ادیب و شاعر اس کرہِ ارض پر مصحف احساس کی تفسیر عشق کی تنویر اور خوابِ حسن کی تعبیر ہ ہیں ۔ یہ شاعر ہی ہے جس نے دو عالم کی حدوں کو جوڑ رکھا ہے۔ جو ستاروں کی زبان، چاند کی تقریر اور قلب آگاہی میں روشنی، اور قصرِ مہروماہ کی کنجی ہیں۔ ایک ایسے ہی محبوبِ زمانہ، جہانِ استاد، بلبلِ ریگستان و برگزیدہ عالی مقام، دبیر اور عظیم المرتبت استادشاعر فنکار اور قلمکار ڈاکٹر محمد ریاض چوہدری جو اپنے کاشانہء ادب پر فکرو فن شعر اور زبان ادب کی تاریخی خدمات کے سبب اپنی بھرپور شاعرانہ، خدمات طبع و نظر اور شان و شوکت کے ساتھ اردو کے افق ادب کی معراج پر جلوہ گر نظر آتے ہیں۔
آپ ضلح جہلم کے پہاڑی سلسلے، تہزیب و تمدن کے مرکز گہوارہ، حسن و جمال، سرسبز و شاداب گہیرے درختوں، ہرے بھرے کھیتوں گل پوش سبزہ زار وادی “جنجیل”یہ حرماننصیب لکھاری اس ر ومانی بستی میں پیدا ہوئے۔
آپ کی باتوں میں دہن کی کج روی ہی نہیں محبت کو سراہنے کا معصوم جذبہ بھی ابھرتا ہے۔ جس میں وابستگی ہے، سپردگی ہے، آسودگی و رفتگی ہے، شدت بھی ہے نرمی بھی ہے، دھیماپن اور جزبہ بھی ہے لیکن اس میں طمطراق نہیں ہے۔
ڈاکٹر ریاض کی زبان اور اس کے لہجے اور اس کے اندازِ بیاں کی توانائی کا جائزہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ وہ متروکات کو برکات بنا کر مہروجات میں شامل کروانے کا ہنر رکھتے ہیں۔ آپ مقالاجات کی آبرو اور سب سے اہم پائیدار اور دل کو چھونے والی آواز ہیں ۔ آپ نے زمین مسخر کو آسمان بوس کیا۔
اردو زبان میں لطیف جذبات اور احساسات کے نازک ترین اظہار کتنے اور کیسے امکانات ہیں آپ کی کتاب “خوشبوکےجھونکے”پڑھ کراندازہہوتاہے۔
بارے دنیا میں رہو غم زدہ یا شاد رہو ایسا کچھ کر کے چلو یاں بہت یاد رہو
ریاض صاحب ایک ادبی شخصیت ہیں کہ ان کی کرن نہ صرف ماضی کے دھندلکے کو چیر کر ایک جیتی جاگتی تصور دیکھا دیتی ہے بلکہ یہ ہمارے حال و مستقبل دونوں میں رہبری اور رہنمائی کر سکتی ہے۔ ان کے خیالات میں گہرائی، جذبات میں خلوص، اور اظہار میں کیفیت ہیں۔ آپ انتخابی نظر کے مالک ہیں اور زندگی کے مخصوص پہلوؤں کی زیادہ کامیاب مصوری کرتے ہیں۔ مگر اس میں بھی قوس و قزح کی سی دل ریزی اور رنگارنگی ہے۔ آپ اپنی ذاتی زندگی اور ماحول دونوں میں کئی طوفانوں سے گزرے ہیں۔ ابتدائی تربیت نے نظامِ اخلاق ،جوانی نے تجربات سے آشنا کیا۔ آپ کا فن اس لئےبرگزیدہ اور بلند پایہ ہے کہ ان کے آئینہ فکر میں پُرخلوص تجربات کا جوہر ہے اور یہ تجربات بھی ذاتی ہوتے ہوئے عمومی رنگ رکھتے ہیں۔
