جب سے پاکستان بنا ہے عوام کو یہ سمجھ نہیں آرہی کہ سیاسی اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا اسکا سوار کون ہو گا اسکی منزل کا تعین کر نے میں خاصی دشواری کا سامنا ہے عام آدمی کی سمجھ سے یہ چیز بالاتر ہے کہ انیس کروڑ عوام ایک ہجوم ہی رہے گی یا ترقی یافتہ ممالک کی صف میں کھڑی ایک قوم دکھائی دے گی پاکستان قدرتی دولت سے مالامال ایک ملک ہے یہاں پر ہر قسم کے ذخائر موجود ہیں ذرخیز مٹی اور محنتی عوام ہونے کے باوجود کیا وجہ ہے پاکستان آج بھی ترقی پذیر ممالک کی صف میں کھڑاہے اسکی وجوہات کو آج تک کوئی بھی نہیں جان سکا حکمران اپنی اپنی باراں لینے اور اپنے اپنے بینک بیلنس بھرے میں مگن ہیں انہیں عوام کی کوئی خبر نہیں کہ بچے صبح ناشتے کے بغیر سکول جارہے ہیں بجلی کا کچھ پتا نہیں کہ کب آئے گی یا آئے بھی یا نہیں، عوام پانی جیسی نعمت سے بھی محروم ہوتے جارہے ہیں، سی این جی اسٹیشن پرندوں کی آماجگاہ بنتے جا رہے ہیں۔
پیٹرول کی روز بروز بڑھتی قیمتوں نے عوام کا جینا دو بھر کر دیا ہے مہنگائی کے ستائے عوام جائیں تو کہاں جائیں کس کا در کھٹکھٹائیں کس سے فریاد کریں دوسری جانب آئے روز دفتر سے ایڈوانس لے کربلوں کی ادائیگی کرنی پڑتی ہے چار ہفتے کا بجٹ ایک ہفتے کی خور دو نوش کی اشیاء میں صرف ہو جاتاہے۔ گھر کا سربراہ اپنی گھر گھر یہی کے اخراجات پورے کرنے میں ذہنی مریض بنا جا رہا ہے کیا اسی دن کے لیے ہم نے اپنے بزرگوں کی قر بانیاں دے کر یہ ملک حاصل کیا تھا جمہوریت کے نام پر جمہور کے ساتھ سیاستدانوں کا جو روایتی رویہ دیکھنے کو مل رہا ہے کیا اسی دن کیلئے ہم نے لمبی قطاروں میں کھڑے ہو کر تپتی دوپہروں میں اپنی اپنی من پسند پارٹی کے لیڈروں کو منتخب کیا تھا۔ جو انتخابی مہم کے دوران بے بہا دعوے کرتے ہو ئے نظر آتے تھے کہ ہم دودھ کی نہریں بہادیں گے نوجوانوں کو روزگار دیں گے سکول وکا لج بنانے کے دعوے کرتے تھے جونہی کامیاب ہوئے تو ایسے غائب ہوئے جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔ الیکشن سے پہلے جو دن میں پچاس مرتبہ فون سنتے تھے اب انکے سیکرٹری سے بمشکل بات ہوتی ہے اور مصروفیت کا کہہ کر ٹال دیا جاتا ہے۔
افسوس تو اس بات کا ہے کہ یہ کو ئی نئی بات نہیں ہے یہی ہو تا آیا ہے یہی بیوقوف عوام پھر سے بیوقوف بننے میں دیر نہیں لگاتی چند گھی کے ڈبوں اور آٹے کے تھیلے کی خاطر ایسے ایسے نمائندوں کو منتخب کروانے میں ذرہ برابر دیر نہیں لگاتی جو ملک چلانا تو درکنار اسمبلی میں بیٹھنے کے بھی قابل نہیں۔ بات یہ ہے کہ ہمیں اپنے لیڈر منتخب کرتے وقت اپنے ووٹ کا صحیح استعمال کرنا چاہئے اور ایسے نمائندوں کو منتخب کر کے ایوانوں میں پہنچانا چاہئے جوکہ اس ملک کو بہتر طریقے سے چلاسکیں نہ کی جاہلوں کا جمعہ بازار لگا کر اسمبلی کی کرسیوں کو بھر کر مہنگائی کا رونا روتے ہیں جس طرح پچھلے تین ماہ میں بلدیاتی انتخابات کا چرچہ ہرطرف سنائی دیتا رہا ہے امیدواروں نے اس امید پر کہ وہ کامیابی سے ہمکنار ہو جائیں اپنے اپنے حلقوں میں اربوں روپے جھونک دیئے ہیں لیکن حکومت کی چالاکی لومٹری کی طرح کامیاب دکھائی دے رہی ہے۔ عوام سے ایک دفعہ پھر اسی طرح جیسے کہ بلوں میں سرچارج کی مد میں اربوں روپے وصول کرتے رہے اور بعد میں عدالتی فیصلے کے احکامات صادر ہونے کے بعد ہر ماہ واپس ہونے لگے۔
Municipal Election
اسی طرح اس حکومت نے بھی اربوں روپے وصول کر کے حلقہ بندیوں کی نذر کر دیئے اور پنجاب اور سندھ میں الیکشن شیڈول معطل کر دیا اور پیار بھرے الفاظ میں (کہ فیس کی رسید سنبھال کر رکھیں) کے احکامات الیکشن کمیشن کے ذریعے عوام تک پہنچا دیئے اب دیکھا یہ ہے کہ نئی حلقہ بندیاں کتنے وقت میں مکمل ہوتی ہیں اور آنے والا نیا شیڈول عوام کی توقعات کے مطابق ہو گا یا حکومت کی فیور میں ہو گا لگتا تو یوں ہے حکمران پارٹی انرجی کرائسز کم کر کے بلدیاتی الیکشن اس سال کے آخر میں کروائے گی یا پچھلی حکومت کی طرح عوام کو لولی پاپ دے کر اپنا الو سیدھا کرے گی اب حکومت کو چاہئے کہ تمام سیا سی جماعتوں کے ساتھ مل کر اور اس ملک کے معتبر اداروں سے مشاورات کے بعد ملک کو فوری طور ان چیلنجز سے نکالنے میں اپنا کردار ادا کرے۔
Inflation
جن میں سب سے پہلے مہنگائی کے جن کو قابو کرے اور ہمسایہ ممالک کے ساتھ مل کر انرجی کے بحران کو ختم کرے اور دیگر مسائل پر دن رات ایک کر کے پاکستان کو صحیح سمت میں لے جانے کی کو شش کر ے وگرنہ یہ جمہورکی طرف سے جمہوریت کو قائم رکھنے کے لئے عوام کا کندھا کہں تھک نہ جائے ورنہ وہی قوت دوبارہ برسراقتدار نہ آجائے جو اس موقع پر پاکستان کو مشکل وقت میں نکالنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے اور یہ بریک تھرو جمہوریت کے چیمپئنز کے لئے ایک دہائی سے بھی زائد کا وقت لگ جائے گا اس لئے حکمرانوں کو چاہے کہ مل بیٹھ کر ذاتی رنجشوں کو بالائے طاق رکھ کر تین نومبر یا بارہ اکتوبر کی بحث سے نکل کر صرف اور صرف ملک کے مسائل کو فوکس کر نا چاہے یہاں یہ کہنا بے جانہ ہو گا کہ عوام کے غم جانے کب ہو نگے کم۔