باسٹھ تریسٹھ کیا ہے اور کیوں ہے

Law

Law

تحریر : حاجی زاہد حسین خان
خلیفہ الثانی عمر فاروق مسجد نبوی میں تشریف فرما تھے۔ دور سے ایک مسافر ہاتھ میں سوٹا کندھے پہ لوٹا پائوں میں پھٹے ہوئے چپل ریت سے اٹے ہوئے بال آتا ہو نظر آیا نزدیک آنے پر پتہ چلا یہ تو حمص شام کے گورنر عمر وبن العاص ہیں۔ دعا و سلام کے بعد امیر المومنین نے پوچھا ابے عمرو یہ کیا حالت بنا رکھی سامان زاد راہ اور سواری کہاں ہے۔ یا امیر المومنین حمص کے زکواة و عشر کی ساری سال بھر کی آمدنی اور کافروں سے لیا گیا جزیہ وہاں کے غریب عوام پر خرچہ کیا بچا ہوا کچھ محصول وہاں کے علاقے کی تعمیر و ترقی میں لگا دیا میرے لئے سوائے اس ایک لکڑی کے سوٹے اور پانی کے لوٹے اور چند کجھوروں کے کچھ نہیں بچا سواری کہاں سے لاتا ہفتہ بھر سے پیدل چل کر آرہا ہوں۔ امیر سلطنت عمر فاروق عمرو کی باتیں سنتے جاتے اور روتے جاتے بول اٹھے اے عمرو تم نے کسر نفسی میں مجھے بھی پیچھے چھوڑ دیا ۔ عمرو گھر پہنچے ہی تھے کہ امیرا لمومنین نے غلہ کے دس اونٹ اور کچھ اشرفیاں انکے لئے روانہ کیں۔ جو انہوں نے کھڑے کھڑے محلے کے غریبوں میں تقسیم کر دیں۔

اللہ اکبر یہ تھے اس عظیم سلطنت اسلامیہ کے حکمران کے گورنر اور وزیرا عظم ۔ عمر فاروق کا یہ معمول تھا کہ سلطنت کے تمام گورنر کو سال پورا ہونے پر مدینة الرسول بلاتے اور انکی کارکردگی حال احوال آمدن اور اخراجات معلوم کرتے اور احکام جاری کرتے ایک مرتبہ سلطنت کے تمام گورنرز لائن میں کھڑے ہیں امت کا عظیم جرنیل سپہ سالار امیرا لمومنین عمر فاروق باری باری ان کا معائنہ کر رہے ہیں کارکردگی پوچھ رہے ہیں۔ ان کی نظر مصر کے گورنر سعد بن ابی وقاص فاتح ایران پر پڑی جنکی کچھ پیت کی توند بڑھی ہوئی تھی امیر نے پوچھا یہ کیا ہے لگتا ہے زیادہ آرام پرست ہو گئے ہیں۔ حضرت سعد نے جواب دیا یا امیر المومنین وہاں کی آب و ہوا اور موسم اچھے تھے تازہ سبزیاں اور خوراک اس لئے میرا پیٹ کچھ بڑھ گیا ۔ امیر سلطنت نے فرمایا اس آب وہوا پر اب کسی دوسرے کا حق ہے اب ایک سال آپ نے بیت المال کی بکریاں چرانی ہیں۔ یہ ہوتے ہیں صادق و آمین حکمران اور ان کے کارندے عمر بن عبدالعزیز خلافت امویہ کے امیر تھے عید آئی بچوں نے نئے کپڑوں کی فرمائش کی ملکہ سلطنت نے سفارش کی تب انہوں نے بیت المال کے وزیر خزانہ کو خط لکھا مجھے ایک ماہ کی تنخواہ ایڈوانس دی جائے وزیر خزانہ نے واپس نوٹ لکھا یا امیر امومنین مجھے لکھ کر دیا جائے کہ آپ ایک ماہ تک زندہ رہیں گے۔

