تحریر : محمد قاسم حمدان ہمارے نبی کا فرمان ہے کہ ایک وقت آئے گا جب اسلام ہر گھر میں داخل ہو جائے گا۔آج یہ پیش گوئی سچ ثابت ہو رہی ہے۔ مغرب کے وہ قلعے جن کی بنیاد اہانت رسول پر رکھی گئی تھی ریت کی دیوار کی طرح زمین بوس ہو رہے ہیں۔ دنیا میں سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتاب اگر کوئی ہے تو وہ قرآن ہے ابھی کل کی بات ہے کینیا کے صدر نے اسلام قبول کیا ،برطانوی سفیرسائمن کولس اسلام قبول کرکے لبیک اللھم لبیک کی صدائیں بلند کرتے نظر آئے ۔کیمبرج یو نیورسٹی کی اسلامک سٹیڈیز کی رپورٹ کے مطابق سالانہ پچاس ہزار انگریز اسلام میں داخل ہو رہے ہیں جبکہ ہر سال 20000 امریکی کفر کی تاریکیوں سے نور ہدی پاتے ہیں ،لاطینی امریکہ کی 50ملین آبادی میں سے 23لاکھ مسلم ہیں ،فرانس میں47لاکھ مسلمان موجود ہیں۔
اسلام کی اس پیشقدمی نے معاندین کو مادر پدر آزاد ثقافت اور بے روح کلچر کو بچانے کے لئے دفاعی سرحد پر لا کھڑا کیا ہے ۔فکری محاذ پر لڑی جانے والی اس صلیبی جنگ میں اہانت رسول مغرب کا سب سے بڑا ہتھیار ہے ۔مغربی ممالک میں حکمرانوں سے مذہبی پیشواوں تک،عسکری حلقوں سے لیکر ذرائع ابلاغ کے چغادریوں تک ،شوبز سے لیکر تدریس وادب اور قلم کے شہسواروں تک ہر ہر شعبے کے افراد کے دماغ میں اسلام کے خلاف نفرت اور زہر بھرا ہوا ہے ۔یہاں اسلام کی توہین کرنے والوں کو بھر پور تحفظ اور مالی معاونت دی جاتی ہیں۔ سلمان رشدی اور تسلیمہ نسرین سمیت گستاخان رسول مغربی ممالک کی میزبانی اور پروٹوکول کے مزے لوٹ رہے ہیں۔بھینسا،موچی ،کتا اور سور بھی اسی ترکش کے زہر آلود تیر ہیں جنھوں نے سوشل میڈیا کے ذریعے اہانت رسولۖکے ذریعے امت مسلمہ کے دلوں کو چیر کر رکھ دیا ہے ۔چند دن پہلے ان بلاگرز نے سوچے سمجھے منصوبے سے خود ساختہ اغوا کا ڈرامہ رچایا تو امریکہ سے لیکر پاکستان کی موم بتی مافیا کی آنٹیوں تک سبھی سیخ پا ہو گئے ۔سیکولرزم کے لولی پاپ سے بہلنے والے اینکرز نے بھی آسمان سر پر اٹھا لیا لیکن یہ بلاگرز ایک دم اپنی بلوں سے باہر آ گئے۔اس کے بعد حکومت کا یہ کام تھا کہ ان کو تحویل میں لے کر پوچھا جاتا مگر کسی کے سر پر جوں تک نہ رینگی اور حرمت رسول ۖجیسے حساس مسئلے پر انجان بن گئے ۔ہماری بدقسمتی ہے کہ یہاں قانون تو بن جاتے ہیں لیکن ان کا نفاذ لیت ولعل کا شکار ہو جاتا ہے۔
