حاتم طائی نے کہا تھا کہ میں نے چار علم اختیار کئے اور دنیا کے تمام عالموں اور انسانوں کی دست نگری سے چھوٹ گیا اور میرا شمار لینے والوں میں نہیں بلکہ دینے والوں میں ہوا ۔پہلا یہ کہ میں نے سمجھ لیا کہ جو رزق میری قسمت میں لکھا ہے وہ نہ تو زیادہ ہو تا ہے نہ کم بلکہ مناسب ہوتا ہے اس لیے میں زیادہ کی طلب سے دستبردار ہو گیا ۔دوسرا یہ کہ اللہ کا جو حق مجھ پر ہے، وہ میرے سوا کوئی دوسرا ادا نہیں کر سکتا ،اس لیے میں اس کی عبادت میں مشغول ہو گیا ۔تیسرا یہ کہ ایک چیز مجھے ڈھونڈتی ہے اور وہ ہے موت ،میں اس سے بھاگ نہیں سکتا ،اس لیے اس کے ساتھ سمجھوتا کر لیا ۔چوتھا یہ کہ میرا اللہ ایک ہے جو مجھ سے با خبر رہتا ہے ،میں نے اس سے شرم رکھی اور برے کاموں سے ہاتھ اٹھا لیااور محنت کو اپنا شعار بنا لیا ۔یہ چار علم کامیاب زندگی کے ایسے اصول اور ایسی مشعل راہ ہیں کہ جس نے انھیں اپنا لیااس نے مثالی جیون کا راز پا لیا۔
مجھے حاتم طائی کے یہ الفاظ تب یاد آئے جب میری ملاقات جناب حسیب پاشا المعروف ہامون جادوگر سے ہوئی ۔ اپنی شخصیت کو بھلا کر مختلف روپ دھار لینے والا یہ انسان بظاہر عام سا لگتا ہے جو کہ کسی کونے میں بیٹھ کر، اسکرپٹ کے رٹے لگا کر ، مختلف بہروپ بنا کر، دنیاوی نام و شہرت کے لیے کوشاں ہو۔لیکن یہاں درحقیقت ایسا نہیں ہے کہ یہ درویش منش انسان تو اپنی ذات میں نیکی وبھلائی کا سر چشمہ ہے ۔جو کہ کبھی اندھیری راتوں میں بھٹکے ہوئوں کو راستہ دکھانے والاجگنو ، کبھی رات کی پراسراریت کو ختم کرنے والا روشن ستارہ ، کبھی نفسا نفسی کی اس دور میں انائوں ، خود غرضیوں اور نفرتوں کے ٹھہرے ہوئے پانیوںمیں محبتیں گھولنے والا درویش اور کبھی زندگی کے ستائے ہوئوں اور ٹھکرائے ہوئوں کے لبوں پر مسرت کے پھول کھلانے والا عام سا فنکار ہے جو انسانیت اور درد دل کی دولت سے مالا مال ہے جو ہر کسی کو یہ پیغام دے رہا ہے کہ زندگی جیو تو ایسے کہ کوئی ہنسے تو تمہاری وجہ سے ہنسے ، تم پر نہیں اور کوئی روئے، تو تمہارے لئے روئے ،تمہاری وجہ سے نہیں ۔یہ شخص اپنی ذات میں تربیتی کتب کی عملی تصویر ہے کہ یہ اس نفسا نفسی کے دور میں اسلامی اقدار و روایت اور ہماری ثقافت کا وہ آئینہ دار و محافظ ہے جو اپنے حصے کی شمع جلارہا ہے اور یہ درویش صفت لکھاری اور اداکار کسی داد و تحسین کا بھی طلبگار نہیں ہے ۔
جناب حسیب پاشا سے تقریبات میں سر سری ملاقات تو ہوتی رہتی تھی مگر ان کی شخصیت کے اسرار الحمرا لاہور آرٹ کونسل میں ” عینک والا جن ”ڈرامہ دیکھ کر کھلے ۔طلسماتی ماحول میںمافوق الفطرت عناصر کو دیکھ کر علم و ادب کے در کھلنا حیران کن لگتا ہے مگر یہ حقیقت ہے کہ اس ڈرامے میں جہاں شعبدہ بازی کے کمالات ہیں وہاں قدم قدم پر اخلاقی و سماجی تربیت اور زیست کی کٹھنائیوں اور خوبصورتیوں کا بیان ملتا ہے ۔ایک دو گھنٹے میں بارہ برسوں کی درسی کتب اور عمر بھر کے تجربوں کا عملی درس ملتا ہے گویا کہ آپ کو سکھایا جاتا ہے کہ آپ کا ظاہر جیسا بھی ہو آپ کے اندر کا انسان معنی رکھتا ہے اور اپنا کردار بنانے میں اتنے مشغول ہو جائو کہ دوسروں پر تنقید کا وقت ہی نہ ملے ۔جو بچے اور والدین یہ ڈرامہ دیکھتے ہیں وہ کیسے ان لمحات اور پیغامات کو بھلا سکتے ہیں ۔شاید اقبال ساجد نے حسیب پاشا کے لیے ہی تو کہا تھا کہ :