ایک پُرکشش مہذب شخصیت کے مالک آپ کی گفتگو میں مٹھاس، سانس میں گلاب، تخیل کا شباب، پیکر خاکی، تلسمِ آب و تاب، ہر لفظ میں گردشِ آفتاب جن کے قدموں میں فطرت کی جبیں جھکی رہتی ہے جس کی زبان کے چرچے ظالم ظلم و سرکش کو زیر کر دے۔ جس کے لیے گلشن میں ہوا، ساون کی گھٹا، حسن کو ناز و ادا اور ساز سے باہر نکلتی ہے صدا بھڑکے نہ اگر آگ تو اخگر نہیں بنتے گومے نہ اگر چاک تو ساغر نہیں بنتے ترشے نہ اگر سنگ تو پیکر نہیں بنتے تڑپے نہ اگر موج تو گوہر نہیں بنتے
آپ ایک ایسے لکھاری ہیں جو کسی شاعر، ادیب، مصنف، یا مقرر کی تعرف و تعریف کے لیے ایسے موزوں مناسب اور جامع الفاظ کا استعمال کرتے ہیں کہ چند جملوں میں ممدوح کی شخصیت کا حسن سمٹ آئے بجائے خود ایک کمال ہے۔آپ کی ترجیحات میں انسان اور انسانی اقدار سب سے نمایاں ہے۔ آپ نے انسان کو بڑی اہمیت دی ،دوست کو عزیز جانا اور کبھی دشمن کو بھی برا بھلا نہیں کہا۔
آپ ادبی سماجی ثقافتی تعلقاتی قدروں کے امین بھی ہیں۔ گذشتہ کئی عرشوں سے آپ نے ایک شجر ثمربار کی حیثیت سے آپ نے ادبی ثقافتی اور سماجی کے ہر موڑ پر ریاض شہر کی رہنمائی بھی کی۔آپ ہر نئے شاعر ، ادیب اور لکھنے والے کے لیے چشمہ حیات ہیں۔ اس چشمہ فیض کاشانہء ادب پر بہت سے لوگ فیض یاب ہوئے۔ ایک پرکشش دھیمی اور معصوم لہجے والی آواز کے مالک جب پنجابی میں بات کرتے ہیں تو ماجھی لہجہ جھلکتا ہے۔
آپ اگرچہ استاد کے طور پر ریٹائر ہوگئے لیکن ادب کی دنیا پر خوب حکومت کی اور عہدے سے آپ کو کوئی نہیں ہٹا سکتا۔آپ منٹو اور منو بھائی کی روایات کے بے مثل امین زبان و بیان و کلام کے عظیم نمائندہ منفرد ترجمان دبستان ادب کی خصوصیات کے علمبردار ایک نہایت دلدادہ اور دل گیر طرزِ بیاں کے ایک بےبدل فنکار ہیں۔اپنی فنکارانہ محاسن کی وجہ سے جامعہ صفات کے مالک ہیں۔
آپ کی خطابت و کتاب کے سحر نے وہ جادو جگائے کہ نہ صرف ریاض شہر بلکہ پورا سعودی عرب اور عالمی ادب نے آپ کے فن کا لوہا مانا تکبیر نیوز نے ٢٠١٨ کا انٹرنیشنل ادب ایواڈ آپ کے نام کیا اور حلقہء فکرو فن استاد تسلیم کرتا ہے۔
حفیظ تسلیم، ادب، خلق، تواضع، تعظیم کتنی تکلیف ہے اسے شوق ملاقات کی ساتھ سادگی، بانکپن اغماض، شرارت شوخی تو نے انداز پائے ہیں کہ جی مانتا ہے
