تحریر : ملک نعمت ڈھانڈلہ میرے خادم نے میری قوم کے لیے کیا کچھ نہ کیا میرے خادم کے میری قوم پر بہت احسان ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ میری احسان فراموش قوم جلد ہی کسی کے احسان بھول جاتی ہے۔میرے خادم کے خاندان نے قوم کی خدمت کرنے کا آغاز جمہوریت پر شب خون مارنے والے فوجی آمر جنرل ضیاء الحق کی آمرانہ حکومت میں حصہ دار بن کر کیا جس میں میرے خادم کے بھائی کو خزانے کی خدمت پر مامور کیا گیا۔اور پھر اسی بھائی کو پنجاب کی خدمت تک محدود کر دیا گیا۔
فوجی آمر کے حادثے کے بعد میرے خادم کے خاندان کو پہلی بار قوم کی خدمت سے محروم کر دیا گیا۔محض دو اڑھائی سال کی محرومی کے بعد میرے خادم دوبارہ قوم کی خدمت کیلئے حاضر ہو ئے اور اس بار کے بھائی خدمت کے اعلیٰ منصب پر پہنچے اور قوم کے خادم اعظم بن بیٹھے اس بار خادم کی خڈمت پر شک کیا جانے لگا اور ایک بار پھر میرے خادموں کو قوم کی خدمت سے محروم کر دیا گیا۔دو اڑھائی سال خاک چھاننے کے بعدمیرے خادم تیسری بار خدمت کے لیے حاضر ہوئے اس بار میرے خادم خادم اعلیٰ و خادم اعظم بن بیٹھے۔یہ بھی بتاتاچلوںکہ میرے خادموں سے پہلے خادم صرف خادم ہی ہوتے تھے۔
خادم کے اعلیٰ و ادنیٰ کی تمیز سکھانے کا سہرا بھی صرف میرے خادم کے سر ہی ہے۔ خدمت کے اعلیٰ و اعظم منصب پر فیض ہونے کے بعد دو اڑھائی سال تک قوم کی خوب خدمت کی اسی دوران میرے خادموں کے خلاف چند کیس سپریم کورٹ میں زیر سماعت آئے جب چیف جسٹس آف پاکستان سجاد علی شاہ تھے۔خادم اینڈ برادر کو احساس ہو گیا کہ ہم اپنے کرتوتوں کی وجہ سے ایک بار پھر خدمت سے محروم کر دیے جائیں گے۔چنانچہ میرے خادم نے چیف جسٹس کو سبق سکھانے کی ٹھان لی۔چیف جسٹس آف پاکستان پر حملہ کرا کے اس کو بھگا دیا اور عدل و انصاف کی عمارت کے درو دیوار پر دھوبیوں کی طرح کپڑے دُھلا کر خشک کرنے کا عالمی ریکارڈ قائم کر کے تاریخ رقم کر دی۔اور یہ عالمی ریکارڈ ابھی تک میرے خادموں کے پاس ہی ہے ۔تاریخی کارنامہ سر انجام دینے کے بعد میرے خادم پھر قومی خدمت میں مگن ہو گئے ۔ اسی دوران سانحہِ کارگل رونما ہوا جس کی وجہ میرے خادموں کی آرمی چیف سے چپقلش شروع ہو گئی۔ اس بار میرے خادم کوہر وہ سہولت میسر تھی جس سے وہ قوم کے سپہ سلار کو سبق سکھا سکے اور خوشامدیوں کا لشکر تو اس سے بھی پہلے تیار تھا۔میرے خادم نے ملٹری سپہ سالار کوہوا میں ختم کر کے ایک نیا سپہ سالار بنانا چاہتا تھا جو میرے خادم کی انگلیوں پر ناچے اور میرے خادم کے ہر حکم پر سر خم رہے۔
بلآخر منصوبے پر عمل درآمد کا وقت آ گیا اور میرے خادم نے طاقت کے خمار میں یہ بچگانہ حرکت کر ڈالی جس کے سزا کے طور پر قوم کو آٹھ سال آمریت کے سائے میں گزارناپڑے۔بچگانہ حرکت کے محض چند گھنٹوں بعد خادموں کو ہماری خدمت کی نہیں اپنے جی بت کی لگ گئی تھی اور وہ آٹھ سال کیلئے خدمت سے انکاری فارم پر دستخط کر کے سعودی عربیہ چل پڑے۔ویسے بھی ضیاء دور کی آمریت میں حصہ ڈال کر خدمت کرنے والوں کو اب ریسٹ کی ضرورت تھی ۔یہ تو پاکستانی قوم کی کم ظرفی ہے کہ ایک مزدور خادم کو بقیہ دن رات کے حساب سے خدمت میں لگائے رکھا۔مسلسل آٹھ سال ریسٹ کرنے اور موجیں مارنے کے بعد میرے خادم کو قوم کی یاد پھر ستانے لگی اور میرے خادم سعودی عرب سے بوریا بستر سمیٹ کر قوم کی خدمت کو آ نکلے۔آتے ہی میرے خادم نے دھوم مچا دی۔
