تحریر : محمد اعظم عظیم اعظم آج ملک میںچھ سال بعد سزائے موت کے مجرموں پر عائد پابندی کے خاتمے کا کیا اعلان ہو گیا ہے گویا کہ عالمی برداری سمیت بہت سی بین الاقوامی اِنسانی حقوق کی نام نہاد تنظیموں اور ملّا عبدالعزیز جیسے بہت سے دہشت گردوں کے یاروں کے پیتوں میں بھی شدت سے مروڑ اُٹھنا شروع ہوگئے ہیںاَب یہ عناصر حکومت پر دباو¿ ڈالنے کے لئے طرح طرح کی اشتعال انگیزیوں کی دھمکیوں سے ڈرااور دھمکارہے ہیں،جبکہ اِس نقطے پر حکومت ، اور مُلک کی تمام مذہبی و سیاسی جماعتیں ،عسکری قیادت اورقوم متفق و متحد ہے کہ قصاص میں زندگی ہے۔ بہرکیف …!!گزشتہ اتوارکو جب اسلام آباد کے پنجاب ہاو¿س میں وفاقی وزیرداخلہ چوہدری نثارعلی خان نے اپنی ایک ہنگامی پریس کانفرنس میںیہ انکشاف کیا کہ ” دہشت گرد پشاور جیسی وحشیانہ کارروائی کی تیاری کررہے ہیں “ تومیں ایک لمحے کے لئے حیرت زدہ ہوئے بغیر نہیں رہ سکااور سوچنے لگاکہ آج اگرخدانخواستہ دہشت گرد پھر ایسی کوئی ناپاک حرکت کرجائیں جس کا وفاقی وزیرداخلہ انکشاف کررہے ہیں تو پھر کیا یہ سوال پیدانہیں ہوگاکہ جب حکومت کو دہشت گردوں کی جانب سے سانحہ پشاور کی طرز کی کسی ایسی وحشیانہ کارروائی کا پہلے سے علم تھا تو حکومت نے اپنی رٹ قائم کیوں نہ کی …؟؟اور سیکورٹی کے ایسے سخت اقدامات کیوں نہ کئے جس سے مُلک اور قوم کو کسی اندہولناک واقعہ سے بچایاجاسکتاتھا..؟؟اَب ایسے میں حکومت اور سیکورٹی فراہم کرنے والے اداروں پر کڑی ذمہ داری عائد ہوجاتی ہے کہ وہ دہشت گردوں کے کسی ایسے منصوے یا منصوبوں کو ہر صورت ناکام بنائیں جس سے مُلک اور قوم کسی سانحے سے بچ جائیں اور دہشت گردوں کی کمر ٹوٹ جائے …بہرحال …!! وفاقی وزیرداخلہ چوہدری نثارعلی خان نے اپنی اِسی پریس کانفرنس میں یہ انکشاف بھی کیا ہے کہ ”ہم حالت جنگ میں ہیں دُشمن باہر نہیں اندر ہے، قوم فوج کا ساتھ دے“ او ر اِسی کے ساتھ ہی اُنہوں نے یہ بھی کہاکہ” ممکنہ کارروائی سے بچنے کے لئے متحرک ہوناہوگا،قوم کو یہ احساس ہوناچاہئے کہ ہم حالتِ جنگ میں ہیں، پوری قوم پاک فوج کاساتھ دے،دہشت گردوں کے خلاف بلاتفریق طاقت استعمال کی جائے گی ، دہشت گردی کے خلاف ہر شہری کو اپنا حصہ ڈالناچاہئے۔
حکومت فوج اور سیاسی قیادت کی مشاورت سے قانون سازی کرے گی،مداس کو بے جاہدف تنقیدنہ بنائیں دہشت گردی میں مدرسوں کو تنہاکرکے نشانہ بنانے کی ضرورت ہے، جب تک ضرب عضب جاری ہے روزانہ سرچ آپریشن ہوناچاہئے“ اِن کی یہ ساری باتیں اپنی جگہہ مگرپھر بھی حکومت اورمُلک میں قانون نافذ کرنے اورسیکورٹی فراہم کرنے والے اداروں کو بھی چاہئے کہ اَب یہ اپنے اقدامات اور انتظامات کے نفاذ کے لئے بھی سنجیدہ ہوجائیں اور ایسے مقامات اور اجتماعات کا بھی باریک بینی سے جائزہ لیں جہاں سے مُلک میں فرقہ واریت اور فروعی اختلافات کو ہوادے کرمُلک میں دہشت گردی ، قتل وغارت گری، اور انارگی کو پھیلایاجارہاہے ، حکومت بغیر کسی لیت و لعل کے ایسے مدارس اور درسگاہوں کی انتظامیہ اور اساتذہ کی بھی جانچ پڑتال کرے جنہوں نے ماضی میں قتال کی آڑ میں جہادی اور پھر دہشت گرد پیداکئے ہیں ، مدارس اور درسگاہوں کے ایسے اساتذہ اور انتظامیہ کی