کراچی ائر پورٹ حملے کے بعد مالدیپ کے صدر نے پاکستان کا اپنا دورہ منسوخ کردیا جبکہ متعدد فضائی کمپنیوں نے پاکستان کا سفربھی ختم کردیا اور سب سے بڑھ کر اس حملے کے بعد بیرونی دنیا میں ہماری جو بدنامی ہوئی اسکا کوئی شمار نہیں کیا جاسکتا ہماری بدبختی ہے کہ ہمیں آج تک کوئی بھی حکمران اور سیاستدان ایسا نہیں مل سکا۔
جو ملک و قوم سے مخلص ہوتا جو بھی آیا اپنے پروٹوکول میں اضافے اور اپنے خاندان کو سیاست میں پرموٹ کرنے کے لیے ہی آیا جو ایک بار الیکشن جیت گیا اسکے لیے پھر اسکے سپورٹر اور انوسٹر ہی سب کچھ بن جاتے ہیں حلقہ اور حلقہ کی عوام جائے بھاڑ میں اس سے کسی کو کوئی لینا دینا نہیں خاص کر ہمارے دیہاتی علاقوں میں تو وہاں کی منتخب شخصیات تھانہ کچہری کی سیاست سے باہر ہی نہیں نکلتی مخالفوں پر زمین تنگ کردی جاتی ہے اور اپنوں کو نوازنے کا سلسلہ شروع کردیا جاتاہے ان سیاستدانوں کی لوٹ مار کے نتیجہ میں یہی رحجان اب عوام میں بھی پایا جاتا ہے۔
جہاں جس کا دائو لگتا ہے وہی پر وہ اپنا کام دکھا جاتا ہے صبح سویرے گھروں میں دودھ دینے والے گوالے سے لیکر رات کی روٹی کھانے تک کوئی بھی چیز کا خالص ملنا ناممکن ہوچکا ہے ہماری سڑکوں پر اورتنگ بازاروں میں وہاں کے تاجر وں نے قبضہ جما رکھا ہے یہاں تک کہ انہی تاجروں سے خریداری کے لیے آنے والوں کے لیے بنایا ہوا فٹ پاتھ بھی قبضہ گروپوں کے پاس ہے جہاں سے وہ ہر ماہ لاکھوں روپے ناجائز کما رہے ہیں اور ان کو پوچھنے والا کوئی نہیں ملک کے کسی بھی کونے میں چلے جائیں آپ کو کھٹارہ قسم کی گاڑیوں کی بھر مار نظر آئے گی ایک ویگن میں چار سے پانچ تک گیس کے سلنڈر لگائے ہوتے ہیں اور محکمہ پھر بھی انہیں فٹنس سرٹیفیکیٹ جاری کردیتا ہے۔
مسافروں کو جھوٹ بول کر بٹھاکر پھر بھر پور انداز میں ذلیل ورسوا کردیا جاتا ہے گنجائش سے زیادہ سواریاں بٹھا کر ٹریفک پولیس کا سر عام منہ چڑاتے پھرتے ہیں مگر ٹریفک والوں کو سوائے موٹر سائیکل سواروں کے اور کچھ نظر ہی نہیں آتا ہر گلی محلے میں قانون کی دھجیاں یو آڑائی جارہی ہے جیسے ہمارے ہاں آئے روز کسی نہ کسی مقام پر کسی غریب خاندان کی لڑکی کے ساتھ گینگ ریپ کرکے اس خاندان کی دھجیاں آڑائی جاتی ہے۔
Dacoits
کوئی پوچھنے والا نہیں ہوتا گلی محلے سے لیکر پورے ملک میں چوروں اور ڈاکوئوں کا راج ہے ہماری جیلیں بھری پڑی ہیں ضرورت سے زائد ان میں قید ہیں ہر بڑھتے ہوئے دن کے ساتھ جرائم کی شرع میں بھی خطرناک حد تک اضافہ ہوتا جارہا ہے اور سب سے بڑھ کر جو ہمارے لیے خطرے کا باعث بنے ہوئے ہیں وہ طالبان نامی دہشت گرد ہیں جن کا جب اور جہاں دل کرتا ہے۔
گھس جاتے ہیں اور تباہی پھیلا کر پاکستان کو بدنام کردیتے ہیں اور ہمارے حکمران ابھی تک ان سے مذاکرات کا کھیل کھیلنا چاہتے ہیں اب فوری طور پر ان دہشت گردوں کے خلاف کاروائی کی جائے تاکہ مزید بے گناہوں کو ان کی درندگی سے بچایا جاسکے اور ان دہشت گردوں کی کاروائیوں سے ملک کی جو بدنامی ہو رہی ہے اس کو بھی ختم کیا جائے ملک میں قانون کی حکمرانی کے لیے ایسے اقدامات کیے جائیں کہ کسی کو غلط کام کرنے کی جرئات نہ ہوسکے مگر اس سے پہلے ہمارے لوگوں کو روزگار کے مواقع فراہم کیے جائیں ملک میں بجلی سمیت جو جو بحران ہیں انکا فوری خاتمہ کیا جائے کیونکہ جب تک لوگوں کو اپنی روزی روٹی کی فکر رہے گی اور روزگار بھی نہ ہوگا۔
تو فاقہ کشیوں سے مجبور لوگ غیر قانونی کام تو کریں گے ہی کیا ہی بہتر ہوتا کہ پاکستان کے حکمران اپنے آپ سے باہر نکلتے اور پاکستانیوں کے بارے میں سوچتے انکے بہتر مستقبل کے لیے کام کرتے اور انہیں ایک اچھی قوم بنانے کے لیے اپنی توانائیاں صرف کردیتے مگربدقسمتی سے ایسا نہ ہوسکا اب 23جون کو ڈاکٹر طاہر القادی پاکستان آرہے ہیں وہ اکیلے نہیں آرہے بلکہ انکے کاندھے پر بیٹھ کر ہر وہ سیاستدان ائر پورٹ سے باہر آئے گا جو مسلم لیگ ن کی حکومت کے خلاف ہے اور اس وقت ایسا لگتا ہے کہ خود مسلم لیگی بھی اپنی حکومت کے خلاف ہیں صرف وقت کے انتظار میں ہیں کہ کب انہیں اپنا غبار نکالنے کا موقعہ ملتا ہے جون کے گرم مہینے میں سیاست کا جو گرم کھیل شروع ہونے جارہا ہے۔
اب یہ گرما گرمی کے بغیر ختم نہیں گا کیونکہ عوام تو گھروں میں بھی تنگ بیٹھے ہیں اب گھروں سے باہر نکل کر تماشہ اہل کرم دیکھیں گے اور جو روزی روٹی کے ہاتھوں تنگ درد بدر ہیں انکا بھی ایک سلسلہ روزگار چل پڑے گاگرمیوں کی گرم دھوپ میں سردیوں کے مزے لینے والوں اور انکے حواریوں کا اب امتحان شروع ہونے والا ہے کہتے ہیں کہ جنگ اور محبت میں سب جائز ہے پاکستان میں محبت کرنے والوں نے تو اسکا متعدد بار مظاہر ہ بھی کیا ہے اب حکومت اور حکومتی ٹیم کے ساتھ جو جنگ شروع ہونے جارہی ہے اسکا انجام کیا نکلے گا امید ہے اس کے لیے سردیوں کا انتظار نہیں کرنا پڑے گا۔