سورج ہوں زندگی کی رمق چھوڑ جائوں گا میں ڈوب بھی گیا تو شفق چھوڑ جائوں گا
پابلو پیکاسو نے کہا تھا کہ آرٹ کا مقصد ہے کہ ہماری روز مرہ کی زندگی کی گندگی کو روح سے الگ کرنا ۔یقینا آرٹ و فن اگر تہذیب و اقدار کے نمائندہ ہوں تو یہی کام کرتے ہیں اور جب برصغیر میں اسلام پھیلا تو مسلمان بادشاہوں نے فنون لطیفہ پر خصوصی توجہ دی تاکہ اسلامی اقدا ر و روایت اور تہذیب و ثقافت کو عام کیا جا سکے جس سے صحت مند تفریح کے مواقع بھی ملیں اور ساتھ ساتھ اخلاقی و سماجی تربیت بھی ہو سکے ۔ یعنی آرٹ و فن کو عوام الناس کی ذہنی تربیت کے لیے ترویج دی گئی تھی ۔ویسے بھی جتنی بھی دنیاوی و روحانی تعلیمات موجود ہیں ان میں اعلیٰ درجہ کی کوشش کی گئی ہے کہ انسان کے احساس کو اجاگر کیا جائے جب احساس اجاگر ہوگا تو روح پاکیزگی کیطرف مائل ہوگی اور جب روح نیکی کی طرف مائل ہوجائے تو انسان فانی دنیا سے جڑا تو رہتا ہے مگر اس کے حقیقی لمحات رضائے خداوندی کے حصول میں کٹتے ہیں ۔بقول شاعر”آگہی مجھ کو کھا گئی ورنہ میں نے جینا تھا اپنے مرنے تک ”۔ یقینا زندگی کی اتنی سی حقیقت ہے کہ انسان ایک پل میں ماضی کا حصہ بن جاتا ہے ۔پھر بھی ہمارے ہاں ایسے ڈرامے اور فلمیں پیش کئے جا رہے ہیں جو کہ ہماری ثقافت سے میل نہیں کھاتے یہی وجہ ہے کہ ٹی وی ڈرامے بتدریج اپنی قدریں اور معیار کھوتے جارہے ہیں کہ کوئی بھی ڈرامہ ہماری ثقافت اور اسلامی اقدار کی منظر کشی نہیں کرتا اور نہ ہی انھیں فیملی کے ساتھ بیٹھ کر دیکھنا مناسب سمجھا جاتاہے۔ با شعورکہنے پر مجبور ہیں کہ ہم نے مغربی یلغار میں اپنا جداگانہ تشخص اور اقدار کھو دی ہیں اور ہم مغربی تہذیب کو پیش کر رہے ہیں ۔مگر۔۔ ایسا نہیں ہے کیونکہ اگر آپ ہندوستانی ڈرامے اور مغربی ڈرامے اور فلمیں دیکھیں تو آپ چند لمحات میں جان جائیں گے کہ وہ اپنے کلچر اور اپنی ثقافت کے لبادھے میں اپنے مسیحائوں اور مفکرین کے پیغامات کو عام کر رہے ہیں یعنی دل و دماغ پر وار کر رہے ہیں تو ہم کسے فالو کر رہے ہیں ؟ایسے شرم و حیا کے پردے چاک کرنا کہ کل تلک جن کا تصور بھی محال تھا وہ آج حسب حال کیوں ہے ؟ نیم برہنہ اداکارئیں سر عام اپنی نمائش کرتے ہوئے ناچ رہی ہیں اور مرد فنکار سر عام بو س و کنار کرتے فیملی چینلز پر دکھائے جا رہے ہیں اور ان سب کوڈھٹائی سے عام اور ذاتی معاملہ ثابت کرنا، معاشرے کو پراگندہ کرنے، سیکس فری کنٹری بنانے اور اسلام دشمنوں کے مشن کو کامیاب کروانے والوں کا مہرہ بننے جیسا کیا نہیں ہے ؟ہر دن ایک پھول یا کلی اسی عریانیت اور بے حیائی کے رحجانات کو دیکھ کر ہوس پرستوں کی بھینٹ چڑھ جاتی ہے کیا ملک میں جاری فحاشی کی یہ قیمت ہم ہر روز ادا کر سکتے ہیں ؟؟ ؟ سوچئے ۔۔!۔
