اور بہیمانہ تشدد کرکے ہلاک کردیا وہ بھی آخر گرفتار ہوگیا ہے اسے بھی منطقی انجام تک پہنچایا جائے گا اس وحشی درندے کی سزا اس نویت کی ہو کہ دوسرے اس سے عبرت حاصل کریں۔
عوام اس طرف غور کریں کہ سپریم کورٹ نے شاہ زیب قتل کیس کا فیصلہ سنادیا فیصلہ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے پڑھ کر سنایا آپ کو یاد ہے 2012 میں کراچی کے پوش علاقے ڈ یفنس میں پولیس آفیسر اورنگ زیب کے جوان سالہ بیٹے شاہ زیب کو جھگڑے کے بعد قتل کردیا گیا تھا سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی جانب سے از خود نوٹس لیے جانے کے بعد ملزمان کا مقدمہ انسداد دہشت گردی کی عدالت میں چلا تھا سماعت کے دوران مقتول کے باپ نے قاتلوں کے گھروالوں سے صلح نامہ کرلیا تھا 2017میں سندھ ہائی کورٹ نے شاہ رخ جتوئی، سراج تالپور، سجاد تالپور،اور غلام مرتضیٰ کی سزا کالعدم قرار دے دی تھی اور مقدمے سے دہشت گردی کی دفعات ختم کرتے ہوئے مقدمہ ازسر نو سماعت کے لئے سیشن عدالت میں بھیج دیا تھا جس نے ملزمان کی ضمانت منظور کرکے انہیں رہا کردیا تھا تاہم سپریم کورٹ نے سندھ ہائی کورٹ کا فیصلہ کالعدم کرتے ہوئے کیس میں دہشت گردی کی دفعات بحال کرنے کا حکم دے دیا پولیس نے فوری طور پر کاروائی کرتے ہوئے تینوں ملزمان شاہ رخ جتوئی، سجاد تالپور، سراج تالپور کو حراست میں لے لیا جبکہ کیس میں نامزد چوتھا ملزم جیل میں ہے سپریم کورٹ نے کیس کو دوبارہ سندھ ہائی کورٹ بھیجتے ہوئے ماتحت عدالت کو حکم دیا کہ دو ماہ میں کیس کا میرٹ پر فیصلہ کرے عدالت عظمیٰ نے کیس کے حتمی فیصلے تک ملزمان کے نام ای سی ایل میں شامل کرنے کا حکم بھی دیا۔
یہاں معروف کالم نگار ہارون رشید لکھتے ہیں کہ زندہ رہنے اور بروئے کارآنے کے لیے معاشروں کو امید کی مشعل درکار ہوتی ہے۔ سپریم کورٹ نے مشعل جلادی ہے کیا عجب ہے کہ چراغ سے چراغ جلے اور بالآخر چراغاں ہوجائے وہ لکھتے ہیں نہال ہاشمی کی سزا پر ردعمل دو طرح کے ہیں ایک یہ سزا کم ہے اس شخص کو عبرت کا نشانہ بنا دینا چاہیے تھا دوسرا وہی جو ڈاکڑ شاہد مسعود کی افسانہ طرازی پر تھا اس کے علاوہ سینیٹر کی سزا پہ جو شادماں ہیں جنرل مشرف کے احتساب کا مطالبہ کیوں نہیں کرتے ۔ آج کل ایک محاورہ ذہنوں میںگردش کرتا ہے کہ مجھے کیوں نکالا کا جواب تلاش کیجئے۔ مختصر یہ کہ سپریم کورٹ میں آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نااہلی کی مدت کے تعین کیس میں چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا ہے کہ ڈکلیئریشن کا اطلاق کب تک ہوگا ؟ اگر کسی کو بددیانت قرار دیا گیا ہے تو 5 روز بعد وہ دیانتدار کیسے ہوگا؟ عدلیہ مکمل آزاد ہے غلطی کے بعد تو یہ طریقہ موجود ہے جس میں پہلے غلطی اور گناہ کو تسلیم کریں پھر عوام کے سامنے بددیانتی کا اعتراف کریں کوئی کہتا ہے کچھ نہیں کیا اس کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے، سب سے پہلے ڈکلیئریشن کو تسلیم کیا جائے ہم روز توبہ کرتے ہیں غلطی تسلیم کریں گے تو معافی ہوگی غلطی کی معافی بھی عوامی سطح پر ہونی چاہیے پھر دیکھ سکتے ہیں معافی والے کے لئے نااہلی کی مدت کتنی ہوگی چیف جسٹس نے کھل کر وضاحت کردی ہے کہ اور کہا کہ میں مانتا ہوں ماضی میں عدلیہ سے غلطی ہوئیں لیکن آج عدلیہ مکمل آزاد ہے اور عدلیہ کسی مہم اور کسی منصوبہ بندی کاحصہ نہیں چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا کہ پارلیمنٹ سپریم ادارہ ہے اور آئین سازی پارلیمنٹ نے کرنی ہے بھول جائیں یہاں کو ئی سا زش نہیں ہورہی آئین کی حفاظت اور انصاف کی فراہمی ہماری ذمہ داری ہے اس سے پہلو تہی نہیں کریں گے عدلیہ کی عزت و تکریم کے لیے کوئی کمی نہیں چھوڑیں گے ان خیالات کا اظہار انہوں نے سپریم کورٹ کی عدالتی پالیسی ساز کمیٹی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کیا انہوں نے کہا کہ ملک کو عظیم لیڈروں