تحریر : طارق حسین بٹ کسی بھی نئی قوم کی تشکیل سے قبل افراد جس قوم کا حصہ ہوتے ہیں وہ اسی قوم کی یکجہتی اور استحکام کیلئے اپنی توانائیاں صرف کرتے ہیں اور کبھی کبھی اس راہ میں انھیں اپنی جانوں کے نذرانے بھی پیش کرنے پڑتے ہیں لیکن وہ ایسا کرنے سے بھی نہیں چوکتے کیونکہ دھرتی ان سے ایسے ہی ایثار کا تقاضہ کر رہی ہوتی ہے۔ایک وقت تھا کہ موجود ہ پاکستان برِصغیر پا ک و ہند کا ایک انتہائی اہم حصہ تھا۔مسلم لیگ نے علیحدہ اسلامی ریاست کیلئے بے پناہ جدو جہد کی اور اس جدو جہد کی پاداش میں اسے مخالفین کے ظلم و تشدد کا نشانہ بننا پڑاتھا لیکن ١٤ اگست ١٩٤٧ وہ تاریخی دن ہے جب ایک نئی اسلامی ریاست پاکستان کے نام سے دنیا کے نقشے پر ابھری تو دیکھتے ہی دیکھتے ظلم و جبر کی سیاہ رات کا خاتمہ ہو گیا ۔کانگر یس،انگریز اور مسلم لیگ کے درمیان جس طرح کی سیاسی جنگ ہوئی تاریہخِ عالم میں اس طرح کی مثال بہت کم ملے گی۔ہندوئوں نے جس طرح مسلمانوں پر مظالم ڈھائے اور انگریزوں نے جس طرح مسلمانوں کو اپنی ہوسِ ملک گیری کا نشانہ بنایا وہ ایک الگ داستان ہے لیکن اس کے باوجودتخلیقِ پاکستان کے بعدکسی قوم کے کسی بھی فرد کے خلاف بغاوت یا ملک دشمنی کا کوئی مقدمہ قائم نہیں ہوا۔
مہاتما گاندھی تو برِ صغیر کی تقسیم کو گائو ماتا کے ٹکرے کرنے سے تشبیہ دیتے تھے لیکن اس کے باوجود بھی گائو ماتا کے ٹکرے کرنے والے مسلمانوں کے خلاف بھارت میں کوئی مقدمہ قائم نہیں کیا گیا تھا۔وہ تمام ریاستیں جھنوں نے١٩٤٦ کے انتخابات پاکستان کے حق میں ووٹ ڈالا تھا وہ ساری کی ساری ریاستیں بھارت کا حصہ ہیں لیکن انھیں بھارت میں اس وجہ سے تختہِ مشق نہیں بنایا گیا کہ انھوں نے ١٩٤٦ کے انتخابات میں مسلم لیگ کو ووٹ دئے تھے؟ووٹ دینا ان کا جمہوری حق تھا اور انھوں نے اس حق کا برملا اظہار کیا تھا۔حیران کن بات یہ ہے کہ ان ریاستوں میں مسلم لیگ نے کانگریس کے مقابلے میں سوفیصد کامیابی حاصل کی تھی لیکن اس کے باوجود وہاں پر رہنے والے مسلمانوں کو ظلم و جبر کا نشانہ نہیں بنایا گیا اور کسی کو سرکاری سطح پر غدار کہہ کر سرِ دار نہیں کھینچا گیاتھا۔
یہ سچ ہے کہ بعض انتہا پسند ہندو لیڈروں نے اپنی سیاسی دوکان چمکانے کیلئے مسلمانوں کے خلاف معاندانہ کاروائیوں کی تھیں لیکن یہ کاروائیاں ذاتی سوچ اور کردار کے شاخسانے ہیں۔بھارتی حکومت کا اس سے کوئی تعلق واسطہ نہیں ۔موجودہ بھارتی وزیرِ اعظم نریندر مودی نے اپنی وزارتِ اعلی کے دوران ریاست گجرات میں مسلمانوں کی نسل کشی کے لئے جس طرح کے گل کھلائے تھے پوری دنیا نے اس پر اس کی بھر پور مذمت کی تھی اور حد تو یہ تھی کہ امریکہ جیسے ملک نے اسے ویزہ دینے سے انکار کر دیا تھا۔ آج کل تو نریندر مودی امریکہ کی آنکھوں کا تارہ بنا ہو ا ہے کیونکہ اب وہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کا منتخب وزیرِ اعظم ہے اور امریکہ اسے پاکستان اور چین کے خلاف استعمال کرنا چاہتا ہے۔یہ سوال اپنی جگہ اہم ہے کہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوری حکومت کے وزیرِ اعظم نریندر مودی کا رویہ کشمیر کے مسلمانوں کے خلاف اتنا پر تشدد کیوں ہے؟۔
