تحریر: انجینئر افتخار چودھری البتہ اس خبر پر ہم خوش ہیں کہ ریحام انٹرا پارٹی الیکشن لڑیں گی۔اس سے پاکستان کی خواتین پارٹی کے ورکرز بھی خوش اور چودھری پرویز الہی بھی خوش ہو جائیں گے۔اس لئے کے انتحابات کے نتیجے میں پرویز الہی صاحب کو ان کے بچھڑے ساتھی اور تحریک انصاف کو ٣٠ اکتوبر والے پیارے مل جائیں گے۔ بات کو آگے بڑھانے سے پہلے بتاتا چلوں کا میرا بنیادی تعلق موضع نلہ سے ہے جو یونین کونسل جبری کا ایک بڑا گائوں ہے۔
جبری شاہ مقصود لورہ روڈ پر ہرو ندی کے کنارے واقعہ ہے۔١٦ اگست کے روز ایک انتحابی معرکے میں تحریک انصاف کے راجہ عامر زمان ایک نو آموز نوجوان جس نے تھوڑا عرصے پہلے نون لیگ میں شمولیت اختیار کی تھی بلکہ ان کے بڑے بھائی ابھی تک کسی اور پارٹی میں شامل ہیں سے شکست کھاگئے۔اس نوجوان بابر نواز خان نے کہنہ مشق راجہ عامر زمان کو شکست فاش دے دی۔راجہ عامر اس علاقے کے ایک بڑے جاگیر دار راجہ جارج سکندر زمان کے بڑے بیٹے ہیں۔مزے کی بات ہے ان کے چھوٹے بھائی راجہ فیصل زمان نون لیگ کے ایم پی اے ہیں۔اس کالم کو پڑھنے سے پہلے میں چاہوں گا کہ آپ کو اس علاقے کی ان فیمیلیز سے مختصرا تعارف کرا دوں جو پاکستان بننے سے لے کر ہری پور کی سیاست میں متحرک رہی ہیں۔ان میں سر فہرست راجہ فیملی ہے خانپور سے تعلق رکھنے والی فیملی علاقے کا واحد جاگیردار گھرانہ ہے گرچہ کوٹ نجیب اللہ کے گجروں کی جائداد ان سے زیادہ ہے مگر انگریز دور کے روائتی جاگیر دار خاندانوں میں کیانی گکھڑوں کا نام سب سے آگے ہیں راجہ ایرج زمان مرحوم جو راجہ شیراز حیدر کے والد ہیں وہ کیانی شاخ کے بڑوں میں سے تھے۔
راجہ سکندر زمان نے اپنے دور اقتتدار میں مختلف ذمہ دارانہ کرسیوں کا مزہ چکھا وہ ١٩٧٠ کے انتحاب میں قیوم لیگ کے ٹکٹ پر منتحب ہوئے بعد میں وزیر پانی و بجلی بھی بنے گورنر سرحد بھی رہے اور نگران وزیر اعلی بھی۔دوسری بڑی فیملی ریحانہ کے ترینوں کی ہے جن کی ابتداء ایوب خان سے ہے۔ایوب خان نے اپنی ذاتی لیاقت سے لوہا منوایا۔ان کے بعد ان کے صاحبزادے گوہر ایوب خان وزیر خارجہ بھی رہے اور سپیکر بھی بنے۔ان کے بھائی کیپٹن اختر ایوب بھی علاقائی سیاست میں نام کماتے رہے۔ایوبی فیملی کے انتہائی متحرک اشخاص میں دو آدمیوں کا نام سر فہرست ہے عمر ایوب اور ان کے چچا زاد یوسف ایوب ۔دونوں کزنز اپنے طور پر اپنی ذات میں بڑی ذہانت اور فطانت کے مظہر ہیں۔
Election
راجہ اور ترین فیملی کے درمیان ایک تیسری فیملی گجر فیملی ہے جو اس علاقے کی اکثریتی برادری ہے جو پیر سوہاوہ ٹاپ کے گائوں نیلاں بھوتو سے لے کر سری کوٹ کے قدموں میں واقعہ گدوالیاں تک پائے جاتے ہیں۔اس گھرانے کے پہلے اور تگڑے لیڈر مرحوم مختیار احمد گجر تھے جو پیپلز پارٹی کی فیڈر ل کونسل کے ممبر بھی رہے ہیں اس گھرانے نے راجہ فیملی کا مقابلہ کیا اور ١٩٧٩ کے انتحابات میں پنجہ آزمائی کی بعد میں ١٩٨٨ میں جسٹس اطہر من اللہ کی والدہ بیگم بلقیس من اللہ کو قومی اسمبلی اور خود صوبائی اسمبلی کا الیکشن لڑوایا اور لڑا۔