آج بھی اس کی خوشبو مل مالک لے جاتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Labor

Labor

تحریر : محمد ممتاز بیگ
پہلی دفعہ مزدور کے وسیع اور جامع ترین حقوق کا تعین اسلام نے کیا۔محنت کش کی عزت، عظمت اور اہمیت کا اندازہ اس حدیث شریف سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے جس میں آپ نے محنت کش کو” اللہ تعالیٰ کا دوست ” قرار دیا۔اسی طرح دین اسلام ہی کویہ فخر حاصل ہے کہ یہ مزدوروں کے حقوق کا سب سے بڑا علمبردار ہے۔مزدور کے حقوق کے بارے میں اسلام ہی دہ دین ہے جس نے درس دیا ہے کہ “مزدور کی مزدوری اس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے ادا کردو” اور “مزدور پر اتنا بوجھ نہ ڈالو کہ وہ اٹھانے کے قابل نہ ہو”۔ اسلام نے معاشرے کے ہر فرد بشمول آجر اور اجیر کے حقوق کی حفاظت کی ہے حضوررۖنے اپنے آخری خطبہ حجتہ الوداع کے موقع پر بنی نوع انسان کی آزادی اور حقوق میں برابری کا اعلان فرمایا ہے اس میں مزدورکی شخصی آزادی اورکام کی آزادی کے حقوق بھی شامل ہیں۔

اس وقت دنیا میں اسلامی نظام حکومت و سیاست کے علاوہ دو اور نظام بھی چل رہے ہیں جن میں ایک کمیونزم (Communism)اور دوسرا کیپٹل ازم(Capitalism)ہے ۔یہ دونوں نظام خدا، نبوت،آخرت سے انکار، جبر،استحصال اور ناانصافی پر مبنی اور شخصی آزادی کے خلاف اور جاگیر داری نظام کی پیداوار ہیںجن کی عمارت فطری اصولوں کے خلاف اور رشوت، سود، چور بازاری اور مادیت کی بنیاد پر قائم ہے۔آج سے129سال قبل یکم مئی1886ء کو امریکہ کے طول و عرض میں13,000کاروباروں سے تعلق رکھنے والے لگ بھگ 3,00,000مزدوروں نے کام چھوڑ کر سفید پرچم اٹھا ئے اپنے حقوق اورکام کے آٹھ گھنٹے اوقات کار مقرر کرانے کیلئے مظاہرے کرنے نکل آئے اورامریکہ کے سب سے بڑے صنعتی شہر شکاگو میں40,000 کے قریب مزدورنے اپنا مظاہرہ جاری رکھا۔ دیکھتے ہی دیکھتے دو دن بعد یعنی 3مئی کو ان پر امن مزدوروںکی تعداد 100,000تک جا پہنچی کہ اس موقعہ پر اچانک پولیس اور مظاہرین کے درمیان پتھرائو اور تشدد شروع ہوگیا۔جس سے کم از کم دو مظاہرین جان بحق اور نا معلوم تعداد میں زخمی ہو گئے۔

فوری طور پر چند مزدور رہنماوئں نے اگلے دن یعنی4مئی1886ء کو “ہے مارکیٹ سکوائر” (Haymarket Square)میںپولیس کے اس ظلم کے خلاف اگلے اقدام پر غور کرنے کیلئے جلسے کا اعلان کر دیا۔خراب موسم اور کم وقت کے باعث اس جلسہ میں میں لگ بھگ 3,000مزدوروں نے منظم اور پر امن انداز میں شرکت کی۔مزدور رہنمائوں نے کافی حد تک ماحول کو ٹھنڈا اور نارمل کر دیا کہ اس دوران دو جاسوس مخبروں نے پولیس کو جا کراطلاع دی کہ مزدور رہنماء نہایت جارحانہ اور اشتعال انگیز تقاریر کر رہے ہیں جس پر پولیس نے مظاہرین کو منشر کرنا شروع کردیا کہ اس دوران پولیس پر کسی نا معلوم شخص نے بم پھنک دیا جس سے آٹھ پولیس اہلکار (ایک موقع پر اور باقی ایک ہفتہ کے دوران) جاںبحق ہو گئے۔

