سپیشل پرسن یا معذور ایسے افراد کو کہا جاتا ہے جو کسی ایسی بیماری یا محرومی میں مبتلا ہوں جو انسان کے روزمرہ کے معمولات زندگی سرانجام دینے کی اہلیت پر گہرے اثرات مرتب کرے یاکہ اس فرد کے کام کرنے کی اہلیت یا صلاحیت کو ختم کردے۔ معذوری ذہنی بھی ہو سکتی ہے جسمانی بھی، پیدائشی بھی ہو سکتی ہے اور حادثاتی بھی۔ اقوام متحدہ اور عالمی ادارہ برائے صحت کے اعدادوشمار کے مطابق دنیا بھرمیں دس میں سے ایک شخص معذوری کی زندگی بسر کررہاہے، دنیا بھر میں معذور افراد کی کل تعداد تقریباً 65کروڑ سے زائد ہے ۔ جبکہ پاکستان میں تقریبا ً ایک کروڑ 80 لاکھ سے زائد افراد معذوری کی زندگی گزار رہے ہیں، جن میں 90 لاکھ خواتین مختلف معذوریوں کا شکار ہیں جبکہ ملک میں موجود 60 فیصد معذور افراد کا تعلق نوجوان طبقہ سے ہے جن کی عمریں 29 سال سے کم ہیںجو کہ ذہنی و جسمانی معذوری کے باعث مختلف نوعیت کے مسائل سے دو چار ہیں، جن میں بیروزگاری، قانون ساز اداروں میں نمائندگی کا نہ ہونا، سفری مسائل، مفت علاج معالجے کی عدم دستیابی، انتہائی حساس معذور افراد کے لئے وظائف کا نہ ہونا قابل ذکر ہیں۔
اگرچہ حکومتوں نے وقتاً فوقتاً ان افراد کی بحالی کے لئے کچھ اقدامات اٹھائے لیکن ان افراد کی حالت جوں کی توں ہے۔ معاشرے کی ستم ظریفی اور حکومتی بے حسی کی بدولت معذور افراد کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں ، یہاں 90 فیصد خصوصی افراد کو روزگار کے مواقع دستیاب نہیں اور اپنی گزر بسر کیلئے وہ دوسروں پر انحصار کرتے ہیں، جبکہ معذور افراد کو ہمارے معاشرے میں بوجھ سمجھا جاتا ہے ۔ معذور افراد کی مشکلات کا جائزہ لیں توسرکاری اور نجی دفاتر، پبلک ٹرانسپورٹ، شاپنگ سینٹرز، ایئرپورٹ، ریلوے اسٹیشنوں اورہسپتالوں میں معذور افراد کو باآسانی رسائی ممکن نہیں۔ چونکہ عمارتوں کے انفراسٹرکچر میں معذور افراد کے لیے ریلنگ اور ریمپ نہیں بنائے جاتے جس کی وجہ سے جگہ جگہ معذور افراد کو اذیت کا احساس ہوتا ہے اور ان کی اکثریت گھروں تک محدود ہوجاتی ہے۔ معذوروں کے احساس محرومی کا خاتمہ کرنے اور ان کی بحالی کے لیے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کی ضرورت ہے تاکہ یہ معاشرے کا حصہ بن سکیں۔
جسم کے مختلف اعضاء سے معذور ہونے کے باوجود انتہائی پر عزم و پر جوش دکھائی دینے والے معذور افراد کی صلاحیتیں اور ان میں ملک و ملت کی خدمت کے لئے کچھ کرنے کا جذبہ نارمل انسانوں سے کہیں زیادہ دکھائی دیتا ہے ۔ اعضاء کی صحت جہاں بہت بڑی نعمت ہے، وہاں عزم و حوصلہ اور قوت ارادی اس سے بھی بڑی نعمت ہے جسے کام میں لا کر جسمانی کمزوریوں پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ انسان بہت کمزور بھی ہے اور بہت طاقت ور بھی ۔ اگر اس کے عزم و حوصلہ کا رخ کمزوری کی طرف ہے تو اس سے زیادہ کمزور کوئی نہیں ، اور اگر اس کی قوت ارادی عزم و ہمت کی طرف متوجہ ہے تو اس سے زیادہ طاقت ور بھی کوئی نہیں ہے۔ معذور افراد نظروں ہی نظروں میں ہم سے تقاضہ کرتے نظر آتے ہیں کہ خدارا ان پر ترس کھاکر نظر انداز نہ کیاجائے ، ان کو مایوس نہ کیا جائے، ان کو معذوری کے سبب دوسرے انسانوں سے کمتر نہ سمجھا جائے بلکہ ان کو معاشرے کی چین کا حصہ بننے میں مثبت کردار ادا کیا جائے یہی ان کیساتھ بہترین خیر خواہی ہے۔
