تحریر : محمد اعظم عظیم اعظم بتا ئیں اَب اِس پر قوم ہنسے یا روئے؟ کیا کرے ؟ فیصلہ آپ جو کریں گے وہی ٹھیک ہوگا کیوں کہ حکمرانوں، سیاستدانوں اور عوام کو سیکیورٹی فرا ہم کرنے والے اداروں کے دل تو پتھر کے ہو گئے ہیں محکمہ پولیس کے کیا کہنے ہیں ؟ اِسے تو اپنی گرتی ساگھ کو سہارا دینے اور بہتر بنانے کا طریقہ خوب آتا ہے یہ جب چا ہتی ہے کسی بھی معصوم اور بے گناہ نقیب محسود جیسے شہری کوپہلے گرفتارکرتی ہے پھر خود ہی جعلی مقا بلے میں مارکر مرنے والے کو دہشت گرد قرار دے کر حکومت سے ترقیاںاور انعامات بٹورلیتی ہے اَب پولیس کے پاس حکومت کو اپنی کارکردگی اِس طرح بہتر بتا نے کا طریقہ آگیاہے یوں معا شرے میں بے گناہ مارے جارہے ہیں اور ہما ری پولیس کا اصل مجرموں تک پہنچنا مشکل ہی نہیں بلکہ نا ممکن بھی ہوگیاہے یہی وجہ ہے کہ پولیس جرائم پیشہ افراد کو گرفتار کرکے قانون کی گرفت میں لا نے سے عاری ہوتی جارہی ہے تب ہی معاشرے میں بگاڑ اور زینب اور دوسری سات معصوم بچیوں کے اغوا ءاور زیاتی کے بعد بہیمانہ قتل کے واقعات میں اضافہ ہورہاہے مُلک میں تیزی سے بڑھتے ہوئے ایسے اوردیگر جرا ئم کے واقعات حکومت اور محکمہ پولیس کے چہرے پر طمانچہ ہیں مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ ابھی تک اِس طما نچے کی گونچ ایوانوں تک نہیں پہنچی ہے یہ بھی ایک المیہ اور لمحہ فکریہ ہے۔
تاہم پچھلے دِنوں چیئر مین سینیٹ رضا ربانی نے قصور اور مردان میں معصوم بچیوں کے ساتھ پیش آنے والے بہیمانہ واقعات اور ملزمان کی عدم گرفتاری اور بعداز گرفتاری سخت سزا سے متعلق قا نون سازی کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے پارلیمنٹ اور محکمہ پولیس سمیت عوام کو سیکیورٹی فراہم کرنے والے اداروں کو پابند کرنے کی سعی کی ہے اَب حکمران جماعت سمیت باقی جماعتیں اِس حوالے سے کیا پیش قدمی کرتی ہیں یہ تو آنے والا وقت ہی بتا ئے گا مگر یہاں یہ امر یقیناقابل تعریف ہے کہ زینب کے قتل نے ہمارے ایوانوں اور سیکیورٹی فرا ہم کرنے والے سوئے ہوئے اداروں کو ضرور جھنجھوڑ دیا ہے۔
بہر حال ، آخرکار مقدمات میں جکڑی ن لیگ کی حکومت نے زینب کے ڈرامے باز شیطان صفت چھلاوا قاتل کو ڈھونڈنکالا ہے،اِس طرح پنجاب پولیس اور صوبا ئی حکومت نے اپنے سر کا بھا ری بوجھ ہلکا ضرورکرلیا ہے،خبر ہے کہ قصور میں بیس روزپہلے اغواءاور زیاتی کے بعد قتل ہو نے والی سات سالہ معصوم زینب اور دیگر آٹھ بچیوں کا سیریل کلر گرفتارہوگیاہے اَب جس کے بعدحکومت اور اعلیٰ عدلیہ سے قوم کا پُرزور مطالبہ ہے کہ معصوم بچیوں کے سیریل کلر کو سرِ عام پھا نسی دی جا ئے اوراِسے زینب سمیت آٹھ معصوم مرحومہ بچیوں کے والد کے ہاتھوں پھانسی کی سزا دی جائے اور پھا نسی کے بعد سیریل کلر کی لاش کو تین روز تک لٹکی رہنے دی جا ئے تا کہ یہ جرا ئم پیشہ افراد کے لئے نشانِ عبرت بن جا ئے ۔مگرذراٹھیریں ، ابھی تو حکومت الوقت اور پاکستا نی قوم کا اصل امتحان شروع ہوا ہے جیسا کہ حکومتِ پنجاب کا دعویٰ ہے کہ زینب اور دیگر معصوم بچیوں کاسیریل قاتل گرفتار کرلیاگیاہے جس پر بیس کروڑپاکستا نیوں کی بس ایک یہی آواز ہے کہ زینب کے قاتل کو کھلے عام پھانسی دی جا ئے چلیں ،اِسے پھا نسی بھی دے دی جا ئے گی یوں زینب اور دیگر بچیوں کا قا تل انجام کو پہنچ بھی جا ئے گا اور پھر کہانی ختم ہوجا ئے گی ،اور کچھ عرصے بعد یہ سب قصہ پارینہ بن جا ئے گا۔