Police

Police

پولیس کی جوابی فائرنگ سے کم از کم سات مظاہرین بھی اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ان کے ہاتھوں میں سفیدجھنڈے تھے( جو امن کا نشان ہے ) وہ بھی خون سے سرخ ہو گئے۔مزدوروں کا مطالبہ تھا کہ وہ آٹھ گھنٹے کام کریں گے اور آٹھ گھنٹے گھر کے کاموں کو دیں گے اور باقی کے آٹھ گھنٹے آرام کریں گے ۔ مزدوروں نے حکومت اور صنعت کاروںکے سامنے اپنے مطالبات رکھے جن سے جبری مشقت بھی لی جاتی تھی اور کام کرنے کے اوقات بھی مقرر نہ تھے ۔امریکی صنعت اور سرمایہ داروں نے آٹھ گھنٹے اوقات کا ر کا مطالبہ مسترد کردیا اور مزدور رہنمائوں کے خلاف قتل و غارت گری کے مقدمات بنوا دئیے اور پھانسیاں دلوائیں۔

ان حالات میں مزدوروں نے اپنے ساتھ شہدا کے خونوں سے سرخ پرچم اٹھا کراحتجاج کا سلسلہ شروع کر دیا اور شکاگو کے ان مزدوروں نے اعلان کیا کہ جب تک ان کے مطالبات تسلیم اورکام کے اوقات کار آٹھ گھنٹے مقرر نہیں کئے جاتے ان کا احتجاج جاری رہے گا۔ انیسویں صدی میںامریکہ میں مزودروں سے ہفتے کے ساتوں دن کم از کم 12سے 16گھنٹے یومیہ کام لیا جاتا مگرمحنت کے مقابلے میں معمولی سامعاوضہ دیا جاتا جس سے کہ مزدور گھرانہ بغیر کسی آسائش کے محض زندہ ہی رہ سکتا تھا۔مزدوروں کی حیثیت صنعت کاروں کے غلاموں جیسی تھی۔بعض ملکوں میں مزوروں سے نامناسب، ناموافق اور شدید موسمی حالات میں 16گھنٹے تک بغیر وقفے کے بھی کام لیاجاتا تھا۔ اس سے پہلے 1872ء میں کینیڈا کے مزدوروں نے کام کے اوقات کار 9گھنٹے مقرر کرنے کیلئے تحریک کا آغاز کیا۔

شہیدمزدوروں کا خون رنگ لایا اور آخر کا رمزدوروں کی زور شور سے جاری تحریک اور اس کے نتائج کو دیکھتے ہوئے صنعتکاروں نے اوقات کا ر کا مزدوروں کا یہ مطالبہ تسلیم کر لیا اور3ستمبر1916ء کو ایڈ م سن ایکٹ(AdamsonAct) منظور ہوا جس کے تحت آٹھ گھنٹے یومیہ کے کام کے اوقا ت کار مقرر ہوئے۔اپنی اسی تاریخی کامیابی کی خوشی میں دنیا بھر کے مزدور یکم مئی کو مزدوروں کا عالمی دن کے طور پر مناتے ہیں۔دنیا بھر کی مزدورتنظیمیں جلسے، جلوسوں،کنونشن اور دیگر تقاریب کا اہتمام کرتی ہیں جس میں غریب کش اور مزدور دشمن اشرافیہ بھی غریبوں اور مزدوروں کادم بھرتا نظر آتا ہے۔وطن عزیز کے آئین کے آرٹیکل 37-Cمیں بھی یہ لکھا ہے کہ ریاست قانون کے ذریعے اچھے حالات کار اور محنت کشوں کے بنیادی حقوق کا تحفظ کرے اور ہر طرح کے استحصال کو ختم کرے جبکہ آج کے حالات کے بارے میں ایک سینئر شاعرتنویر سپرا مرحوم(جہلم) جسکی ٹانگیں ایک مشین میں آکر کٹ گئی تھیںنے کہا تھا۔
آج بھی اس کی خوشبو مل مالک لے جاتا ہے
میں لوہے کی ناف سے پیدا جو کستوری کرتا ہوں
اور ایک اورشاعر کے بقول
غربت اور افلاس نے میرے بچے بھوکے مار دیئے
بے قدری کے دور میں ناصر کون گزارا کرتا ہے۔

