تحریر : پروفیسر رفعت مظہر پیپلز پارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ دو ایسی سیاسی جماعتیں ہیں جن میںبہت کچھ مشترک۔ کرپشن دونوںکو محبوب ومرغوب،ٹارگٹ کلنگ ،بھتہ خوری اورزمینوں پرقبضے کے الزامات دونوںپر ،بڑھک بازی میںدونوں لاثانی۔ متحدہ کے قائدالطاف حسین تو”بڑھکیں”لگاتے ہی رہتے ہیںاور بقول خواجہ آصف ”یہ لوگ عشاء کے وقت بات کرکے سحرکے وقت معافی مانگ لیتے ہیں” لیکن جنابِ آصف زررداری نے پہلی بارکھل کراسٹیبلشمنٹ سے ”مَتھا” لگایااورپھر چاروناچار معذرت کیے بغیراپنے خاندان سمیت دبئی ”پھُر” ہوگئے ۔ بلاول زرداری البتہ ایک دفعہ پھراپنے باپ سے بغاوت کرتے ہوئے پیپلزپارٹی کی قیادت سنبھالنے پاکستان لَوٹ آئے ۔کہاجا سکتاہے کہ جس طرح ایک نیام میںدو تلواریںنہیں سماسکتیں اُسی طرح اب پیپلزپارٹی میںبھی”دو زرداری” نہیںسما سکتے۔
شنیدہے کہ زرداری صاحب امریکہ پہنچ بھی چکے ،امریکہ سے واپسی کب ہوتی ہے یہ اللہ جانے یازرداری صاحب۔اویس مظفرٹَپی اپنے بھائی کی لاش لینے لندن پہنچے اورپھر وہیںکے ہورہے۔ زرداری صاحب کی بہن فریال تالپوربھی اپنے ”فرنٹ مین” محمدعلی شیخ کی گرفتاری اورانکشافات کے بعدبیرونِ ملک کھسک گئیںاور زرداری صاحب کے اِدھراُدھر بسنے والے احباب اورآفیسرزبھی یوںغائب ہوئے جیسے گدھے کے سَرسے سینگ۔باقی بچی”بیچاری” ایان علی یاپھر اُس کے”باڈی گارڈ” فاروق ایچ نائیک اورلطیف کھوسہ۔ وزیرِداخلہ چودھری نثاراحمد نے پہلے تواپنی پریس کانفرس میںایان علی کو ”بیچاری” کہہ دیالیکن پھرالیکٹرانک میڈیا کے خوف سے فوراََ ہی وضاحت بھی کردی کہ ایان علی تومحض ایک ”ذریعہ” ہے اِس لیے اُسے بیچاری کہا۔ وہ تواُس”خفیہ ہاتھ” کی تلاش میںہیں جس نے اِس بیچاری ، معصوم، بھولی بھالی ماڈل کوگرفتارِبَلا کردیا۔
چودھری صاحب بتائیںکہ ایان علی کوجیل میںدی جانے والی وی ، وی ،وی ،آئی پی سہولیات کیا حکومت کی طرف سے ہیںیااُسی ”خفیہ ہاتھ” کی طرف سے جس نے بقول چودھری صاحب ایان علی کو”گرفتارِبَلا”کیا؟۔ حضرت عمر نے تو فرمایاتھا ”اگرکسی کی وجاہت کے خوف سے قانون کاپلڑا اُس کی طرف جھُک جائے توپھر اللہ کی بادشاہت اورقیصر وکِسریٰ کی حکومت میںکیا فرق ہے؟”لیکن یہ کیسی اسلامی حکومت ہے جس میںایان علی کوتمام سہولیات ،حتیٰ کہ میک اَپ کی سہولت بھی بہم پہنچائی جارہی ہے ؟۔وہ گردن پر ”ٹیٹو” بنائے پورے طمطراق سے عدالت میںیوں آتی ہے جیسے امریکی ”خاتونِ اوّل”۔ جیلرصاحب سے پوچھاجا سکتاہے کہ ایان علی کومیک اَپ کروانے کے لیے ”بیوٹی پارلر” بھیجاجاتا ہے یا پھرجیل میںہی بیوٹی پارلرکھول دیاگیا ہے۔
