اسلام آباد (اصل میڈیا ڈیسک) تبدیلی کا آغاز اگلے ہفتے سے شروع ہو سکتا ہے، اپوزیشن کے تعاون سے پنجاب کی وزارت اعلیٰ پرویز الٰہی کی جیب میں موجود ہے جب کہ پی ٹی آئی کا کہنا ہے کہ باتیں ہوا ہوجائیں گی، پنجاب اور مرکز میں 5 سال پورے کر کے دوبارہ آئین گے۔
تفصیلات کے مطابق گزشتہ چند دنوں سے اس بحث نے شدت پکڑ لی ہے کہ جلد حکومت تبدیل ہونے والی ہے۔
بار بار یہ کہتے ہیں کہ وہ عمران خان کی حکومت کو گرانے میں کوئی کردار ادا نہیں کریں گے اور یہ بات سچ بھی ہے چوہدری پرویز الٰہی کی جماعت کا مرکز میں اتحاد چھوڑنے کا کوئی ارادہ نہیں یا کم از کم عمران خان کے خلاف کسی تحریک کا حصہ بننے کا اور وہ زبان کے پکے رہیں گے مگر چوہدری پرویز الٰہی نے وزیر اعلیٰ بننے کی تیاری مکمل کرلی ہے اور وہ واسکٹ جو وہ پہنتے ہیں اس میں مسلم لیگ ن کے بازو لگ کر اسے جلد شیروانی میں تبدیل کرنے والے ہیں۔
تیاری 100فیصد مکمل ہے اور کسی بھی لمحے پنجاب میں وزیر اعلیٰ کے خلاف تحریک عدم اعتماد آسکتی ہے کیونکہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کی تبدیلی کا مطالبہ نہ صرف اپوزیشن کررہی ہے بلکہ اتحادی اور پی ٹی آئی کے بھی متعدد ارکان کررہے ہیں اور وفاقی وزیر فواد چوہدری کے وزیراعلیٰ پنجاب کے متعلق دیے گئے بیان کے بعد مطالبے میں شدت آگئی ہے۔
ذرائع نے بتایا ہے کہ مقتدر حلقے بھی ایسا چاہتے ہیں کیونکہ عثمان بزدار ابھی تک سیکھنے کے مراحل میں ہیں اور پنجاب کی حالت بدترین ہوتی جا رہی ہے، ہمیں مسلم لیگ ق کے انتہائی اہم عہدیدار نے بتایا کہ اب پانی سر سے اونچا ہوچکا ہے پنجاب کےعوام تنگ آچکے ہیں اور وہ چوہدری پرویز الٰہی کی طرف دیکھ رہے ہیں کہ انہیں اس عذاب سے نجات دلائی جائے ، راقم اپنی پچھلی اسٹوری میں بتاچکا ہے کہ اپوزیشن کو پنجاب حکومت تبدیل کرنے کے لیے صرف 12ووٹ درکار ہیں۔
جو چوہدری پرویز الٰہی کے 10 اور اوکاڑہ سے جگنو محسن جو کہ معروف صحافی نجم سیٹھی کی بیگم ہیں اور ملتان سے قاسم عباس کو ملاکر سادہ اکثریت بن جاتی ہے اور بدلے میں پرویز الٰہی وزارت اعلیٰ کے حق دار قرار پائیں گے، اس وقت 368 کے ایوان میں حکومت کے 195اور اپوزیشن کے 173ووٹ ہیں،ان ہی رہنما نے بتایا کہ مسلم لیگ ن کے ساتھ جو بات چیت چل رہی ہے اس کے مطابق وزیر اعلیٰ ہمارا ہوگا۔