یہاں میں میں ان لوگوں کو مطلع کرنا چاہتا ہوں جو ریحام خان کے الیکشن میں مدد کرنے کو شکست کا باعث سمجھتے ہیں اور اس علاقے کو دقیانوسی خیالات کا حامل کہتے ہیں کہ لوگوں نے ایک عورت کو نا پسند کیا ہے۔بیگم بلقیس نے اس وقت ٢٢٠٠٠ ووٹ حاصل کئے جب عمر اصغر خان نے ١٦٠٠٠ ووٹ حاصل کئے تھے۔اور یہ بات بھی نوٹ کر لیں کہ ہری پور کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ اس کے ایک گائوں ٹھپرا کی تعلیمی حالت پاکستان بھر سے بہتر رینگ رکھتی ہے اس شہر بے مثال نے پاکستان کو ٹیلیفون انڈسٹریز اور ایشیا کی سب سے بڑی انڈسٹریل اسٹیٹ حطار بھی دے رکھی ہے قتیل شفائی اسی شہر کے باسی ہیں۔
میں یہاں اس شہر کے سیاسی خاندانوں کی بات کر رہا ہوں نلہ کے گجروں نے بڑے متحرک سیاسی لیڈران دیے ہیں جو ان دو خاندانوں کے درمیان راستہ بنا رہے ہیں۔حال ہی میں اسی گھرانے نے ڈسٹرکٹ ہری پور اسمبلی کے لئے جبری کے راجائوں کو ہرا کر فتح اپنے نام کی ہے۔گجروں میں ہی سے کوٹ نجیباللہ کے سردار مشتاق قومی اسمبلی کادیدار کر چکے ہیں سردار مشتاق نے سیٹ نون لیگ کے ٹکٹ سے جیتی بعد میں پیپلز پارٹی میں چلے گئے اور اب جب الیکشن کا ڈھول ڈلا تو وہ ایک بار پھر نون میں شامل ہو گئے۔ترین اور راجہ گھرانے جو مل کر بھی اس علاقے کے پانچ فی صد نہیں ہے نے اپنے پنجے اس قدر گاڑ رکھے تھے کہ لوگوں کے پاس کوئی دوسری چائس ہی نہیں تھی۔حبس اور گھٹن کی فضا میں انہوں نے ایک ایسا فیصلہ جو آنے والے دنوں میں علاقے میں بد امنی کا باعث ہو گا۔مزے کی بات دیکھئے نون لیگ میں ترین فیملی کے گوہر ایوب،عمر ایوب اور دوسری جانب دوسرے گھوڑے پر انہی کی فیملی کے یوسف ایوب اور اکبر ایوب تحریک انصاف کی لگامیں تھامے ہوئے تھے مزید بھی جان لیجئے خانپور کے راجہ عامر زمان تحریک انصاف کے مرکزی ڈپٹی سیکریٹری جنرل اور ان کے چھوٹے بھائی راجہ فیصل زمان نون لیگ کے ایم پی اے ہیں۔
PML Q
خانپور کے اپر علاقے کی صورت حال سن کر آپ حیران ہو جائیں گے کہ اب بھی لوگ موئن جو دڑو دور میں زندہ ہیں۔علاقہ ببھوتری میں ہرو کے پار جانے کے لئے رسوں کا پل تک نہیں ہے۔ہر سال پانچ چھو لوگ برسات میں اس بے رحم ندی کی نظر ہوتے ہیں۔لوگوں کو اپنے پیاروں کی لاشیں تک نہیں ملتی۔ایک سڑک جو نجف پور سے ببھوتری جاتی ہے اس کی حالت ١٩٨٨ والی حالت سے بھی بد تر ہے۔ترناوہ ہلی کوہالہ روڈ کی حالت لفظوں میں بیان نہیں کی جا سکتی۔یہ کے پی ٤٩ کی صورت حال ہے۔