Pakistan

Pakistan

CIA World Fact Book کے مطابق پاکستان کی کل لیبر فورس 57.2ملین ہے جس کا 43فیصد حصہ زراعت ، 20.3فیصد صنعت اور 36.3فیصد دیگر شعبوں سے وابسطہ ہے ۔اس وقت بھی وطن عزیز میں محنت کشوں سے 12سے 16گھنٹے کام لینے کے باوجود انہیں حکومت کے مقرر کردہ کم از کم اجرت12ہزار روپے ماہانہ سے محروم رکھا جا رہا ہے۔ان میں سب سے پسماندہ ، مسائل کا شکاراور مظلوم طبقہ زراعت، ہوٹل انڈسٹری،بینکنگ اور فنانس،گھریلو ملازمین، پرائیویٹ تعلیمی ادارے، سینئر شہری، ریٹائرڈ ملازمین ہیں یہ لوگ نہ ہی منظم ہیں اور نہ ہی ان کی کوئی قابل ذکر یونین ہیں۔ مزدورں کے مسائل اجاگر کرنا، عام تعطیل کرنا، انہیں خراج تحسین پیش کرنا اور انہیں حل کرنے کے راستے بتانا شکاگو کے مزدورں کے ساتھ یک جہتی اور تربت کے شہید مزدوروں کے ورثاء ، سانحہ بلدیہ ٹائون کراچی کے ساتھ اظہار ہمدردی کرنا اپنی جگہ اہم ہے ۔جیسا کہ مزدور کے حوالہ سے ایک نوجوان شاعر جبار واصف کے بقول:
سال تو سارا گمنامی میںکٹ جاتا ہے
بس “یکم مئی”کو لگتا ہے کہ مشہور ہوں میں

لہذا اس سب کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق کے اداروں، انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں،عالمی برادری، وطن عزیز میں کام کرنے والی انسانی حقوق کی تنظیموں کے ساتھ ساتھ علمائ، وکلائ، سیاستدانوں ، سماجی اداروں، ڈاکٹروں، کاشتکاروں، تاجروں ، صنعتکاروں اور عوامی نمائندوں کو بھی چاہئے کہ وہ مزدوروں کی یونین سازی،فیکٹریز ایکٹ پر عمل درآمد، صنعتی کارکنوں کی ریٹائرمنٹ کے بعد سوشل سکیورٹی، ورکرز ویلفئرز فنڈ ز، کارکنوں کی رہائشی کالونیوں،بہتر فنی تعلیمی تربیت کی سہولیات،بچوں کی جبری مشقت کا خاتمہ،

ملازمین کی کم از کم تنخواہ کے قانون پر عمل درآمد،معاشرہ میں ظلم، جبر، استحصال اور کرپشن کے خاتمہ کے اقدامات پر عملددرآمد میں اپنا اپنا کرداس ادا کریںبصورت دیگر یہ دن صرف ایک تطیل اور تہوار بن کر رہ جائے گا۔اور آخر میں تمام محنت کشوں کی شام کوگھر واپسی پر کیفیت کی منظر کشی ایک شایر نے یوں کی ہے۔
اے رات مجھے ماں کی طرح گود میں لے لے
دن بھر کی مشقت سے بدن ٹوٹ رہا ہے۔

Muhammad Mumtaz Baig

Muhammad Mumtaz Baig

تحریر : محمد ممتاز بیگ
فون: 068-5900818، موبائل0300-8672353
mmumtazbaig@gmail.com