جبکہ اسپیکر اور سینئر وزیر ن لیگ سے ہوگا اور دونوں مل کر صوبہ چلائیں گے، پیپلز پارٹی بھی اتحاد کا حصہ ہوگی تاہم بلاول بھٹو وزارتوں میں دلچسپی نہیں رکھتے، جب ہم نے ان سے پوچھا کہ کیا جن جناتی حلقوں کی طرف شیخ رشید بار بار اشارہ کرتے ہیں وہ ایسا ہونے دیں گے تو انہوں نے کہا یہ اور کچھ نہیں بس پروپیگنڈہ ہے جو کہ اُن حلقوں کو بدنام کرتا ہے اور دوسرے عثمان بزدار کو خان صاحب نے اس لیے بٹھایا ہوا ہے کہ کوئی دوسرا قابل آدمی اگر وزیراعلیٰ بنتا ہے تو اس کی قابلیت عمران خان کی شہرت میں حصہ دار بن جائیگی جو کہ خان صاحب نہیں ہونے دیں گے۔
آپ دوسرے اور مرکزی عہدیدار دیکھ لیں سب کے سب وہ لوگ ہیں جو عوامی مقبولیت حاصل نہ کرسکے ایک اسد عمر تھے تو ان کی وزارت واپس لیکر انہیں بھی بدنام کیا گیا، فواد چوہدری نے تھوڑی شہرت حاصل کی تو وہ بھی بغیر کسی وجہ کے بدل دیے گئے۔
جہانگیر ترین صاحب تو پہلے ہی فارغ کردیے گئے۔ مسلم لیگ ن کا اس پر موقف یہ ہے کہ ہم پنجاب کی ترقی کے لیے کسی کا بھی ساتھ دینے کو تیار ہیں اور شہباز شریف نے ایک نہیں بلکہ کئی دفعہ وزیر اعظم کو اس سلسلے میں رہنمائی کے لیے تعاون کی پیشکش کی۔
انہوں نے کہا کہ شہباز شریف جب اپنے ہاتھوں سے کھڑے کیے گئے پنجاب کی تباہی دیکھتے ہیں تو خون کے آنسو روتے ہیں اور اس تباہی کو روکنے کے لیے وہ کسی سے بھی ہاتھ ملانے کو تیار ہیں۔
ایک معروف تجزیہ کار نے اسے مسلم لیگ ن کا تُرپ کا پتہ قرار دیا اور کہا کہ اب وقت آنے پر اس کو استعمال کررہے ہیں اور کہا کہ اگر عمران خان کی حکومت مرکز میں برقرار رہتی ہے اور پنجاب میں نہیں تو عمران خان کے پاس پنجاب میں اپوزیشن کرنا ناممکن ہوجائےگا بالکل ایسے ہی جیسے 2008 کے انتخابات کے بعد مسلم لیگ ن اور پی پی کے درمیان ہوا تھا اور شہباز شریف نے اپنی مدت پوری کی تھی۔
معلوم ہوا ہے کہ مسلم لیگ کے دونوں دھڑوں کے درمیان پُل کا کردار ایک تیسری پارٹی کے سربراہ نے کیا ہے جو کسی بھی حال میں پی ٹی آئی کی حکومت کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔ پیپلز پارٹی کا کہنا ہے کہ بظاہر دیوانوں کا خواب لگنے والی ان باتوں کی اگر حقیقت کا جائزہ لیا جائے تو ثابت ہوتا ہے کہ پنجاب میں جلد بڑی تبدیلی آنے والی ہے اور اگر وزارت اعلیٰ کو جیب میں رکھ کر گھومنے والے پرویز الٰہی پی ٹی آئی سے راضی بھی ہوجاتے ہیں تو کس قیمت پر یہ ایک بڑا سوال ہے جس کا جواب جلد مل جائے گا۔
پی ٹی آئی کا کہنا ہے کہ یہ سب باتیں جلد ہوا ہونے والی ہیں اور ہم مرکز اور پنجاب دونوں جگہ نہ صرف 5سال پورے کریں گے بلکہ دوبارہ بھی آئیں گے۔