انسان کو اللہ تعالیٰ نے کمزور پیدا کیا ہے۔ انسان اچھائی اور برائی کا مجموعہ ہے۔نفس ،جاہ جلال، دولت ،قومیت اورنہ جانے کون کون سی کمزرویاں اور خوبیاں ہیںجو انسان سے غلط اور صحیح کام کرواتیں ہیں۔ یہی باتیں ہمارے سیاستدانوں ، فوجیوں اور بیروکریٹس میں بھی ہیں۔ مگرناپسندیدہ شخصیتوں نے بڑے بڑے اچھے کام بھی کیے ہیں۔کچھ غلطیاں بھی کی ہیںجس سے ان کی ملی جلی شخصیت بن جاتی ہے۔
پاکستان اسلام کے نام سے بنا تھا یہی اس کی اساس ہے۔ بانی پاکستان حضرت قائد اعظم محمد علی جناح نے کلمہ” لا الہ الا اللہ” کی بنیاد پرجمہوری اور پر امن جد وجہد سے پاکستان حاصل کیا تھا۔بھٹو نے اس سے انحراف کر کے سوشلزم کا پرچار کیا۔
اگر آج ہم(مرحوم) ذوالفقار علی بھٹو سابق وزیر اعظم پاکستان کی بات کریںتو بھٹو پاکستان کے مشہور و معروف سیاسی لیڈر رہے ہیں۔بھٹو١٩٥٨ء میںاسکندر مرزا کی کیبنٹ میں وزیرتجارت بنے ۔١٩٦٠ء میں ایوب خان کی کیبنٹ بجلی اور پانی کے وزیر بنے۔ پھر١٩٦٣ء میں وزیر خارجہ بنے۔ ڈکٹیٹر ایوب خان کی حکومت میں اہم عہد دوں پر فائز رہے ہیں۔جذباتی مزاج پایا تھا۔بہترین مقرر تھے۔
کیمونزم سے متاثر تھے۔ ١٩٦٥ء کی بھارت پاکستان سترہ دنوں کی جنگ کے خاتمے کے پر ایوب خان اور شاستری کے درمیان روس کے شہر تاشقند میں جنگ بندی کا ایک معاہدہ طے پایا تھا۔اسی پاک بھارت تا شقند معاہدے کو بنیاد بنا کر ایوب خان سے الگ ہو کر پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی۔ غریب عوام کو روٹی، کپڑا اور مکان دینے کا نعرہ دیا۔ جمہوریت ہماری سیاست، اسلامی سوشلزم ہمارے معیشت کی بات کی ۔ معاشرے کے نچلے درجے کو سیاسی شعور دے کر ان میں مشہور ہوئے۔بھٹو کے نعرے غریب عوام میں مقبول ہو ئے مگر کہ غریب عوام کی حالت آج تک ویسی کی ویسی ہے۔ بھارت سے ہزار سال جنگ لڑنے کی بات کی۔ گھاس کھائیں گے مگر ایٹم بم ضرور بنائیں گے کی بات کی۔
بھٹو کے کچھ کارناموں سے لوگ ناراض بھی ہوئے۔ حتہ کہ ان کے خلاف کتابیں بھی تحریر کی گئیں۔مثلاًاُدھر تم اِدھر ہم۔قومی اسمبلی کے ارکان کو مخاطب کر کہا کہ جو مشرقی پاکستان جائے گا اس کی ٹانگیں توڑدوںگا۔ اقوام متحدہ میں پولینڈ کی جنگ بندی کی قرارداد کو پھاڑ دینا اور سیشن میںپیش نہ کرنے دینا اور ڈرامائی انداز میں اجلاس سے اُٹھ کر چلے جانا۔کچھ حلقوں کا خیال تھا کہ قرارداد پیش ہونے پر اقوام متحدہ جنگ بندی کراتی ۔پاکستان کی فوج کو ہتھیار نہ ڈالنے پڑتے اور پاکستان نہ ٹوٹتا۔ اقوام متحدہ کچھ نہ کچھ فیصلہ تو کرتی نا!۔ پیپلز پارٹی کے دور میں بھٹو کی ہدایت پر سکھوں کی لسٹیں بھارت کو فراہم کر دی گئیں ۔بھارت نے چن چن کے بھارت سے علیحدہ ہونے والوں خالصتان کے کارکن سکھوں کو ختم کیا۔
۔بھٹو کے دور میں فحاشی پھیلی۔ ایوب خان کے دور میں لگائیں گئیں، ترقی کی منازل طے کرتی ہوئیں صنعتیں اور تعلیمی ادارے قومیائے گئے۔ اس سے پاکستانی کرنسی ڈی ویلیو ہوئی اور ترقی کی دوڑ روک گئی۔سیاسی مخالفوں کے ساتھ ظلم زیادتی اور قتل کے واقعات ہوئے ۔تاریخ کا پہلا سولین ،فوجی مارشل لاء ہیڈ منسٹریٹربننا وغیرہ۔مشہور ہو گیاکہ بھٹو نے اقتدار کی لالچ میںملک کوتوڑ دیا۔پاکستان میں اسلامی نظام کے لیے جدو جہد کرنے والے بھٹو کے روشن خیالی اور سوشلٹ نظریات کی وجہ سے مخالف تھے۔ بائیں بازو کی سیاست کرنے والے اور قوم پرست بھی بھٹو کے مخالف تھے۔جبکہ ملک کے روشن خیال ، سوشلسٹ اورسیکولر حضرات اور پیپلز پارٹی کے کارکن بھٹو کو پسندکرتے تھے۔