کارکردگی کا بھی جائزہ لیاجائے اور اِن کے احتساب کے لئے بھی ایسے قوانین وضع کئے جائیں کہ آئندہ کسی بھی مدرسے یا درسگاہ سے شدت پسندی کا درس دے کر انتہاپسند اور دہشت گرد پیدانہ ہونے پائیں جیساکہ آج مُلک کے 90فیصدنہ سہی مگر 10فیصدجو مدارس اور درس گاہیں ہیں جن میں کچھ شدت پسند اساتذہ اپنی انتہاپسندی کے تجربات کی روشنی میں طالبعلوں کوشدت پسندبناکراِنہیں دہشت گرد ی راہ پر ڈال رہے ہیں اور یہ سمجھ رہے ہیں کہ اِس طرح وہ اور اِن کے بے لگام چھوڑے ہوئے کارندے اسلام اور اِنسانیت کی خدمت کررہے ہیں تو وہ بہت بڑی غلطی پر ہیںحکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو اپنی آستینوں میں چھپے ایسے دہشت گردوںاور اُن اندرکے دُشمنوں کو(جن کا وفاقی وزیرداخلہ چوہدری نثارعلی خان نے اپنی پریس کانفرنس میں تذکرہ کیا ہے) باہر نکال کر اِن کی ایک سانس بھی ضائع کئے بغیر فوراََ اِنہیں پھانسی پر لٹکادیاجائے تو مُلک کچھ نہیں تو تھوڑابہت تو دہشت گردوں کی دہشت گردی سے پاک ہوجائے گا۔
اگرچہ اِس میں کوئی شک نہیں ہے کہ پاکستانی قوم کا شمار دنیا کی سب سے عظیم اور باشعورقوموں میں ہوتاہے، مگر اِس ساتھ ہی دنیا یہ بھی جانتی ہے کہ یہ قوم اپنے فروعی اختلافات میں پڑ کرپستی اور گمنامی میں جارہی ہے، آج ویسے تو دنیا معاشی و اقتصادی حوالوںسے ہماری مددکرنے کو تیار ہے مگر افسوس ہے کہ دنیا ہماری قوم کو فروعی اختلافات سے نکالنے میں بے بس نظرآتی ہے، ایسالگتاہے کہ جیسے اِس نے یہ کام ہماری صوابدیدپرچھوڑدیاہے، اور ایک ہم ہیں کہ ہم خود بھی فروعی اختلافات کے ناسورسے نکلنانہیں چاہتے ہیں،آج قوم کواپنے تمام ظاہر وباطن، ماضی ، حال اور مستقبل کے فروعی اختلافات کو بالائے طا ق رکھ کر سانحہ پشاور پہ تو متحدہوناچاہئے تھا،مگر افسوس ہے کہ انتہاپسندی اوردہشت گردی کواپنے دامن میں سمیٹے اسلام آبا د کی لال مسجد کے غیرسرکاری خطیب مولانا عبدالعزیز اپنے قول و فعل اور کرداراور بیانات سے سانحہ پشاورکے شہداءکو متنازعہ بنارہے ہیں اور اپنے سطحی علم کی بنیاد پر ایسے نازیباالفاظ اور جملے اداکررہے ہیں اور مُلک کو فرقہ واریت اور انارگی میں جھوکنے کا ذریعہ بن رہے ہیںحکومت کو ایسے افراد کے سدِبات اور انجام کے لئے بھی قانوں بنانے کی اشدضرورت ہے یہ اور ایسے ہی وہ اندر کے دُشمن ہیں جو موقعے کی تاک میں رہتے ہیں کہ اِنہیں کہیں سے موقعہ ملے تو یہ اپنے گھناو¿نے عزائم کی تکمیل چاہیںلہذاآج ضرورت اِس امر کی ہے کہ حکومت اور ساری پاکستانی قوم متحداور منظم اور یکجاہوکراپنے اندرموجود ایسے دُشمنوں کا بھی قلع قمع کریں جو حادثات اور سانحات کو اپنے عزائم کی تسکین اور مُلک میں فرقہ واریت پھیلانے کا باعث سمجھتے ہیںایسے افراداور ٹولے کو بھی قانون کے مطابق سزادی جائے۔
Peshawar School Incident