امیرا لمومنین رونے لگے اور اپنے درخواست پھاڑ کر پھینک دی اور پھر سلطنت اسلامیہ امویہ کے امیر المومنین وزیر اعظم صدر یا جرنیل کے بچوں نے عید پیاز کھا کر اور پرانے کپڑوں میںمنائی۔ ماں اور باپ کی آنکھوںمیں قصر نفسی کے آنسو تھے۔ یہ تھے اس دور کے صادق و آمین دیانت دار باکردار حکمران سلطنت عباسیہ کے امیر المومنین خلیفہ محمد المہدی دربار میں بیٹھے ہیں۔ ایک غریب بڑھیا درخواست لے کرحاضر ہوئی یا امیر المومنین اے وزیر اعظم سلطنت اسلامیہ کے ایک ظالم نے میری زمین پر قبضہ کر رکھا ہے۔ مجھے انصاف دلایا جائے ۔ حکم ہوا وہ کون ہے۔ یا امیر وہ کوئی اور نہیں بلکہ آپ کی بغل میں بیٹھا آپ کا بیٹا شہزادہ فلاں ہے۔ پھر تاریخ نے عجیب منظر دیکھا خلیفہ المہدی نے اپنے بیٹے کو سر دربار کھڑے کر کے اپنے ہاتھ سے کوڑے مارنے شروع کر دیے تب تک وہ غریب بڑھیا کی زمین سے دستبردار نہ ہوا۔ اللہ اللہ یہ تھے وہ انصاف پسند حکمران اور منصف قاضی سلطنت عباسی خلافت کی پانچ سو سالہ حکومت کو ایسے ہی فیصلوں سے دوام حاصل ہوا قارئین سلطنت اسلامیہ کے عظیم جرنیل نوالدین زنگی اور صلاح الدین ایوبی کو آقا ۖ کا خواب میں آنا بشارت دینا قبلہ اول کی فتح حاصل کرنا ان کے کردار صادق و آمین ہونے ہی کی بدولت تھا مغلوں نے اگر نو سو سال حکومت کی اس کے پیچھے بھی ان کا عدل و انصاف اور کردار تھا۔ اورنگزیب عالمگیر نے اپنے محل کی چوکھٹ پر زنجیر عدل لٹکا رکھی تھی ہر خاص و عام رات دن اپنی داستان علم سنایا کرتا تھا۔

نہ کوئی زرداریوں شریفوں اور ملکوں چوہدریوں کے ہی قضیے ہوں تب انصاف ملتا ۔ ہمارے ہاں کی طرح کوئی خریدا بکتا نہ تھا۔ پاکستان کے ایک جرنیل نے خوش قسمتی سے اگر اپنے آئین میںچند اسلامی دفعات کا اضافہ کیا جن میں حدوقضاء اور باسٹھ تریسٹھ کی شقات شامل تھیں مگر انہوں نے برداشت نہ کیا در اصل باسٹھ تریسٹھ کیا ہیں اور کیوں ہیں یہ امت محمدیہ کے ہر فرد کے لئے ریاست اور ریاست کے تمام اداروں اور حکمرانوں کے لئے اللہ کے بنائے ہوئے وہ قوانین ہیں یہ ہو کسوٹی ہیں جن پر کاربند افراد ہی متقی انسان ہیں۔ جو ریاست کے اداروں اور ریاست کی حکمرانی کے اہل مانے جاتے ہیں۔ اس کی تشریح صرف حکمرانوں کا صادق و آمین ہی کافی نہیں بلکہ کردار کے غازی اور گفتار کا سچا ہونا بھی شرط ہے۔ قارئین بدقسمتی سے ماضی میں نہ تو ہمارے کسی سول و سرکاری اداروں میں انکا اطلاق ہوسکا اور نہ ہی پارلیمنٹ کے انتخاب اور چیف ایگزیکٹو کے کسی چنائو میں ہی اس کا اطلاق ہو سکا ۔ ہماری حکومتیں سول تھیں یا فوجی بدیانت بدکردار بدگفتار اور جھوٹے لوگوں کے ہتھے چڑھی رہیں حتی کہ ہماری عدلیہ بھی اس سے مستفی رہیں اب اگر موجودہ حکمران اس کی زد میں آئے ہیں یہ تو ملک کے لئے عوام کے لئے ایک اچھا شگون ہے۔ اس کا دائرہ صرف سچا اور آمین ہی نہیں زانی شرابی بدکردار اور بدگفتار افراد بھی ہونے چاہیں ۔ اس کی حدود صرف سیاستدان حکمران ہیں نہیںتمام اداروں کے سربراہان سول فوجی افسران اور عدلیہ کے جج بھی شامل ہونے چاہیں ۔