آٹھ سال پہلے دم دم چھپا کر بھاگ جانے والے شیر کو اٹھا کر میرا خادم گلی حلوں میں شیر آیا شیر آیا کا ورد کرتا رہا۔سیاسی پارٹی چئیر پرسن کے قتل اور افتخار چوہدری کی سازش کی وجہ سے کاغذی شیر کو بھگانے والے فوجہ جنرل کی حکومت پر گرفت کمزور ہوتی چلی گئی۔بلآخر جنرل کو استعفیٰ دینا پڑا اور میرے خادم کے حصے میں پانچ سال کیلئے پنجاب کی خدمت آئی اور میرے خادم خادم اعلیٰ بن بیٹھے۔ان پانچ سالوںکے دوران میرے خادم نے قوم کی خوب خدمت کی۔ کیہ بار منرل واٹر پینے والے میرے خاد م کو بلٹ پروف گاڑیوں سے نکل کرربڑی بوٹ پہنے ہوئے فلڈ کے پانی میں فوٹو سیشن کیلئے کودنا پڑا تاکہ نہ منوتر( نہ ماننے والی) قوم کو اپنی خدمت کا احساس دلا سکے۔ایک آدھ بار میرے خادم کو بجلی کی لوڈ شیڈنگ کے احتجاج کے دوران بلکتی قوم کے ساتھ اے سی روم چھوڑ کر ہاتھ والے پنکھے استعمال کرنے کی اذیت سے بھی گذرنا پڑا۔یہ فوٹو شوٹنگ بھی عوام کو اپنے خادم ہونے کا احساس دلانے کیلئے کی گئی۔ متعدد بار میرے خادم کو جنرل مشرف اور پرویز الٰہی کے پروجیکٹ مکمل ہونے کی صورت میں تختیوں پر تختیاںلگا کر اپنی خدمت کا حساس دلانا پڑا۔جس کا صلہ قوم نے خادم کے بھائی کو خادم اعظم اور ان کو خادم اعلیٰ بنا کر دیا۔اب کی بار میرا خدم خدمت سے اور بھی سرشار ہو گا۔ اس بار میرے خادم پر کسی کو آزاد کرا کے ہیرو بننے کا بھوت سوار ہوا۔وطن عزیز کی ہر چیز باشمول دہشتگرد آزاد ہونے کے ناطے ایسی کویہ چیز نہ ملی جسے وہ آزاد کر اکے ہیرو بن پاتے۔چنانچہ میرے خادم نے انسانوں کو زندگی کی قید سے آزاد کرا کے ہیرو بننے کا منصوبہ بنایاجس کی تکمیل کے لیے میرے خادم نے جون 2014ء کو ماڈل ٹاؤن لاہور میں پولیس یونیفارم میں ملبوس کالعدم تنظیم کے دہشتگرد وں کے ہاتھوں رات کی تاریکی میں قوم کی چند بیٹیوں سمیت 17آدمیوں کو زندگی کی قید سے آزاد کرا کے ہیرو بننے کا خواب پورا کرتے ہوئے خدمت کا یہ تمغہ بھی اپنے نام کر لیا۔
اس منظر کی کوریج دینے والی میڈیااور انسانی جانوں کو سہارا دینے والی تنظیموں کے کارکنوں کی آمد پر ان کی ڈنڈوں اور طماچوں سے خاطر توضع کی جاتی رہی۔یہ خدمات سر انجام دینے کے بعدمیرے خادم کے اندر جذبہ خدمت اور بھی بڑھا جس کا عملی ثبوت احتجاجیوں پر گولیاں چلوا کر اور شیلنگ کرا کے دیا جس میں میرے خادم کے آدمی10مزید آدمیوں کی زندگی کی قید سے آزاد کرانے میں کامیاب ہوئے۔پھر کچھ عرصہ بعد میرے خادم کیجمع پونجی کے بارے میں خبریں لیک ہونے لگیںجو انہیں پاؤں دبانے (بلکہ گلہ دبانے) اور تیل مالش کی عوض چند ٹکوں کی صورت میں ملی تھی جسے پانامہ لیکس کا نام دیا گیا۔ اس کے بعد کم ظرف قوم نے ہنگامہ کھڑا کر تے ہوئے وہ جمع پونجی واپس کرنے کا مطالبہ کر دیا۔جس پر خدم کے چیلوں نے کئی بار تحقیقاتی کمیٹی کے بچوں کو زندگی کی قید سے آزاد کرانے کی شنید سنائی اور خود ان کی خاطر تواضع کے بارے میں بھی فرماتے رہے۔میرے خادم نے محنت و مشقت سے کمائی ہوئی رقم واپس کرنے کے بجائے تحقیقاتی کمیٹی کے سامنے پیش ہو کر تاریخ رقم کر نے کو ترجیح دی۔ کہ کس طرح محنت و مزدوری کر کے یہ رقم کمائی گئی ہے۔قوم کے حساب اور عدم اعتماد کے باوجود میرا خادم قوم کی خدمت میں مگن رہا۔ان حالات میں خادم کو قوم میں دہشت پھیلانے اور جانی و مالی نقصان کرنے والے دہشتگردوں کو پکڑنے کا خیال آیا لہذہ میرے خادم کا لاؤ لشکر میرے خادم کے حکم پر عوام کا جانی و مالی نقصان کرنے والوں سانحہ پشاور APCاور بہت مقامات پر دھماکے کرنے والوں کی بجائے میرے پانامہ زدہ خادم کو اسمبلی حال میں خوفزدہ کرنے اور پانی کی بوند کو ترسنے والوں کے لیے پانی چھوڑنے والے سنگین ترین دہشتگرد کو پکڑنے میں کامیاب ہو گیا۔با قول خادم اعلیٰ کے لاؤ لشکروہ اس سنگین ترین دہشت گرد رکن قومی اسمبلی جمشید دستی ہے جس سے بلکتی عوام کو پانی دیتے ہوئے یہ جرم سر زد ہوا۔