Zardari
آمدم بَرسرِمطلب ،زرداری صاحب نے ہمارے سپہ سالارکا نام لیے بغیریہ ”بڑھک” لگائی کہ ”آپ نے تین سال بعدچلے جاناہے ،پھرہم نے ہی رہنا ہے”۔ جواباََہم نے اُسی دِن(18 جون کو) اپنے کالم میںلکھا کہ ” جنرل صاحب نے توتین سال بعدبھی اِدھرہی رہناہے البتہ زرداری صاحب کا ”کَکھ” پتہ نہیںکہ وہ دبئی میںمستقل سکونت اختیارکرتے ہیںیا لندن میں”لیکن یہ ہمیںبھی پتہ نہیںتھا کہ وہ اتنی جلدی ”کھسک” لیںگے۔۔۔۔پیپلزپارٹی اورایم کیوایم میںبہت کچھ مشترک ہونے کے باوجودایک واضح فرق کہ پیپلزپارٹی اپنی تمام تر خامیوںکے باوجود محبِ وطن لیکن متحدہ کی حب الوطنی پرعشروںسے سوالیہ نشان۔ اب BBC کے صحافی اون بینٹ جونزنے اپنی ڈاکومینٹری میںجو ”کھڑاک”کیا اُس سے توپورا پاکستان ہِل کے رہ گیا۔
اُس نے یہ ہولناک انکشاف کیاکہ گزشتہ 10 سالوںسے بھارتی خفیہ ادارے ”را” کی طرف سے متحدہ کے کارکنوںکو تربیت دی جارہی ہے اور”را” اِن تربیت یافتہ کارکنوںکو نہ صرف اسلحہ بلکہ مالی امدادبھی دیتی ہے۔ سوشل میڈیاپر ایم کیوایم کے رہنماء اوررابطہ کمیٹی کے سابق رُکن طارق میرکا برطانوی پولیس کو30 مئی 2o12ء کودیا گیابیان بھی آگیا جس میںطارق میرنے اعتراف کیاکہ ایم کیوایم کے 1994ء سے بھارت سے رابطے تھے ،ایم کیوایم کے کارکنوںکو تربیت کے لیے بھارت بھجوایاجاتا تھااور ایم کیوایم کوبھارت سے سالانہ 8 لاکھ پاؤنڈرقم ملتی تھی جوالطاف حسین کودے دی جاتی ۔گزشتہ دنوں ایس ایس پی کراچی راؤ انوارنے بھی اپنی پریس کانفرنس میںایسے ہی الزامات لگائے جس کی بناپر اُن کاتبادلہ کردیا گیا۔
وزیرِدفاع خواجہ آصف صاحب نے بھی ”شرم کرو، حیاکرو” کی گونج میں کہاکہ متحدہ کی لوڈشیڈنگ ہونے والی ہے اوریہ شام کو ”استغفار”کرتے نظرآئیں گے ۔اُسی دِن برطانوی صحافی اون بینٹ جونزکی ڈاکومینٹری سامنے آگئی جس کی بناپر یہ شورمچاکہ خواجہ صاحب کوپہلے سے ہی علم تھا ۔ہم اپنے سیالکوٹی خواجہ صاحب کو”ہَتھ ہَولا” رکھنے کی استدعاکرتے ہوئے یہ ضرورکہنا چاہیںگے کہ حکومت کی جانب سے ایساکوئی بیان سامنے نہیںآنا چاہیے جس سے یہ تاثرپیدا ہوکہ یہ سب کچھ حکومتی ایماء پرہو رہاہے۔
MQM
