حسن اخلاق

Husan e Ikhlaq

Husan e Ikhlaq

تحریر : بائو اصغر علی

ہم بچپن میں بزرگوں سے سنا کرتے تھے کہ کر بھلا سوہو بھلا اس زمانے میں تو ہم یہ الفاظ ہوا میں ہی اڑا دیا کرتے تھے مگر آج شباب کے اس دور میں یہ معلوم ہوا کہ یہ الفاظ ہماری روز مرا زندگی کا ایک خاص پہلو ہیں ،مثال کے طور پر اگر آپ کا حسن اخلاق اچھا نہیں اور آپ کسی کو بلا وجہ گالی دیں تو لازم ہے کہ وہ آپ پر بھڑکے گا ،برا بھلا کہے گا ،،اگر آپ کا اخلاق اچھا ہے آپ کسی سے حسن اخلاق سے پیش آتے ہیں تو ہر کوئی آپ کی عزت کرے گا ،اچھے لفظوں میں یاد رکھے گا ،جس کے ساتھ آپ حسن اخلاق سے پیش آئے ہو نگے اس شخص سے آپ کا زندگی کے کسی موڑ پہ بھی سامنا ہو جائے تو وہ آپ کو خوش دلی سے ہی ملے گا ،ازل سے یہی ہوتا آرہا ہے ایسی بہت سی مثالیں ہیں۔

ہر پہلو سے انسان کی شخصیت کا اندازہ اس کے اخلاق سے لگایا جا سکتا ہے ،ظاہر ہے ہمارا اخلاق اچھا ہوگا تو ہم اپنے بڑوں کی بزرگوں کی عزت کرینگے ان کا ادب کرینگے تو کل آنے والے وقت میں ہماری بھی عزت کی جائے گی ہمارا بھی ادب کیا جائے گا ،اگر ہم کسی کے بچوں سے پیار ،محبت ،اخلاق سے پیش آئینگے تو کوئی ہمارے بچوں سے بھی پیار ،محبت ،اخلاق سے پیش آئے گا، ازل سے یہ قانون ہے کہ کر بھلا سوہو بھلا یہ سب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے ،حسن اخلاق سے مراد نیک خو اور اچھی خصلت ہے۔ مسلمان کے لئے عمدہ اور حسن اخلاق کا مالک ہونا بہت ضروری ہے۔

اخلاق حسنہ میں عفو و درگزر، صبر و تحمل، قناعت و توکل، خوش خلقی و مہمان نوازی، توضع و انکساری، خلوص و محبت، جیسے اوصاف قابل ذکر ہیں۔ حْسن خلق کی بڑی علامت یہ ہے کہ جب کسی پر غصہ آئے اور اسے سزا دینا چاہے تو نفس کو ہدایت کرے کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے ،”وَالکَاظِمِینَ الغَیظَ وَالعَافِینَ عَنِ النَّاسِ”اور غصہ ضبط کرنے والے ہیں اور لوگوں سے (ان کی غلطیوں پر) درگزر کرنے والے ہیں۔”آل عمران، 3 : 134”مگر افسوس کہ آج ہم دنیا کی افرا تفری کے ہجوم میں اخلاقیات کا دامن چھوڑ چکے ہیں ہمیں نہ بڑوں کے ادب کی تمیز رہی ہے نا چھوٹوں سے شفقت کی ،ہمارے پاس کاروباری اور سیاسی باتیں کرنے ،فحش گفتگو اور رشتہ داروں کو برابھلا کہنے اور غیر اسلامی رسوم کا اہتمام کرنے کے علاوہ کوئی کام نہیں ہے۔

معاشرے میں جہاں اور بہت سی خرابیا ں عام ہیں وہاں اس عظیم نعمت کا فقدان بھی روز مرہ کا مشاہدہ ہے۔آئے دن قتل و غارت گری ،لسانیت و قومیت کی گہماگہمی،ظلم و ستم کی گرم ہوائیں معاشرے کے وہ ناسور ہیں جو بد اخلاقی کے سبب فروغ پارہے ہیں،اے اللہ کے بندوں !آدمی کو صرف نماز اور روزوں کی وجہ سے نہیں پرکھاجاتا بلکہ اس کے اخلاق اور عادات کو بھی دیکھا جائے گا،عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ:آپ ۖ بے ہودہ گفتگو کرنے والے نہیں تھے ،آپۖ کہا کرتے تھے کہ:”تم میں سے بہتر وہ ہے جس کے اخلاق اچھے ہوں”۔زراغور کرو کہ جب اللہ پاک اور اس کے پیارے محبوب ۖ بد اخلاق کو پسند نہیں فرماتے تو پھر بد اخلاق انسان کسی اور کو کیسے پسند آسکتا ہے۔

یہ جو وقت جا رہا ہے اس میں عام طور پر لڑائی جھگڑے دیکھنے میں آتے ہیں،یہ سب بد اخلاقی کا نتیجہ ہے جب گھر میں بڑے بد اخلاق ہوتے ہیں تو اس کااثر بچوں پر پڑتا ہے پھر بچے بھی بد اخلاق ہونا شروع ہو جاتے ہیں یہ ریت آگے آنے والی نسلوں پر اثر کرنا شروع ہو جاتی ہے ، بیوی کی اپنے شوہر سے بد اخلاقی شوہر کی بیوی سے بد اخلاقی ہر دوسرے گھر میں بربادی کا باعث بنی ہوئی ہے ،ہر میاں بیوی میںپیار و محبت حسن اخلاق کا ہونا بہت ضروری ہے بلکہ ایک بیوی کے لیے اپنی عاقبت بنانے اور خدا کو خوش کرنے کا بھی یہی ذریعہ ہے ،اورمرد حضرات بھی اس بات کو اچھی طرح ذہن نشیں کرلیں کہ بیشک مرد عورت کے لئے قوام یعنی امیر کی حیثیت رکھتا ہے لیکن ساتھ ہی دونوں کے درمیان دوستی کا بھی تعلق ہے۔

یعنی انتظامی طور پر تو مرد قوام یعنی امیر ہے لیکن باہمی تعلق دوستی جیسا ہے، ایسا تعلق نہیں ہے جیسا مالک اور نوکرانی کے درمیان ہوتا ہے،حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” مومنوں میں کامل ترین وہ ہے جو سب سے زیادہ حسن اخلاق والا ہو اور تم میں سب سے زیادہ بہتر وہ ہے جو اپنی عورتوں کے لیے بہتر ہے۔” (ابن ماجہ )یاد رکھیں ، میاں بیوی کی چپقلش و بد اخلاقی گھر کو جہنم بنادیتی ہے، جس میں وہ خود بھی جلتے ہیں اور اولاد کو بھی جلاتے ہیں، یاد رکھو حسن اخلاق سے گھریلو زندگی بھی خوشگوار بن جائے گی اور عام زندگی کے پہلو میں بھی خوشگواری او استواری پیدا ہو گی ، دعا ہے کہ اللہ پاک ہمیں حسن اخلاق سے زندگی گزارنے کی توفیق عطاء فرمائیں ،آمین۔

Bao Asghar Ali

Bao Asghar Ali

تحریر : بائو اصغر علی