سوچیں آخرایسا کب تک ہوتا رہے گا؟ کچھ عرصہ بعد پھر کو ئی درندہ پیداہوجا ئے گا اور معصوموں کو اپنی درندگی کا نشا نہ بنا کر اِنسا نیت کا گلا گھونٹ دے گااورپھر زندہ ضمیر افراد چیخیں گے چلائیں گے اور پھر حکومت حرکت میں آئے گی اور قاتل پکڑا جا ئے گا مقدمہ چلے گا پھر اِسے بھی پھا نسی دے دی جا ئے گی اَب یقینا ایسے کام نہیں چلے گا ہمیں اپنے آئین اور قوا نین میں ترامیم کی سخت ضرورت ہے تا کہ ہمارے معاشرے میں پھر کوئی ایسا افسوس ناک واقعہ نہ دہرایا جائے۔
اگرچہ، آج زینب اور دوسری سات بچیوں کے قاتل کی گرفتاری سے پہلے اور بعد میںجن اقسام کے سوالات پیدا ہوگئے کیا اَب اِن سوالات سے حکومت ِپنجاب محکمہ پولیس جھٹکارپا ئے گا کہ نہیں ؟ یہ ایک الگ مسئلہ ہے مگر یہ حقیقت ہے کہ آج اندر باہر کے دباو ¿ کے باعث مصالحت پسندی کی شکار پنجا ب حکومت اور محکمہ پولیس نے چاہتے اور نہ چاہتے ہوئے بھی معصوم زینب کے قا تل کو کسی نہ کسی طرح گرفتار کرنے کا سینہ ٹھونک کر دعویٰ ضرور کردیاہے ،جس کے بعد عوام میں پنجاب پولیس اور حکومت کی اچھی بُری کارکردگی کے بارے میں جیسامہم عنصر پیداگیاتھا البتہ ، زینب کے قاتل کی ڈراما ئی گرفتاری کے بعد اِس گراف میں ضرور ٹھیراو ¿ آگیاہے۔بہر کیف ابھی قوم سانحہ قصور زینب قتل کیس میں غم و غصے سے نڈھال ہی تھی کہ پچھلے دِنوںوزیراعظم پنجاب محمد شہباز شریف نے قصور کی معصوم ننھی پری زینب کو زیادتی کے بعد بہیمانہ قتل کرنے والے ملزم کی گرفتاری کا ایک پُرہجوم پریس کانفرنس میں تالیوں کی گونج میں باضابطہ اعلان کرتے ہوئے کہاکہ ہمیں اپنی پولیس کی کارکردگی پر بھروسہ تھا اور یقین تھاکہ ایک نہ ایک دن یہ ضرور زینب اور دوسری ساتھ معصوم بچیوں کے اصل قا تل کو پکڑنے میں کا میا ب ہو جا ئے گی یہ بڑی خوشی اور مسرت کا مو قعہ ہے کہ قا نون نافذ کر نے والے اداروں کی مشترکہ کارروا ئی میں قصور کی معصوم بچی زینب کے قاتل کو گرفتارکرلیاگیا جس نے چالاکی اور بڑی ہوشیاری سے زینب سمیت آٹھ بچیوں کا مختلف مقامات پر زیاتی کے بعدبہیمانہ قتل کرنے کا اعتراف بھی کرلیاہے بچی کاقاتل اِس کا محلے دارعمران نا می شخص ہے جس نے زینب کو زیاتی کے بعد قتل کیا ہے ملز م کا ڈی این اے سو فیصد میچ کرگیاہے قاتل سیریل کلر ہے“۔
بلاشبہ لگ بھگ ایک ماہ سے قبل دن رات محنت کے بعد آخر کارزینب کی لاش کو کچرا کنڈی سے ملنے پر لواحقین سے دس ہزار انعام طلب کرنے والی پنجاب پولیس نے زینب کے قاتل کو گرفتارکرنے کا واہ شگاف دعویٰ کردیاہے اور یہ دعویٰ وزیراعلیٰ شہباز شریف نے پچھلے منگل کے روز ما ڈل ٹاو ¿ن میں منعقدہ ایک پریس کانفرنس میں کیاجبکہ کانفرنس میں معصوم مقتولہ بچی زینب کے والد حاجی امین انصاری بھی موجودتھے غالب گمان ہے کہ جن کے پریس کانفرنس سے خطا ب کے دوران شہباز شریف نے دیدہ دانستہ ما ئیک بند ضرور کردیاتھا مگر غمزدہ بچی کے باپ کی آواز اتنی تیز تھی کہ بغیر ما ئیک کے یہ اپنی باتیں کرگیا یہ بھی ٹھیک اور ممکن ہے کہ پنجا ب کے وزیرقانون راناثنا ءاللہ نے مرحومہ کے والد کو ڈکٹیشن دی ہوکہ وہ اِن (شہباز شریف اور رانا ثناءاللہ) کی مرضی کے بغیر کچھ ایسا نہیں کہیں گے جو بدمزگی کا باعث بنے ور پریس کانفرنس کا ما حول کچھ سے کچھ ہوجا ئے مگر مجبور باپ کیا کرتا جیسا اُسے ڈکٹیڈکا گیا اُس نے وہی کیا یہ بات آن ایئر سب نے دیکھی اورسُنی ہے کہ شہباز شریف نے قاتل کی گرفتاری کا اعلان کرتے ہوئے تالیاں بجوا ئیں ، کیاابھی اس میں کچھ شک یا ابہام ہے ؟قوم کوشہباز شریف سے زینب کے والد کا ما ئیک بند کرنے اور کیوں تالیاں بجوا نے؟ اور راناثنا ءاللہ سے پریس کانفرنس سے قبل اور بعداز پریس کانفرنس زینب کے والد سے کی جا نے والی باتوں کا بھی تسلی بخش جواب درکار ہے ۔(ختم شُد)
Azam Azim Azam
تحریر : محمد اعظم عظیم اعظم azamazimazam@gmail.com