میں نے جب خوشبو کے جھونکے کو اپنے دل کی گردش دوراں سے گزارا تو الفاظ کی عظمت، فکر و فن کی جولانیاں اور قلم کی جلوہ سامانیاں اور گفتار کی گل افشانیاں قابل رشک نظر ائیں اور انھوں نے تخلیق فن ،تزئین سخن کے مرحلے مین ذوق نظارہ ، تاب نظر ادب اور ادبی افاق و جہات کو ایک طرف رنگا رنگی عطا کی ھے ،تو دوسری طرف خود ان کے امتیازات کو روشن اور نمائیاں کرتی ھے۰
ان کی سوچ اس اعلی ظرفی اور بہترین تخیلیق کا مظہر ھے جو خوشبو کے جھونکے کی صورت میں ظہور پزیر ھوئ ۰ جس کی رنگت اور خوشبو میں کوئ ملاوٹ نھیں اورتھکے ھوۓ دل و دماغ کو سکون دینے کے لیے بھولی بسری یادورں اور ماضی کے جھونکوں’ جہاں انسانی جذبات کی معصوم پڑ چھائیاں کسی کی تلاش میں سرگرداں نظر آتی ھیں اور ادب کی بھینی بھینی مہک، حسرتوں کی انگلی تھامے ایک ایسی پناھہ گاہ میں لے جاتی ھے جہاں ،محبت ،انسانیت ادبیت ،تہذیب و تمدن کا نور ھو، نا کوئ مسلق ھو، نا کوئ مہراب ھو، نا کوئ گنبد ھو اور نا کوئ کلش، بعد ازاں اس کے پڑ ھنے کے بعد کچھ ایسا محسوس ھوا اور دل چاہا میں اس تمام خوشبو اور جھونکوں اور دلوں کی دھڑکن بن جاؤں جہاں انسانیت کی عبادت اور ادب کی پرستش ھوتی ھو اور جہاں انسانی جذبات روح اور آتما کی طرح ہر بندش سے آزاد ھو تے ھوں۰ اس میں ایک خاص طرح کی ادبی سخصیات اور انکی خدمات انکے وجود کی رنگت اور خوشبو اور احساسات، جذبات قلمبند ھیں جو آج دنیا ادب کا وجود ھے جو آج بھی اس اجڑتے ھو ۓگلشن ادب کے لیے خوشبو کے جھونکے ھیں جن سے یہ گلشن مہک رہا ھے ۰خوشبو کے جھونکے جیسی کتابوں کا مطالعہ اس دور میں بہت ضروری ھے کیونکہ یہ ادبی معیار تشکیل دیتی ھیں ۰
آپ نے غالب و مومن، اقبال و فیض، جالب و فراز کے فکر کی روایت کو اور ان کے جمالیاتی احساس کو اپنی زندگی شاعری کا حصہ بنا لیا۔
آپ کی ادبی اور فنی زندگی کا تجزیہ کیا جائےتو اس نتیجہ پر پہنچیں گے کہ ان کی ادبی زندگی جس خمیر سے گندی گئی ہے اس کے عناسر ترکیبی میں تخیل کا بانکپن، جذبہ کی شدت، زبان و بیان کے چٹخارے، لب و لہجے کا تیکھاپن، کبھی پھبتی کبھی چٹکی کبھی مسکراہٹ زیرِ لب اور کبھی قہقہ اور شوخی بھی ہے۔
کیا جانے آپ تیغ کی لذت جناب خضر مرتے ہیں وہ تو چشمہ آبِ حیات پر
غالب سے کسی نے دریافت کیا کہ داغ کی اردو کیسی ہے تو فرمانے لگے ایسی عمدہ کہ کسی کی کیا ہو گی۔ذوق نے اردو کو گود میں پالا داغ اس کو نہ صرف پال رہے ہیں بلکہ اس کو تعلیم بھی دے رہے ہیں۔ اور ڈاکٹر ریاض چوہدری اس کو فکرو فن بھی دے رہے ہیں۔
نہیں ملتا کسی مضموں سے ہمارا مضموں طرز اپنی ہی جدا سب سے جدا رکھتے ہیں