بھٹو کے کارنامے بیان کریں تو بھٹو نے پاکستان میں شراب پر پابندی لگائی۔ جمعہ کی چھٹی منظور کی ،جسے نواز شریف نے اپنے دور میں ختم کی۔ بھٹو نے پاکستان میں دوسری اسلامی سربرائی کانفرنس منعقد کرائی۔ بھٹو نے پاکستان کے ازلی دشمن بھارت کو کشمیر بارے للکارکر کہا کہ ہم کشمیر کی آزادی کی جنگ ہزار برس لڑیں گے۔ بھٹو نے ایٹم بم کی بنیادرکھی اورکہا کہ ہم گھاس کھائیں مگر ایٹم بم ضروربنائیں گے۔ الحمد اللہ پاکستان نے ایٹم بم بنایا جس سے پاکستان محفوظ ہو گیا۔ مسلم لیگ اقتدار میں رہتے ہوئے پاکستان کا آئین نہ بنا سکی ، بلکہ وازرتیں بدلتی رہی۔ اس پر پاکستان کے ازلی دشمن بھارت کے وزیر اعظم نہرو نے طنزیہ کہا تھا کہ میںاتنی دھوتیاں نے بدلتا جتنی پاکستان میں وازاتیں بدلتیں ہیں۔ ١٩٥٦ء کا آئین بنا تو ڈکٹیٹر ایوب خان نے مارشل لا ء لگا کر اس آئین کو توڑ دیا پھر ١٩٦٢ء کا عبوری آئین دیا۔ بھٹونے اپنے دور حکومت ١٩٧٣ء میںپاکستان کی تاریخ کا متفقہ اسلامی آئین دیا۔ بڑی بات کہ اس آئین میں ایک شک رکھی گئی کہ جو کوئی بھی پاکستان کے اس آئین کو توڑے گا وہ پاکستان سے غداری کا مرتکب ہو گا اور غدار کی سزاپھانسی ہے۔ پاکستان کی قومی زبان اُردو کو سرکاری زبان بنانے کی دفعہ آئین میں رکھی۔ آج تک یہی اسلامی آئین چل رہا ہے۔
بیچ میں دو ڈکٹیٹروں،ضیاا لحق اور پرویز مشرف نے مار شل لا لگائے مگر آئین کو توڑا نہیں صرف معطل کیا۔اس آئین میںایک اسلامی نظریاتی کونسل بھی بنی ۔اسلامی نظریاتی کونسل کا کام حکومت کومشورے دینا ہے تاکہ آئین میں جنتی بھی غیر اسلامی دفعات ہیں اُنہیں ایک ایک کر کے درست کرنا پھر پارلیمنٹ میںقانون سازی کرکے ختم کرنا۔ سارے حکمرانوں نے اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات پر عمل نہیںکیا۔بھٹو کی سب سے اچھی بات بلکہ کارنامہ، جو اسلامی دنیا میں ہمیشہ یاد رکھنے اور جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے وہ مسلمانوں کے اندر ایک ناسور، جو یہودی، انگریز اور ہنود کی پلائنگ پر مسلمانوں کے سینے میں خنجرکھونپ کر مرزا غلام احمد قادیانی کو نئی نبوت کے ساتھ کھڑا کیا تھا۔تا کہ مسلمانوں کے دلوں میں سے جہاد فی سبیل اللہ کو ختم کیا جائے۔ قادیانیوں کو آئینی طور پر پاکستان میں غیر مسلم قرار دیا اور قادیانی اقلیت قرارپائے۔بھٹو اس کارنامے پر جتنا بھی فخر کرے کر سکتا ہے۔
کسی کتاب میں پڑھا ہے کہ بھٹو نے اپنے رب سے دعا کی تھی کہ شاہد میرے اس عمل سے ہی اللہ راضی ہو کر میری مغفرت کر دے۔بھٹو کے جانشینوں کا دعویٰ ہے بھٹو کو عدالتی کاروائی سے قتل کرایا گیا۔اس میں کتنی حقیقت ہے۔یہ تو غیر جانبدارامورخ ہی طے کرے گا۔ایک یہ بھی رائے تھی کہ اگر بھٹو اپنے کیس کوسیاسی طریقے سے لڑنے کے بجائے ،قانون کو سامنے رکھ کر لڑتے تو شاہد کوئی دوسری صورت ہوتی۔بھٹو نے اپنا مقدمہ سیاسی بنیاد پر لڑا۔ شاہد مخالفوں کے دلوں میں خوف کی وجہ سے ایسا فیصلہ ہوا۔کچھ بھی ہو اس سے ملک کا کافی نقصان ہوا۔ بھٹو کے بڑے بیٹے (مرحوم)میرمرتضےٰ بھٹو نے دہشت گرد تنظیم” الذوالفقار ” بنا کرپاکستان میں دہشت گردانہ کاروائیاں کی۔
اے کاش کہ پاکستان کے سارے لوگ پرانی باتیں بھول کر، یک جان ہوجائیں اور پاکستان کو بچانے اور پاکستان کے ازلی دشمن کی دھمکیوں کامقابلہ کرنے کی تیاریاں کریں اور کشمیر کو بھارت سے آزاد کرا کے پاکستان کے نامکمل ایجنڈے کو مکمل کریں تاکہ تکمیل پاکستان ہو۔ یہ پاکستان ہے تو ہم اور ہیں ہماری سیاست بھی ہے۔یہی اسلام کی تعلیمات ہیں۔ اللہ پاکستان کی حفاظت فرمائے آمین۔