اور عظیم منصفوں کی ضرورت ہے اگر یہ لوگ آجائیں تو پھر ملک کو ترقی سے کوئی نہیں روک سکتا وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ ملک پاکستان بڑی جدجہد کے بعد حاصل کیا گیا سوچنا ہے کہ کیا ہم نے دھرتی ماں کا حق ادا کر رہے ہیں انہوں نے کہا کہ عدلیہ میں جلد فیصلے کرنے کی پالیسی نافذ کردی اور ہمیں موجودہ حالات اور قانون کے مطابق انصاف فراہم کرنا ہے چیف جسٹس نے کہا عوامی حقوق کے لیے از خود نوٹس لئے اور آگے بھی لیتے رہیں گے کسی کی مصلحت یا خوف کے باعث اپنے فرائض سے غفلت نہیں برتیں گے چیف جسٹس میاں ثاقب نثارنے کہا کہ کاش کوئی عمر بن خطاب ثانی یا حضرت علی ثانی آجائے ، انہوں نے کہا کہ نظام کو درست کرکے چلے جائیں گے تو خود بخود بہتری آجائے گی۔
اِدھر وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال کا کہنا ہے کہ پرویز مشرف کو جیل میں ڈالیں تو سپریم کورٹ کا رعب قائم ہوگا ن لیگ کو ٹارگٹ کرنا اور نواز شریف کو عہدے سے ہٹاکر ان کے خلاف پری پول دھاندلی کی گئی مزید کہتے ہیں کہ گناہ کبیرہ کے بجائے گناہ صغیرہ ہ پر پکڑا جائے گا تو سوال اُٹھیں گے آئین کی حکمرانی کے لئے اداروں کو انصاف پر مبنی فیصلے کرنا ہوں گے عوام کی نظر میں سپریم کورٹ متنازعہ ہوجائے تو یہ نواز شریف کی نااہلی سے بڑا نقصان ہوگا۔ دوسری جانب وفاقی وزیر ریلوئے سعد رفیق کہتے ہیں کہ عدلیہ کی طرح پارلیمنٹ کا احترام بھی ضروری ہے جبر سے سیاست کو دبایا نہیں جاسکتا وہ کہتے ہیں کہ موجودہ ماحول کا ذمے دار وہ شخص ہے جو دھرنوں میں ناکامی پر سیاست کے فیصلے عدلیہ میں لے گیا اس بات سے انکار ہرگز نہیں پچھلے دھرنوں سے ملک کونقصان پہنچا جبکہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ثاقب نثارکہہ چکے ہیں کہ بڑے بڑے مگر مچھوں کو کٹہرے لانا ہے ۔ حقیقت میں بات یہ ہے کہ ایسا نظام تشکیل دیا جاچکا ہے کہ جس کے تحت عوام مجبور ہے جس کے لئے کہا گیا کہ عوام مجبور کے ساتھ مفلوظ بن گئی عوام کی موجودہ سوچ کو پرکھیں تو اب یہ خواہش ہے کہ اسے کوئی بہتر راحت دے کیا آپ کسی کی دادرسی کرسکے ۔تو پھر یہ آوازیں کیوں گونج رہی ہے جس میں عوام کا مطالبہ اپیل چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان ا ور چیف آرمی پاک فوج سے کیا جانا اگر واقعی آپ کی کارکردگی بہتر ہوتی تو یہ صورتحال سامنے نہیں آتی اور ہاں جب یہی ادارے کام نہیں کریں گے تو پھر عوام کی داد رسی کون کریگا ۔
لہذا کوشش یہ ہونی چاہئے کہ پارلیمنٹ اپنا کام کرے اور ملک کے اہم ادارے اپنا کام کریں ہیجانی کیفیت اسی طرح دور ہوسکتی ہے اور طریقہ کار بھی یہی ہے کہ سابق نااہل وزیر اعظم نواز شریف سپریم کورٹ آف پاکستان میں اقا مہ کے حوالے سے غلطی کی معافی مانگے پھر نااہلی بھی ختم ہوہی جائے گی۔ جہاں تک دوسری بات دیگر کیسوں کا سامنا کریں۔ اس حوالے سے پروفیسرحسن عسکری کہتے ہیں کہ عوامی عدالت کوئی چیز نہیںہوتی عوام نے صرف ووٹ دینا ہوتا ہے باقی رہا مسئلہ اگر کسی نے کرپشن یا جرم کیا تو اس قسم کے معاملات عوام کے پاس نہیں بلکہ عدالتوں میں جاتے ہیں اور فیصلے قانون کے مطابق ہوتے ہیں ن لیگ کے موجودہ جلسوں کا مقصد عدلیہ پر دبائو ڈالنا ہے تاکہ احتساب عدالت کا فیصلہ خلاف نہ آجائے غیر ملکیوں کی جائیدادوں کے بارے میں برطانیہ کے نئے قانون کا اطلاق سیاسی بنیادوں پر ہوگا ان قوانین کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ اگر کسی شخص کو اس کے اپنے ملک میں کرپشن پر سزا ہوتی جس میں عدالت کرپشن کی جائیداد کو ریاست کے حوالے کرنا پڑتی ہے تھی مگر نیا قانون بننے کے بعد ایسی جائیداد پر خود قبضہ کرلے گا ۔ پھر تو یہی ہوا کہ اِدھر کے رہے نہ اُدھر کے رہے صنم اشارہ اتنا ہی کافی ہے کہ اپنے اپنے ہی ہوتے ہیں دیر نہ کریں۔
کسی نے یہ بھی کہہ دیا عرض ہے
خدمت طوف صنم خانہ ملی ہے مجھ کو کھا کے چکر مرے رستے یہ مقدر آیا