اسلام آباد (جیوڈیسک) پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں سنہ 1975 سے قائم پارلیمانی نظام میں شروع سے ہی خواتین کی نمائندگی رہی ہے لیکن براہ راست انتخابات میں حصہ لینے سے نہ صرف خواتین خود کتراتی تھیں بلکہ سیاسی جماعتیں بھی انھیں ٹکٹ دینے سے گریز کرتی رہی ہیں۔
پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کی قانون ساز اسمبلی میں پہنچنے والی خواتین کی تعداد اب بھی بہت کم ہے تاہم خواتین میں یہ اعتماد پیدا ہوا ہے کہ سیاسی طور پر باشعور ہو کر ہی وہ اپنے حقوق کے لیے قانون سازی کروا سکتی ہیں۔
اب ان خواتین نے مخصوص نشستوں سے اسمبلی تک پہنچنے کا راستہ ترک کر کے براہِ راست انتخاب لڑنے کا فیصلہ کیا ہے اور وہ چھوٹے چھوٹے دیہاتوں میں جا کر بھی انتخابی مہم چلا رہی ہیں۔
انھی میں سے ایک پیپلز پارٹی کی رہنما فرزانہ یعقوب ہیں جو کشمیر کے شہر راولاکوٹ سے پہلے بھی ضمنی انتخاب میں اپنے والد کی نشت پر کامیابی حاصل کر چکی ہیں لیکن اس علاقے میں وہ عام انتخابات میں براہِ راست حصہ لینے والی پہلی خاتون ہیں۔
فرزانہ کو سیاست ورثے میں ملی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ’ہمارے خاندان میں سیاست میں پہلے قدم رکھنے والی میری والدہ تھیں جنھوں نے پہلی مرتبہ بلدیاتی انتخابات میں حصہ لیا۔ اس کے بعد والد آئے اور اب میں بھی اس کا حصہ ہوں۔‘
فرزانہ یعقوب کے بقول کشمیر میں خواتین پر انتخابات میں حصہ لینے پر کوئی پابندی تو نہیں لیکن یہ کام وہ فردِ واحد کے طور پر نہیں کر سکتیں۔
’کشمیر میں خواتین کے کسی بھی شعبے میں حتیٰ کہ سیاست میں حصہ لینے پر بھی کوئی پابندی نہیں ہے لیکن یہ اتنا مشکل کام ہے کہ خاندان اور کسی مضبوط سہارے کے بغیر آپ یہ نہیں کر سکتے۔ اس کے لیے مالی وسائل درکار ہوتے ہیں۔‘
ان انتخابات میں مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر انتخابات میں حصہ لینے والی نورین عارف کا تعلق بھی ایک سیاسی خاندان سے ہی ہے۔
ان کا 30 برس سے زیادہ کا سیاسی سفر 1983 میں بلدیاتی انتخابات سے شروع ہوا اور 1985 میں وہ مسلم کانفرنس کی جانب سے مخصوص نشست پر پہلی بار اسمبلی کی رکن بنیں۔ چار مرتبہ مخصوص نشست پر اسمبلی میں آنے کے بعد سنہ 2006 میں پارٹی اختلافات نے ان کے راستے الگ کر دیے۔
وہ بتاتی ہیں کہ ’پارٹی نے جب ٹکٹ نہیں دیا تو میں نے اپنے والد کے آبائی علاقے سے آزاد امیدوار کی حیثیت سے انتخاب لڑا اور کامیابی حاصل کی۔‘ نورین عارف ان چند رہنماؤں میں شامل تھیں جنھوں نے پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کی سب سے بڑی ریاستی جماعت مسلم کانفرنس میں اخِتلافات کے باعث الگ دھڑا بنایا اور بعد ازاں یہاں مسلم لیگ ن کی بنیاد رکھی۔
نورین کا کہنا ہے کہ ان کا تجربہ کہتا ہے کہ سیاسی پس منظر سے کہیں اہم عوام کے کام کرنا ہے۔ ’اگر آپ اپنے حلقے میں جا کر کام کریں گے تو آپ کو سیاسی پس منظر کی بھی ضرورت نہیں کیوں کہ لوگ اسے ووٹ دیتے ہیں جس کے بارے میں انھیں یقین ہو کہ وہ ان کی خدمت کرے گا۔‘