اگر تمام اداروں کے سربراہان دیانتدار امانتدار باکردار ہونگے تو انکے ماتحت کام کرنے والے افراد کبھی بھی ان خرافات کے مرتکب نہیں ہوں گے۔ جہاں تک موجودہ نواز حکومت اس کے شکنجے میں آکر ان دونوں اسلامی دفعات سے جان چھڑانے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے اور صدر پاکستان کی طرح وزیر اعظم ان کے وزیروں مشیروں کو احتسابی عمل سے استثنی دلانا چا رہی ہے۔ جس میں دوسری بڑی پارٹیوں کی حمایت بھی حاصل ہو گی ایسے میں اہل پاکستان جہاں عمران خان کے دھرنوں ، ن لیگ کی ریلیوں اور جیالوں کے لانگ مارچوں میں ایک آواز پر نکل کھڑے ہوتے ہیں وہاں ملکی آئین سے ان چند اسلامی دفعات کو نکالنے کی مذمت کرتے ہوئے ایسی کسی بھی کوشش کو ناکام بنا نے کے لئے سڑکوں پر نکل کھڑے ہوں اور اپنا دینی اور ملی فریضہ پورا کریں۔ ورنہ انہوں نے پہلے بھی سابقہ سرحد اسمبلی میں علماء کا پیش کردہ حسبہ بل اٹھا باہر پھینکا سود کے خلاف اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات قومی اسمبلی سے نکال باہر کیں۔ اور سود کی حمایت میں ملکی سپریم عدالتوں سے رجوع کیا۔ اللہ اور اس کے رسول ۖ کی ناراضگی مول لیکر آج عبرت کا نشان بنے پھرتے ہیں۔ اور باقی ماندہ جو آج خوشیوں کے شادیانے بجا رہے ہیں عنقریب وہ بھی ملک کو لوٹنے کھسوٹنے جھوٹ فریب اور اپنی بدکرداری کی وجہ سے نشانہ عبرت بنا دیئے جائیں گے۔

قارئین ہمیں اور ہمارے اس نام کے اسلامی جمہوریہ کو ان بچی کھچی چند اسلامی دفعات کی اشد ضرورت ہے جن پر عملدرآمد کر کے ہم ملکی تمام اداروں تعلیمی صنعتی فوجی اور حکومتی سے جھوٹے خائن بدکردار لوگوں سے جان چھڑا سکیں گے اور نئے صادق و آمین دیانتدار خوش گفتار پڑھے لکھے باکردار لوگ آگے لا سکیں گے تاکہ ملک کو صحیح معنوں میں اسلامی جمہوریہ پاکستان بنا سکیں۔ ورنہ نصف صدی سے مسلط یہ خائن ایسی کسی بھی اسلامی شق کو اپنے آئین سے نکال باہر کرکے جیلوں میں اور باہر جا کر بیٹھے لوگ ملک پر مسلط کر دئیے جائیں گے۔ اللہ نہ کرے یہ اپنے ان گندے ارادوں میں کامیاب ہو سکیں۔ ہم اپنی عدلیہ سے پر زور مطالبہ کرتے ہیں کہ باسٹھ تریسٹھ کی ان ملکی آئینی دفعات کے پیش نظر احتساب کا یہ عمل ملکی تمام اداروں تک پھیلا کر اپنے اس پاکستان کو ان گندے انڈوں سے پاک کر دیا جائے خصوصا شفاف انتخابی عمل سے قانون قدرت کی کسوٹی سے گزار کر ملکی قومی صوبائی اسمبلیوں اور سینٹ جیسے اداروں میں اہل لوگوں کو لایا جائے ۔ اہل پاکستان ملکی عدلیہ کی ہر ایسی کوشش میں ان کے شانہ بشانہ ہوں گے۔ ( انشاء اللہ)

تحریر : حاجی زاہد حسین خان ممبر پاکستان فیڈریشن آف کالمسٹ
hajizahid.palandri@gmail.com