آج اِس سے انکار نہیں ہے کہ سانحہ پشاور کے بعد حکمرانوں سے لے کر قوم کا ہر فرد مُلک سے دہشت گردی کے ناسُور کو جڑ سے اُکھاڑ پھینکنے کے لےے ایک پیچ پر متحد اور یکجاہے اوروزیراعظم نوازشریف کی جانب سے خطرناک مجرموں کو پھانسی دیئے جانے کے اعلان اوراِس اعلان پر سیکورٹی اداروںکی طرف سے تُرنت عمل درآمدکئے جانے کو خوش آئندقراردیاجارہاہے جس پر قوم نے سُکھ کا سانس لیا ہے اوراِس پر قوم نے اپنے مکمل تعاون کا یقین دلاتے ہوئے حکومت اور سیکورٹی اداروںسے کہاہے کہ وہ دہشت گردوں اور مُلک دُشمن عناصر کے خلاف مزیدسخت ترین اقدامات کریں ساری پاکستانی قوم حکمرانوں، سیاستدانوں، اور قومی اداروںکے ساتھ ہیں اگرچہ ماضی کی طرح آج بھی یورپی ممالک سمیت اِنسانی حقوق کی نام نہاد عالمی تنظیموں کی طرف سے حکومت پر پھانسی کی سزاپر پابندی اُٹھائے جانے پر بے حد دباو¿ ڈالاجارہاہے،مگراَب یہ بات حکومت کوہی سوچنی چاہئے کہ اِس کے حق میں کیا بہترہے…؟؟اِس حوالے سے بالخصوص وزیراعظم نوازشریف کو پچھلے دِنوں مُلک کے ایک بڑے اشاعتی ادارے کی طرف سے شائع ہونے والی رپورٹ کا بھی جائزہ لیتے ہوئے اپنے اقدامات پر ثابت قدم رہتے ہوئے عالمی برادری کے اعتراضا ت کا منہ توڑ جواب دیناچاہے اورمجرموں کو پھانسی دیئے جانے والے اپنے اعلان اور اقدامات پر ڈٹ جاناچاہئے، اشاعتی ادارے کے ایک سروے کی روشنی میں جورپورٹ تیارکی گئی تھی اِس رپورٹ میںجو اعدادوشمارپیش کئے گئے تھے۔
اِن اعدادوشمار کے مطابق گزشتہ چھ سالوں کے دوران پاکستان میں دیگر ممالک کی نسبت سے کم یعنی172مجرموں کو پھانسی دی گئی جب کے اِس کے برعکس ایران نے 2032،سعودی عرب نے502، عراق نے425اور دنیابھر میں ایک طرف دہشت گردِ اعظم اور دوسری جانب اِنسانی حقوق کا سب سے بڑاعلمبردار بنا پھرنے والا امریکا نے بھی اپنے یہاں 279ملزمان کو موت کے گھاٹ اُتاراہے،مُلک میں کل قیدیوں کا 10فیصدسزائے موت کے قیدیوں پر مشتمل ہے،جنہیں سابق دورِ حکومت کے دوران اِنسانی حقوق کی خلاف ورزی کے باعث سزائے موت پر عمل درآمدروک دیاگیااور یہی وجہ ہے کہ 2008سے2013تک صرف 37افرادکو پھانسی دی گئی 2009،2010،2011اور2013کے دوران کسی بھی مجرم کو پھانسی نہ دی جاسکی۔
جبکہ دوسری جانب عالمی سطح پر چین سمیت پیشتر ممالک میں پھانسی دینے کا عمل متواتر جاری رہایوں اِس دوران چین سمیت دیگر ممالک میں مرتکب افرادکو پھانسی کے تختے پر لٹکادیاگیاجس کا اندازہ مندرجہ بالااعدادوشمار سے لگایاجاسکتاہے کہ چھ سالوںکے دوران صرف اپنے انتہائی قریب ترین دوست ملک چین میں ہی لاتعدارافرادکو پھانسی دے جاچکی ہے مگر افسوس ہے کہ آج جب ہم اپنے یہاںبے لگام دہشت گردوں کو لگام ڈالنے کے لئے دوبارہ پھانسی دینے کا عمل شروع کردیاہے تو عالمی طاقتوں اور اِنسانی حقوق کی نام نہاد تنظیموں کو کیوں ناگوار گزررہاہے عالمی برادری اور بدبخت اِنسانی حقوق کی نام نہادتنظیمیں اپنے یہاں مجرموں کو پھانسی دیں تو ٹھیک مگر ہم دیں تو اِنسانی حقوق کی پامالی کا الزام دے کر پروپیگنڈہ کیوں ….؟؟وزیراعظم نوازشریف صاحب….!! اَب آپ ایسے بدبختوں اور اِنسانی حقوق کی نام نہاد تنظیموں اور سزائے موت کی بحالی سے اشتعال پیداہوگا“ کہنے والے عبدالعزیز جیسے لوگوں کو بتادیں کے قصاص میں زندگی ہے اور اَب ہمیں اپنے لوگوں کی زندگی بڑھانے کے لئے قرآن و سُنت کے مطابق قاتلوں کو سزائے موت دینے کا عمل جاری رکھنا لازمی ہے کیوں کہ شریعت کی رو سے قصاص میںہی زندگی ہے۔
Azam Azim Azam
تحریر : محمد اعظم عظیم اعظم azamazimazam@gmail.com