سیاسی جماعتوں کی جانب سے خواتین امیدواروں کو ٹکٹ دینے میں ہچکچاہٹ اب بھی قائم ہے۔ اس بارے میں فرزانہ یعقوب کا موقف تھا سیاسی جماعتوں کی اولین ترجیح حکومت بنانا ہوتا ہے اور ’پارٹی اسے ٹکٹ دیتی ہے کہ جس کے بارے میں اسے یقین ہو کہ وہ نشست حاصل کرنے میں کامیاب ہوگا۔ چونکہ اب تک یہی تصور کیا جاتا رہا ہے کہ یہ کام مردوں کا ہے، وہی کرتے ہیں تو ایسا تاثر ہے۔ لیکن اب ہم خواتین انتخاب لڑ رہی ہیں تو دوسروں کے لیے راہ بنے گی۔‘
تو کیا خواتین کے لیے مخصوص نشستیں نسبتاً آسان راستہ نہیں؟ اس پر فرازنہ کا کہنا تھا درحقیقت ایسا نہیں ہے کیونکہ براہ راست انتخاب میں محض اپنے حلقے کی ذمہ داری ہوتی ہیں جبکہ مخصوص نشست کے لیے پورے خطے میں کام کرنا پڑتا ہے۔ یہ نسبتاً زیادہ محنت طلب اور مشکل کام ہے۔
نورین عارف کے لیے براہ راست انتخاب کا مطلب ووٹرز سے قربت ہے۔ برسوں مخصوص نشستوں پر اسمبلی کا حصہ رہنے کے بعد اب انھیں احساس ہوتا ہے کہ جو خوشی اور لوگوں کا پیار انھیں براہِ راست انتخاب میں حصہ لے کر ملا ہے وہ مخصوص نشستوں پر نہیں ملتا۔ اس سے وہ لوگوں کے مسائل زیادہ حل کر پاتی ہیں۔
پہلی مرتبہ عملی سیاست میں قدم رکھنے والی سمیعہ ساجد کو اگرچہ سیاسی جماعتوں کے اتحاد کے باعث انتخابات سے عین پہلے اپنی نشست چھوڑنا پڑی لیکن وہ بھی مخصوص نشستوں پر اسمبلی میں جانے کے حق میں نہیں ہیں۔
’براہِ راست انتخابات کا معیار ہی الگ ہوتا ہے۔ہار جیت کی پروا کرنے والوں کو انتخابات میں حصہ ہی نہیں لینا چاہیے۔‘
کشمیر کے شہری علاقوں میں تو خواتین نسبتاً سماجی سرگرمیوں کا حصہ دکھائی دیتی ہیں لیکن دیہاتوں اور دور دراز پہاڑی علاقوں میں ایسا نہیں۔
فرزانہ کا حلقہ ایسے ہی دیہات پر مشتمل ہے اور وہ کہتی ہیں کہ ’میں بمشکل دو چار خواتین کو ساتھ لے کر مہم پر نکل پاتی ہوں۔‘
کیا کشمیر میں کسی خاتون کو وزیراعظم یا صدر جیسا بڑا عہدہ مل سکے گا؟ اس سوال پر نورین عارف کہتی ہیں کہ ابھی وقت لگے گا۔
’میں نے پوری عمر سیاسی جدوجہد میں گزاری ہے لیکن اگر آج بھی میں کسی بڑے عہدے کی امیدوار بنوں تو ایسا ممکن نہیں ہوگا۔ لیکن چونکہ انتخاب لڑ کر میں نے ایک راستہ پیدا کیا ہے تو کل کسی کی قسمت میں ہوا تو وہ صدر یا وزیرِ اعظم بھی بن جائے گا۔‘
سمیعہ کہتی ہیں کہ معاشرے میں حاکمیت کے تصور میں تبدیلی ہی عورت کے لیے بڑے عہدے کا راستہ ہموار کر سکتی ہے۔ ’جس دن یہ جنگ ختم ہو گئی کہ مرد عورت کو آگے آنے نہیں دیتا اس دن یہاں بھی عورت وزیرِ اعظم بن جائے گئی۔‘ تاہم فرزانہ یعقوب اس سلسلے میں پرامید ہیں۔
ان کا موقف ہے کہ ’چونکہ خواتین ابھی اس عمل میں نئی ہیں اور وزیرِ اعظم بننے کے لیے براہ راست انتخاب جیتنا ضروری ہے۔ ہمیں بھی تھوڑا وقت لگے گا۔ پاکستان میں بھی کسی نے نہیں سوچا تھا کوئی خاتون وزیرِ اعظم ہوگی لیکن جب بنیں تو لوگوں نے انھیں قبول کیا۔ تو جب یہاں بھی خاتون وزیرِ اعظم ہوں گی تو لوگ انھیں بھی اپنائیں گے۔‘
پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں خواتین میں تعلیم اور سیاسی آگہی نے جہاں ان خواتین میں یہ حوصلہ پیدا کیا ہے کہ وہ عملی سیاست جیسا مشکل تصور کیا جانے والا کام کریں وہیں خواتین ووٹرز کو بھی امید دلائی ہے کہ اب نہ صرف ان کے حقوق کے تحفط کے لیے قانون سازی ہوگی بلکہ ان کی آواز انھی کی صنف کے باعث باآسانی ایوانوں میں بھی گونجے گی۔