خصوصی افراد نے دنیا کے ہر شعبے میں اپنا لوہا منوایا ، انہوںنے اپنی محنت اور لگن سے معذوری کو شکست دیکر معاشرے میں اپنا مقام بنایا،اور اپنی صلاحیتوں سے یہ ثابت کر دیا اگران کے ساتھ تعاون کیا جائے تو یہ عام لوگوں کی طرح اپنی زندگی گزار سکتے ہیں۔ پاکستان میںمعذور افراد کی فلاح و بہبود سے متعلق صرف ایک ڈس ایبل پرسنز ایمپلائنمنٹ اینڈ ری ہیبلی ٹیشن آرڈیننس 1981ء موجود ہے جس میں معذور افراد کے لیے نوکریوں میں دو فیصد کوٹہ متعین ہے ۔ اس کے علاوہ علاج کی مفت سہولتیں ،اور معذور افراد کے بچوں کی سرکاری اداروں میں 75 فیصد جبکہ پرائیویٹ اداروں میں 50 فیصد فیس معافی اور روزگار کی یقینی فراہمی بھی اس قانون کا حصہ ہے۔ مگر اس کے باوجود اکثرمعذور افراد کو اپنے حقوق کے حصول کے لیے سڑکوں پر احتجاج کا راستہ اختیار کرنا پڑتا ہے ا ور پولیس کے ڈنڈے بھی کھانے پڑتے ہیں۔ مذکورہ بالا آرڈیننس میں خاصی خامیاں، کمزوریاں موجود ہیں جنہیں رفع کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
معذورافراد کی بحالی ملک کی خوشحالی ہے اور ان کے مسائل کا حل وقت کا تقاضا ہے ، اس کے لئے حکومت کے ساتھ ساتھ معاشرے کو بھی اپنا کردار بخوبی ادا کرنا چاہیے ۔ معذور افراد کی آنکھوں کی چمک اور ڈھلکتے آنسو ہم سے تقاضہ کرتے ہیں کہ خدارا انہیں نظر انداز مت کیا جائے ، ان پر تر س کھانے کی بجائے انہیں ان کے حقوق دیے جائیں۔ فلاح انسانیت کے مذہب اسلام نے بھی معذور افراد کی عزت و تکریم اور ان کا خیال رکھنے کا خصوصی طور پر حکم دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے ذریعے امت کو یہ تعلیم دی کہ معذور افراد دیگر معاشرے کی نسبت زیادہ توجہ کے مستحق ہیں، دوسرے افراد کو ان پر ترجیح دیتے ہوئے انہیں نظر انداز نہ کیا جائے بلکہ دوسرے افراد پر انہیں ترجیح دی جائے۔
اسلام جہاں معذوروں کو عزت و احترام دینے اورخیال رکھنے کا حکم دیتا ہے وہاں پر یہ بھی کہتا ہے کہ ان پر کوئی ایسی ذمہ داری نہ ڈالی جائے جو ان کے لئے ناقابل برداشت ہو۔ترقی یافتہ ممالک میں معذور افراد قابل رسائی ٹیکنالوجی اور مددگار جدید آلات کی بدولت آفس ورک باآسانی کرلیتے ہیں۔ ہمارے ملک میں بھی کاروباری اداروں کی انتظامیہ کو اس ضمن میں تربیت دینے کی ضرورت ہے تاکہ معذور افراد کو ان کی معذوری کی اقسام کے مطابق اداروں میں ملازمتوں کے مواقع میسر آسکیں۔ ضرورت اس امرکی ہے کہ ہم رنگ و نسل اور ذات سے بالاتر ہو کر یہ عہد کریں کہ خصوصی افراد کی بحالی، ان کو معاشرے کا حصہ بنانے میں ، ان کو روزگار کی فراہمی میں اپنا بھر پور کردار ادا کرتے رہیں گے۔
Rana Aijaz Hussain
تحریر : رانا اعجاز حسین چوہان
ای میل: ranaaijazmul@gmail.com رابطہ نمبر:03009230033