India
بھارت نے اپنی ہی قرار دادوں کو پسِ پشت ڈال کر جس طرح کشمیریوں پر سنگینیں تانی ہوئی ہیں وہ کسی جمہوری حکومت میں جائز نہیںہے۔ معصوم کشمیریوں کا جس طر ح قتلِ عام ہو رہا ہے اور نہتے کشمیریوں کو جس طرح خون میں نہلایا جا رہا ہے وہ ایک الگ داستان ہے۔اس میں کسی مسلمان کا کانگریسی ہونا یا نہ ہونا کوئی اہمیت نہیں رکھتا کیونکہ اس میں سارے مسلمانوں کو مسلمان ہونے کی سزا دی جا رہی ہے۔لیکن حیران کن بات یہ ہے کہ اس جبرِ مسلسل کو سارے مسلمان بحثیتِ مسلمان برداشت کرتے چلے آ رہے ہیں لیکن اپنی گردن خم کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں ۔ یہ اصل میں دو مذاہب کی جنگ ہے جس میں ہندوستان کی تقسیم اور بٹوارے کا کوئی تعلق نہیں ہے۔اگر میں یہ کہوں کہ یہ جنگ ہر ہندو اور ہر مسلمان کے لہو میں شامل ہے تو بے جا نہ ہوگا۔یہ جنگ صدیوں سے جاری ہے اور یہ جنگ اسی طرح صدیوں تک جاری رہے گی ۔نہ مسلمان ہتھیار پھینکیں گئے اور نہ ہی ہندو اپنی ہٹ دھرمی سے باز آئے گا۔اہلِ ایمان اپنے ایمان کی قیمت چکاتے رہیں گئے اور ہندو اپنی طاقت کے زعم میں انھیں ظلم و جبر کا نشانہ بنانے سے باز نہیں آئے گا۔
لیکن تاریخ کے اس فیصلے کا کیا کرے گا جس میں آخری فتح مظلوم کی ہوتی ہے۔میں اس منطق کو سجھنے سے قاصر ہوں کہ کہ بنگلہ دیش کی جنگِ آزادی میں وہ سارے افراد جو اس وقت پاکستان کے شہری تھے ان پر کس طرح بغاوت کا مقدمہ قائم کیا جا سکتا ہے؟ہر وہ فرد جس نے پاکستان کا جھنڈا اٹھا یا ہوا تھا اور اپنے وطن کی خاطر جان کا نذرانہ پیش کر رہا تھا اور ایسا کرنے والا ہر فرد پاکستانیوں کی نظر میں شہید کا مقام رکھتا تھا ۔اس وقت بنگلہ دیش کا ساتھ دینے والے غدارِ وطن تھے کیونکہ وہ اپنے ہی ملک کے خلاف اسلحہ اٹھائے ہوئے تھے۔مکتی باہنی نے جس طرح سے غیر بنگالیوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے دنیا اس سے واقف ہے۔مکتی باہنی اصل میں ہندوستانی فوج کے ان جوانوں کا گروہ تھا جھنیں مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی ذمہ داری سونپی گئی تھی جس کا اعتراف خود بھارتی وزیرِ اعظم نریندر مودی نے بھی کیا ہے۔
انھوں نے بنگلہ دیش کے حالیہ دورے پر لگی لپٹی رکھے بغیر اس بات کا اعلان کیا تھاکہ کہ ہم نے بنگلہ دیش کی آزادی میں بنگالیوں کی مدد کی تھی۔اگر ہم ایسا نہ کرتے تو بنگال کی آزادی کبھی حقیقت کا روپ اختیار نہ کر پاتی لہذا ثابت یہ ہوا کہ یہ ایک عالمی سازش تھی جس میں بھارت،بنگالی اور سوویت یونین باہم ملے ہوئے تھے لہذا اس عالمی سازش کو ناکام بنانے والے جری پا کستا نیوں کو غدارِ وطن کیسے کہا جا سکتا ہے؟ یہ سارے واقعات ١٦ دسمبر ١٩٧١ سے قبل کے ہیں اور اس وقت بنگلہ دیش ایک الگ ملک نہیں بلکہ پاکستان کا حصہ تھا اور اسے مشرقی پاکستان کہہ کر پکارا جاتا تھا لہذا ایسے افرادپر بغاوت کا مقدمہ چہ معنی داراد۔،۔