ایم کیوایم ایک سیاسی حقیقت ہے لیکن اُسے اپناوجود برقراررکھنے کے لیے اپنی صفوںسے شَرپسند عناصرکو نکالنا ہوگا البتہ ہم سمجھتے ہیںکہ ”الطاف بھائی”کی قیادت میںایسا ہوتانظر نہیںآتا۔ چاہیے تویہ تھا کہ الطاف حسین اپنے خطاب میںکہتے کہ ایم کیوایم برطانوی عدالت میںBBC کے خلاف ہتک عزت کادعویٰ کررہی ہے مگروہ تواُلٹا دھمکیوںپر اُترآئے۔اُنہوںنے کہا”وزیرِاعظم ایم کیوایم کے ساتھ ”مَتھا” نہ لگائیں۔حکومت اوراسٹیبلشمنٹ بتائے کہ ہمیںجینے دیناہے کہ ہمارے ساتھ لڑناہے۔ہم اوپرسے لوڈشیڈنگ کرسکتے ہیں،نیچے سے بھی۔ وزیرِدفاع کی حرکتوںسے پاکستان کا دفاع تونہیں ہوسکتا ،پاکستان دفع ضرورہو سکتاہے”۔ عرض ہے کہ جس نے پاکستان سے ”دفع” ہوناتھا وہ تو1992ء میں ہی رات کے اندھیرے میں ”دفع” ہوچکا۔ اب اورکِس کِس نے ”دفع” ہوناہے، اِس کافیصلہ محبِ وطن پاکستانی کریںگے۔ بھارت تو تشکیلِ پاکستان کے ساتھ ہی پاکستان کے ”ضمیرفروشوں” کی خریداری میں مَگن ہے۔
قائدِاعظم نے توقیامِ پاکستان کے 70 دِن بعد، 24 اکتوبر 1947ء کوہی ایک منظم منصوبے کاذکر کردیا تھاجس کامقصد پاکستان کومفلوج کرکے اتنامجبور کردینا تھاکہ وہ خودانڈیا میں شمولیت کی استدعاکرے۔ اُس وقت کاوزیرِاعظم جواہرلال نہروتو جہنم واصل ہوا لیکن اُس کی بیٹی اندراگاندھی پاکستان کے دو ٹکڑے کرنے میں محض اِس لیے کامیاب ہوگئی کہ تاریخی حقائق کے مطابق شیخ مجیب الرحمٰن تو1962ء سے ہی ”را” کے ہاتھوں میں کھیل رہاتھا اوراُس نے اُسی سال پاکستان سے علیحدگی کے لیے ایک خفیہ تنظیم کی بنیادبھی ڈال دی تھی۔الطاف حسین شایدیہ بھول گئے کہ 1971ء اورآج کے حالات میںبہت فرق ہے۔ اُس وقت مشرقی اورمغربی پاکستان کے درمیان ہزارمیل لمبی سرحدپر مکاردشمن براجمان تھا لیکن اب ضمیرفروش توموجود لیکن سرحدکوئی نہیں۔
اگر ثابت ہوگیاکہ برطانوی صحافی نے جو کچھ کہا وہ سچ تھاتو پھرکراچی کے محبِ وطن شہری ہی ایم کیوایم کونیست ونابود کرنے کے لیے کافی ہیں۔ الطاف حسین کہتے ہیں ”ایم کیوایم کوختم کرناپاکستان کاخاتمہ ہے”۔ پتہ نہیںالطاف حسین کویہ زعم کیسے ہوگیاکہ متحدہ اورپاکستان لازم وملزوم ہیں۔ اگروہ یہ سمجھتے ہیںکہ جیسے مشرقی پاکستان میںبھارتی فوج مکتی باہنی کے روپ میںلڑی ویسی ہی کوئی سازش کراچی میںبھی پنپ سکتی ہے تووہ احمقوںکی جنت میںبستے ہیںکیونکہ بھارتی کبھی گھاٹے کاسودانہیںکرتے اوروہ خوب جانتے ہیںکہ بھارت کاایک ایک شہرہمارے ایٹمی میزائلوںکے نشانے پرہے۔ وہ توضمیرفروشوںکو خریدکر صرف افراتفری پھیلانا چاہتے ہیں تاکہ دفاعی لحاظ سے مضبوط پاکستان اقتصادی لحاظ سے بھی مضبوط نہ ہوجائے۔