تحریر: ع.م بدر سرحدی 28 اکتوبر کو اسلام آباد میں بین الاقوامی سرمایہ کاری کانفرنس کے مندوبین کو پاکستانی معیشت پر بریفینگ دیتے ہوئے وزیر خزانہ جناب اسحاق ڈار نے بڑے پتے کی باتیں کیں، کہا کہ کے حکومت نے محض سوا سال میں تمام اقصادی اہداف حاصل کر لئے، پاکستان کو ٢٠٥٠سے پہلے دنیا کی ١٨ ویں بڑی معیشت بنائیں گے (کون جیتا ہے…..)مزید کہتے ہیں پاکستان میں ساٹھ فیصد لوگ (میرے نزدیک یہ کیڑے مکوڑے….) خطہِ افلاس سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔
حکومت.آئندہ چند سال کے دوران ٩ ،لاکھ نوکریاں پیدا کرے گی ، انہوں نے کہا غیر ملکی سرمایہ کاری کو تحفظ فراہم کیا جائے گا …..! اسحاق ڈار نے کہا ،تحریک انصاف کا دھرنا اب ڈرامہ اور میوزک کنسرٹ رہ گیا جو میڈیا کے تعاون سے چل رہا ہے ….. !کہا جاتا ہے اتنا جھوٹ بولوکے مجھ جیسے لوگ اُسے ہی سچ تسلیم کرنے پر مجبور ہو جائیں ،مگر کبھی کسی نے تصویر کو الٹ کر نہیں دیکھا کہ دوسری طرف کیا ہے . ”گا””گے” ”گی” کی گردان جاری رکھو … ..میری طرح کے لاکھو ں کروڑوں پاکستانی ہیں جو خود کو عوام سمجھتے اور عوام میں شمار کر کے خود فریبی کا شکار ہیں، جبکہ یہ ہر گز عوام نہیں یہ تو دو پائے کیڑے مکوڑے ہیں مجھے اخبار میں وزیر خزانہ کی یہ بریفنگ پڑھ کر ہنسی بھی آئی اور رونا بھی ،اب ہنسی کیوں ،کہ مجھے انتہائی خوبصورت سبز باغ دکھایا جا رہا ہے جس کے لئے برسوں مجھے ریگنا پڑے گا۔
اسکی بھی کوئی ضمانت نہیں….اب٣٥،برس کے بعد موجودہ نسل سے کوئی بچا ہوگا اور شائد ہی ڈار صاحب ہوں گے جو اُس باغ کا میوہ کھا سکیں گے ،اب میں نے گھر میں ایک شیشم کا درخت لگایا ہے بیس تیس برس بعد کوئی اِس کی لکڑی ا ستعمال کریگا یہ ایک ضمانت ہے دواور پھل دار ہیں جو دو برس بعد پھل دیں گے،ب تین اور لگائے چونکہ وہ پہاڑی درخت تھے زیادہ پانی برداشت نہیں کرسکے…. لیکن جو باغ وہ دکھا رہے ہیں اسکی کوئی ضمانت نہیں ضمانت سے مراد کچھ نظر نہیں آ رہا یہ ایسا باغ ہے جو ٤٥ برس قبل غریب کے لئے روٹی کپڑا اور مکان کی صورت میں دکھایا تھا، مگر کوئی ضمانت نہیں تھی ، آج بھی یہ کیڑے مکوڑے آس لگائے…..!وہ فرماتے ہیں محض ١٥ ماہ میں تمام اقتصادی اہداف حاصل کر لئے ہیں ہو سکتا ہے۔
Inflation
کاغذات میں حاصل کر لئے ہوں ….مگر زمینی حقائق نفی کر رہے ہیں کہ…،پاکستانی روپئے کا یہ حال ہے محض سبزی لیں پانچ سو کا نوٹ ہاتھوں سے پھسل جاتا ہے ،لیکن یہ بھی خبر ہے کہ پاکستانی قوم ١٥٩،کھرب روپئے کی مقروض ہے اِس میں ٥٠ کھرب غیر ملکی اور ١٠٠ کھرب ٩٠ ،ارب روپئے کے ملکی قرضے ہیں ،دنیا کی واحد کرنسی ہے جس کے بنیادی سکے غائب ہو چکے ہیں حتیٰ کہ روپیہ دو اور پانچ روپیہ تک بے وقعت ہو چکے ہیں،وزیر آعظم بھی کابینہ کو خطاب کر رہے تھے کہ حکومتی پالیسیوں کی وجہ (یعنی بہتر پالیسیاں )سے ڈالر ١٣ ،روپئے کم ہوأ ،،اگر رخنہ نہ ڈالا جاتا تو معیشت میں مزید بہتری آتی قیمتیں کم ہوتیں، بے روزگاری اور غربت کا خاتمہ ہوتا ،کراچی لاہور موٹر وے سے ملک کا فائدہ ہے ….یہاں مجھے پھر …خیر ملک یا کیڑے مکوڑوں کو کیا فائدہ ہوگا …البتہ مافیہ اور ٹرانسپورٹر کو ضرور فائدہ ہو رہا ہے اور مزید ہوگا، مہنگائی اور بڑھے گی ……حالات کو اُسی طرف لے جایا جا رہا کہ ریلوے کو تالا لگا دیا جائے تو واقعی مافیہ کو فائیدہ ہوگا۔