حرمت رسولۖ تو ایسا مسئلہ ہے کہ کمزور ایمان مسلمان بھی شعلہ جوالہ بن جاتا ہے پھر اہانت کا وتیرہ اپنانے والوں کے لئے شمع رسالت کے پروانوں کو غازی علم دین اور ممتاز قادری بننے میں ایک پل بھی نہیں لگتا۔کسی کی دل آزاری کرنا دنیا کا کوئی قانون اس کی اجازت نہیں دیتا ۔ایسے کئی دہشت گرد بلاگرز کو بنگلا دیش میں اہانت کے سبب کیفر کردار تک پہنچایا جا چکا ہے ۔ان میں سے ایک امریکی نژاد اویجیت رائے جو مکتو مونا نامی ویب سائیٹ کے آٹھ منتظمین میں سے ایک تھا ،اسلام اور پیغمبر اسلام کے خلاف توہین آمیز مضامین اور تبصرے لکھنا اس کا مشغلہ تھا ۔یہ جب بنگلہ دیش ایک کتاب میلے میں شرکت کے لئے آیا تو قتل کر دیا گیا اس کی ذمہ داری انصاراللہ بنگلہ سیون نامی تنظیم نے قبول کرتے ہوئے کہا کہ اشتعال انگیزی کرنے والے ایسے دیگر بلاگرز کا بھی یہی انجام ہو گا ۔اسی طرح ایک اور بلاگر سنیورالرحمن جس نے اپنا نام ناستک یعنی لا مذہب نبی رکھا ہوا تھا۔
Justice Shaukat Aziz Siddiqi
اسے بھی زہر آلود تحریروں کی بنا پر قتل کر دیا گیا ۔شاہ باغ موومنٹ بھی ایسے ہی بلاگرز کی مذہب دشمن تحریک ہے جس نے بنگلہ دیش کے اسلام پسندوں کو ایک کر دیا ۔نتیجتا 6اپریل کو دارالحکومت ڈھاکہ میں دس لاکھ افراد نے حفاظت اسلام مارچ کیا تو حسینہ کی حکومت نے ان پر گنوں کے دھانے کھول دیئے جس سے پندرہ افراد شہید اور ان گنت زخمی ہو گئے۔ پاکستان میں بھی اگربھینسا ،موچی ،کتا اور سور کے روپ میں چھپے ان بلاگرز کو قانون کی پکڑ میں نہ لایا گیا تو پھر لوگ خود ہی قانون بن جائیں گے جس سے نہ صرف ملک کا امن وامان داو پر لگے گا بلکہ پوری دنیا میں رسوائی کا سامنا کرنا پڑے گا ۔ان بلاگرز کی غلاظت نے تو جسٹس شوکت صدیقی جیسی شخصیت کو یہ کہنے پر مجبور کر دیا کہ جب سے میں نے ان توہین آمیز صفحات کو دیکھا ہے تو میں سو نہیں سکا ،میری جان ،والدین ،اولاد اور عہدے سب ناموس رسالتۖپر قربان ہیں۔
جسٹس شوکت عزیز ایک گھنٹے کی کارروائی کے دوران کئی بار آبدیدہ ہو گئے انہوں نے علمایء کرام سے اپیل کی کہ وہ نبیۖکی حرمت وتوقیر کے لئے مسلکی وفروعی اختلافات مٹا کر متحد ہو جائیں۔انہوں نے ان پیجز کو فورابند کرنے ،مستقل بندش اور اس کے ذمہ داران کے خلاف متعلقہ اداروں کو کارروائی کرنے کا حکم دیتے ہوئے وفاقی سیکریڑی داخلہ ،وفاقی سیکریڑ ی انفارمیشن و ٹیکنالوجی ،چیئرمین پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی ،ڈی جی ا یف آئی اے اور آئی جی اسلام آباد کو سات مارچ کو طلب کرکے اس بارے رپورٹ مانگی تھی لیکن صاحبان کے پاس دیگر امور کے لئے تو فرصت ہے مگر حرمت رسولۖ کے دفاع کے لئے وقت نہیں ۔عدلیہ نے جب چیئر مین پی ٹی آئی سے پوچھا کہ انہوں نے اس بارے میں کیا کارروائی کی ہے تو انہوں نے کہا ہم نے مذکورہ پیج بند کردیا ہے ۔