”عینک والا جن ”اسی سوچ اور احساس کو اجاگر کرتا ہے اور ہم بے ساختہ کہہ اٹھتے ہیں کہ آج ہم جس طرح اندرونی اور بیرونی چیلنجز میں گھرے ہوئے ہیں کہ ہر طرف سے دشمن گھات لگائے بیٹھے ہیں اور تیسری جنگ عظیم کے خطرات ہمارے سروں پر منڈلا رہے ہیں ایسے میں پاکستان کو اسلام کا مضبوط قلعہ بنانے کہ اسلامی تعلیمات کو عام کرنے اور اخلاقی بنیادوں کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے ۔آج ہمیں” عینک والا جن” جیسے ڈراموں کوٹی وی پر چلانے اور پنجاب کی تمام آرٹس کونسلوں میں دکھانے بلکہ پورے پاکستان میں دکھانے کے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے ۔یہ گوشئہ گیان ہی ہمارے معاشرے میں بڑھتی ہوئی سماجی برائیوں ،عدم برداشت اور رشتوں کے بیچ بڑھتی ہوئی خلیجوں اور اخلاقی گراوٹوں کو ختم کر سکتاہے ۔ امت مسلمہ کو آج روحانی اور ذہنی تربیت کی ضرورت ہے تاکہ ہماری نسلوں میں اقبال کے وہ شاہیں پیدا ہوںکہ جو اسلام کی حقیقی تصویر ہوں اگر ایسا ہوگیا تو آج جو کر گس ہمارے شاہینوں کے پر کاٹنے میں کوشاں ہیں وہ اپنی موت آپ مر جائیں گے ہم نے کوے کی طرح جو رنگین پرندوں کے پروں کو اپنے جسم پر سجا لیا ہے اگر ہم اپنی بقا ء چاہتے ہیں تو انھیں اتار پھینکنا ہوگا کہ یہ تو طے ہے کہ اگر کسی کو غلام بنانا ہو تو بہترین حل یہ ہے کہ اس کی نسلوں میں بے حیائی پھیلا دو اوربے حیائی پھیلتے ہی احساس بھی مر جاتا ہے ۔
اسی لیے تو میں اکثر کہا کرتی ہوں کہ دنیا درد مندوں سے تو بھر گئی مگر آجکل کوئی حقیقی مسیحا پیدا نہ ہو سکا مگر مجھے کہنے دیجیے کہ ہمارے فنکار قسمت کے فقیر سہی مگر اگر درد دل کی بات کی جائے تو ان سا نواب کوئی نہیں زمانے میں کہ یہ لوگ اس پُر آشوب دور کے حقیقی مسیحا ہیں جو کہ اپنی پریشانیوں کو بھلا کر آپ کی خوشیوں کے لیے کوشاں ہیں حالانکہ کوئی بھی انسان پوری دنیا کے لیے نہیں جیتا بلکہ کچھ خاص لوگوں کے لیے جیتا ہے اور وہی اس کی دنیا ہوتے ہیں مگر اس سے کسے انکار ہوگا کہ ”عینک والا جن ” کے سبھی کرداران میں جو رحلت فرما چکے ہیں وہ بھی جب تک جئے ہم سب کے لیے جئے اور جو زندہ ہیں وہ صرف اور صرف ہم سب کے لیے جی رہے ہیں ۔اس لیے میری حکومت وقت سے درخواست ہے کہ جناب حسیب پاشا کو ان کی مسلسل گرانقدر تعمیراتی کاوشوں پر پرائیڈ آف پرفارمنس سے نوازا جائے کہ وہ ایک ایسے ڈرامے کے روح رواں ہیں جوکہ پاکستان میں چلنے والے طویل اخلاقی ، سماجی ، ثقافتی اور تربیتی ڈراموں میں سر فہرست ہے اور اپنے ٢١ برس مکمل کر چکا ہے بلاشبہ یہی فنکار ہمارے ملک کا اثاثہ ہیں اور ان کی قدر افزائی اور عزت افزائی کرنا اجر عظیم سے کم نہیں اور حقدار کو حق دینے سے تو اللہ بھی خوش ہوتا ہے اور ایسے لوگ تو بہت قیمتی ہوتے ہیں جو دلوں میں بستے ہیں اوریقینا ہمیشہ بسیں گے۔۔!
روئیں گے مری یاد میں مہرو مہ و انجم ،ان آئینوں میں عکس قلق چھوڑ جائونگا ساجد گلاب چال چلوں گا روش روش،دھرتی پہ گلستان شفق چھوڑ جائونگا