اِس موٹر وے کا مقصد ریلوے کو تالا لگاناہے کہ اِس کے کھربوں کے اثاثو ں پر للچائی نظریں،مال برداری کے ہزاروں ڈبے جو سکریپ میں جائیں گے اور ….! ٩٧ ء میں گورنمنٹ روڈ ٹرانسپورٹ جیسے عوامی خدمت کے فعال ادارے کو ٥٢ برس تک عوام کو سستی اور سفر کی بہترسہولت دینے والے ادارے کو تالا لگا دیا اور اُس کے اربوں کے اثاثے کھا گئے …عوام کو پرائیویٹ ترانسپوٹر کے حوالے کر دیا اور صرف لاہور شہر میں ١٥ کمپنیاں ہیں جو بسیں چلا رہی ہیں اور حکومت انہیں اربوں کی سبسیڈی دے رہی ہے اور عوام پر کیا گزرتی ہے جو غریب سفر کرتے ہیں وہی جانتے ہیں مگر اُنکی آواز نہی… … اور اب ریلوے کے کھربوں کے اثاثے ہیں ،اور ٹرانسپوٹر ز کو نوازنہ ہے ….،سوری بات دوسری طرف نکل گئی یہ سرکاری ٹرانسپورٹ،اور ریلوے کا قومی ادارہ خود سلگتے موضوع ہیں ….!! وزیر آعظم نے کہا کہ معیشت میں بہتری آتی اور قیمتیں کم ہوتیںبے روزگاری اور غربت کا خاتمہ ہوتا … ، پٹرول کی قیمتیں کم کر کے ڈھول بجائے جا رہے ہیں ایک بار پھر وزیر آعظم نے ڈھول پیٹتے ہوئے کہا کہ اب اگلے ماہ تیل کی قیمتوں مزید کمی کریں گے۔
سچ یہ ہے کہ یہ وہ کمی ہر گز نہیں جتنی عالمی مارکیٹ میں تیل کی کمی ہوگی اور کہ عوام کو ریلیف ملے گی،کس عوام کو یہ ابھی طے کرنا ہے کہ کس عوام کو کیا وہ عوام جو غربت کی انتہائی لکیر سے نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبورہیں ،پورے یقین ا ور دعوے سے کہ میں نصابی علم کے حوالہ سے نہیں کہ یہ اُن لوگوں کے پاس بہت ہے مگر میرے پاس تجربہ کا علم ہے جو اُن کے پاس نہیں ،نصابی علم اور تجربہ کے علم میں اور ساتھ ہی مشاہدہ کا علم ہو بہت فرق ، کہہ سکتا ہوں کہ پاکستان میں اب کبھی قیمتیں کم نہیں ہونگی ،کیوں؟وزیر خزانہ نے نشان دہی کی ہے کہ ملک میں ٦٠ فیصد عوام خطِ غربت سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں اور جب تک یہ ساٹھ فیصد غربت کی لکیر سے اوپر نہیں آتے ،جو وڈیرا شاہی ،نوابی اور جاگیرداری کی وجہ سے نیچے ہی نیچے جا رہے۔
اُن کا اوپر آنا اور غربت کا خاتمہ ممکن نہیں….میں نے نا ممکن کا لفظ استعمال کیا جبکہ کچھ بھی نا ممکن نہیں۔،محض ٢٠٠٤،٠٥ میں ٤٠فیصد تھی جمہوری ادوار میں… اور اب ٦٠ فیصد اگلے دو تین برس میں یہ تعداد اوپر جائے گی، وزیر آعظم کو کیا خبر کہ مہنگائی کیا ہوتی ہے، وہ ارب پتی صنعتکار تاجر ہیں انہیں اپنی فیلڈ میں خاصہ تجربہ ہوگا مگر مہنگائی کا نہ تو مشاہدے کا علم اور نہ ہی تجربہ کا علم،اِس مہنگائی کا علم تو اُس غریب کو ہے جو ٤٥ روپئے کلو میں آٹا خریدنے پر مجبور ہے، محل میں رہنے والے کو کیا علم کے یخ رات میں جب جھو نپڑی ٹپکتی ہے، اس کا علم تو غریب کو جو خطِ افلاس سے بہت نیچے چلا گیا اس ٹپکے سے بچنے کے لئے سکڑ کر رات بسر کرتا ہے ،اِس ساٹھ فیصد کو پاکستان نے کیا دیا اور ان کے علاوہ جن کا کوئی شمار نہیں کے انکے پاس چھت نہیں انہیں کیا ملا اس پر پھر۔