کوئی خوشبو کوئی دھرتی کوئی امبر ہے تاروں جیسا چاند نہیں پر میرا چاند چاند کے جیسا لگتا ہے آنکھیں اس کی تاج محل ہیں ہونٹ پھول کی پتی ہیں گھنگریلے سے بالوں والا روپ کا دریا لگتا ہے لمبی پلکیں گال گلابی ایک کتابی چہرہ ہے معصوموں کے شہر کا کوئی رہنے والا لگتا ہے اتنی نازک جیسے کوئی رنگ برنگی تتلی ہو لہجہ ایسا ساز سروں میں جیسے چھیڑا لگتا ہے کوئی رت ہو کوئی موسم ہلکی سی مسکان لبوں پر اس سے ملکر ہر اک موسم اس کے جیسا لگتا ہے بات کرے تو لاکھوں پریاں اس کی ادا میں کھو جاتی ہیں چپ ہو جائے تو سارا عالم ٹھہرا ٹھہرا لگتا ہے سادگی اس کی جیسے شبنم کھلتی کلیوں پر ہوتی ہے ساگر ا س کو دیکھ کے ہر کوئی کھویا کھویا لگتا ہے