Bangladesh
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ بنگلہ دیش کے قیام کے بعد ایک سہ فریقی سمجھوتہ طے پایا تھا جس میں اس بات پر اتفاق کیا گیا تھا کہ جو کچھ ١٦ دسمبر ١٩٧١ سے قبل وقوع پذیر ہو چکا ہے اس پر کسی کو موردِ الزام ٹھہرا کر مقدمہ نہیں چلا یا جائے گا ۔حسینہ واجد ذ اتی انتقام میں اس معاہدے کو بھی بھول گئی ہیں جس پر اس کے والدِ محترم شیخ مجیب الرحمان ،پاکستان اور بھارت نے دستخط کئے تھے۔جس میں ١٦ دسمبر ١٩٧١ سے قبل کے واقعات پر کسی بھی قسم کی کاروائی نہ کرنے کا اعلان کیا تھا۔بھارت کی خوشنودی کی خاطر آج حسینہ واجد اس معاہدے کی دھجیاں بکھیر رہی ہیں ۔ان کی بھارت نوازی پر کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہے لیکن بھارت نوازی کے یہ معنی تو نہیں ہیں کہ وہ اپنے ہی مسلمان بھائیوں کو پھانسی گھاٹ تک لے .ئے۔یہ ٹھیک ہے کہ ان کی جماعت اس وقت بر سرِ اقتدار ہے اور دوسروں کو سزا دلوانے کے لئے اس کے پاس ریاست کی طاقت ہے۔
لیکن یہ بھی تو سچ ہے کہ اس کی جماعت نے سدا اقتدارمیں نہیں رہنا۔اقتدار کا ہما ہمیشہ سر بدلتا رہتا ہے ۔آج اگر یہ حسینہ واجد پر مہر بان ہے تو کل کو یہ کسی دوسرے پر بھی مہربان ہو سکتا ہے۔شہنشاہِ ایران کی مثال ہماعت سامنے ہے کہ وہ کس طرح ذلیل و خوار ہوا اور کتنی بے بسی کی موت اس کا مقدر بنی۔ مولانامطیع الرحمان نظامی،پرو فیسر غلام اعظم،عبدالقادرملاجس طرح بنگالہ دیشی حکومت کے جبر کا نشانہ بنے ہیں وہ انتہائی قابلِ مذمت ہے۔نصف صدی گزر جانے کے بعد ایسے تمام افراد کو جو بنگلہ دیش کے قیام کے وقت پاکستان کے شہری تھے انھیں موت کے حوالے کرنا بنگلہ دیش کی پیشانی پپر ایسا سیاہ دھبہ ہے جسے کبھی دھویا نہیں جا سکے گا ۔قانون و نصاف کے کسی بھی ضابطے کے تحت انھیں موت کی سزا نہیں سنائی جا سکتی۔
لیکن حسینہ واجد ہر قسم کے قانون کو نظر انداز کر کے وہ کچھ کر رہی ہے جسے عدل و انصاف کے قتل سے تعبیر کیا جا سکتا ہے مولانامطیع الرحمان نظامی نے رحم کی اپیل سے انکار کر کے یہ ثابت کیا ہے کہ وہ زندگی کے نہیں بلکہ اس موت کے متمنی ہیں جس میں حریت و جانبازی فتح یاب ہوتی ہے۔یہ کوئی معمولی بات نہیں کہ انسان اپنی زندگی بچانے کی خاطر رحم کی اپیل کرنے کی بجائے موت کو بڑھ کر گلے لگا لے۔ایسا کرنا ان افراد کا خاصہ ہوتا ہے جھنیں اپنے مقصد کی حقانیت پر اندھا یقین ہو تا ہے۔،۔ جس شان سے کوئی مقتل میں گیا وہ شان سلامت رہتی ہے ۔،۔یہ جان تو آنی جانی ہے اس جاں کی تو کوئی بات نہیں۔