اس پر طارق اسد ایڈوکیٹنے مذکورہ عدالت کو بتایا تمام پیجز ابھی تک چل رہے ہیں ۔حکومت کا تو فرض تھا کہ فی الفور ان پیجز کو بلاک کردیتی لیکن ہنوز دلی دور است کی روش پر کاربند حکومت نے نہ صرف انھیں بند کیا بلکہ ان کی وکالت کرنے کی ذمہ داری اٹھا رکھی ہے۔ لوگوں کو و یلنٹائن ڈے بہت یاد رہتا ہے ۔ انسانی حقوق بھی نظر آجاتے ہیں۔
جب قانون پر عمل نہیں ہوتا تو پھروہی کچھ ہوتا ہے جو سلمان تاثیر کے ساتھ ہوا ۔جسٹس صاحب نے سرکاری اداروں ، پولیس حتی کہ رد الفساد کے لیے پرجوش فوج کو مخاطب کرکے کہا نبی کریم اور اہل بیت اطہار کے بارے اتنا کچھ ہو لیکن آپ نے خاموش رہ کر اللہ کے بہت بڑے عذاب کو دعوت دی ہے۔ روزِ محشر کس طرح ساقی کوثرۖ سے شفاعت طلب کرو گے۔بلاگرزاور ان کے سہولت کارکس قدر مضبوط ہیں کہ ان کے ملک سے باہر ری سئیل ہونے تک نہ تو ایف آئی اے نے کچھ کیا اور نہ سینیٹ نے مذمتی قرارداد پاس کی،دوسری طرف عامر لیاقت نے اس موضوع پر بات کی تو ان کا پروگرام بند کردیا گیا۔حافظ محمدسعید جن کیخلاف ملک میں امن وامان خراب کرنے بارے کوئی جھوٹی رپٹ تک درج نہیں،کشمیریوں کی مسیحائی کے جرم میں مودی کی خوشنودی کی خاطر تخت لاہور کے قیدی ہیں۔
ہمارے ہاں اہا نت رسول پر قانون موجود ہے لیکن ہمیشہ سیکولروں کے دباو میں اس قانون کو ختم کرنے کی بات کی گئی مگر کسی نے ا س بات پر غور نہیں کیا کہ قانون کا مقصد اس اشتعال انگیزی کو رو کنا ہے جس کا سبب یہ گستاخ بنے ۔ گستاخوں اور حواریوں کی عجیب منطق ہے وہ اہانت بھی کرتے ہیں اور پھر حکومت سے اس کام کے کرنے پر تحفظ بھی طلب کرتے ہیں۔ گستاخی سے بڑا دنیا میں کوئی فتنہ نہیں اور اللہ تعالیٰ قرآن میں بھی کہتے ہیں کہ فتنہ اشد من القتل ہے اس کی بیخ کنی حاکم وقت پر فرض ہے ۔ فتنہ کے پروموٹرز ا اور لبرل فاشسٹوں سے پوچھا جائے کہ کیا نبیۖ کی توہین کا ارتکاب کرنا انسانی حقوق کی خدمت ہے ۔ آپ کی اہل بیت امہات المومنین کی توہین کیا انسانی حقوق کی خدمت ہے۔ کیا پاک فوج کے خلاف پراپیگنڈہ کرکے انڈیا کو مضبوط کرنا انسانی حقوق کے زمرے میں آتا ہے۔ آئی ایس آئی اور ملکی سلامتی کے ضامن اداروں کی کردار کشیکون سے حقوق انسانی ہیں۔
سوچنے کی بات ہے کہ ہماری نبی کی عزت ووقار اور احترا م ایک یہودی سے بھی کم تر ہے۔ اس کے احترام کے لیے تو یو این نے قانون سازی کررکھی ہے کہ کوئی ہو لو کاسٹ پر کچھ کہے تو عالمی قانون حرکت میں آئے لیکن اسلام کا ہر کوئی ہولو کاسٹ کرے تو اس کی یو این سے حوصلہ افزائی ہو۔ تف ہے ایسی یو این پر۔