اس بات کو مان لینا چاہئے کہ جو دکھتا ہے وہ بکتا ہے پٹواری، تھانہ کلچر اسکول صحت اپنی جگہ لوگ اپنوں سے ملنے کے لئے راستہ مانگتے ہیں۔سڑک بنائیے سڑک چاہے میٹرو ہی کیوں نہ ہو۔ لوگ ان دو خاندانوں کی سننے کے لئے تیار نہیں ہیں اس میں کوئی شک نہیں کہ یوسف ایوب نے اس الیکشن میں جان لڑا دی ہے اور بلدیاتی الیکشن میں بڑی کامیابی حاصل کی ہے۔لیکن یہ امر مد نظر رہے کہ یوسف کا سیاسی مکتب فکر جہانگیر ترین والا ہے انہوں نے الیکٹیبل کی سیاست کی اور بلدیاتی انتحابات میں معرکہ مارا۔یہ بات یاد رہے کہ کے پی ٤٩ کے پہاڑ سے انہیں صرف ایک سیٹ ملی جو نلہ کے گجروں کی وجہ سے ملی مرحوم مختار گجر کے بیٹے نے دو دن پہلے پی ٹی آئی کا ٹکٹ ملا اور بھاری اکثریت سے جیت گیا۔ افسوس اور زیادہ افسوس اس بات کا ہے کے پی ٤٩ جو محرومیوں کا گڑھ ہے اسے کچھ نہیں مل رہا حتی کے نائب ضلع ناظم کی سیٹ بھی نہیں دی جا رہی۔اب میری بات کی سمجھ آ گئی ہوگی کہ پہاڑ میں راجہ اور ترین فیملی کے مشترکہ امیدوار راجہ عامر کو کیوں شکست فاش ہوئی۔یہی حال دوسرے علاقوں کا بھی ہے بابر نواز خان نے ١٣٧٠٠٠ ووٹ حاصل کئے جبکہ راجہ عامر ٩٠٠٠٠ ووٹ لے سکے۔
ہار کا یہ ٤٧٠٠٠ ووٹ کا فرق دراصل اس علاقے کے لوگوں کا ان دو خاندانوں سے بغاوت کا اعلان ہےْ اب کھلابٹ کے کے ان پٹھانوں کا ذکر ہو جائے جنہوں نے یہ معرکہ سر کیا ہے۔یہ وہ لوگ ہیں جو آزاد حیثیت میں بھی کامیاب ہوتے رہے ہیں اسی فیملی کے ایک رکن نے ٥٥٠٠٠ ووٹ ایک صوبائی نشست پر لئے ہیں۔ان لوگوں کا زیادہ وقت تھانے کچہری میں قتل مقاتلے کے کیسوں میں گزرتا ہے۔الزام تو ان پر میاں نواز شریف کے پی آر او شیر اعظم کے قتل کا بھی ہے ۔اور ایک الزام یہ بھی ہے کہ سابق تحصیل ناظم افتخار خان کا قتل جو بیرون ملک ہوا وہ بھی انہی لوگوں کے ذمہ ہے۔واللہ اعلم۔ عوامی مسائل کی نبض پر ہاتھ رکھنے والے یہ لوگ جو تھانہ کچہری جنبے کی سیاست پر یقین رکھتے ہیں یہ اگر آزاد بھی کھڑے ہوتے تو شائد اس سے بھی زیادہ ووٹ لے جاتے لہذہ مسلم لیگ نون کو اس معرکے کی کامیابی پر بغلیں بجانے کی بجائے پاکستان کے بیس کروڑ لوگوں کے ان سوالات کا سامنا کرنے کے لئے تیار رہنا ہو گا جو ان لوگوں کی وجہ سے اٹھیں گے۔
تحریک انصاف ہریپور کا معرکہ بری طرح ہار چکی ہے اگر پارٹی یہ سمجھتی ہے کہ صرف راجہ عامر کی نالائقیاں اس کا سبب ہے تو وہ سراسر غلط ہے۔عامر زمان نے آزاد لڑ کر بھی ٧٠٠٠٠ سے زاید ووٹ لئے تھے۔میں سمجھتا ہوں کہ پارٹی کے اندر کی دھماچوکڑی نے عوام کو شدید مایوس کیا ہے۔یونین کونسل سطح پر پارٹی کو کوئی وجود نہیں ہے۔پارٹی کا وہ گروہ جو انٹرا پارٹی انتحابات کے نتیجے میں سامنے آیا تھا انہوں نے قطعا کوئی کام نہیں کیا ضلع ہری پور کے صدر تحصیل کونسل کا انتحاب بھی بری طرح ہار گئے۔کیا ان کی شکست سے پتہ نہیں چل رہا تھا کہ ہریپورینر ناراض ہیں۔ پنجابی میں کہتے ہیں ڈلیاں بیران دا ہالی وی کج نہیں گیا(گرے ہوئے بیر قابل استعمال ہوتے ہیں) کیا تحریک انصاف الیکٹیبلز کی سیاست کرے گی؟تو وہ لوگ کیا بیچیں گے جو ٣٠ اکتوبر ٢٠١٢ کو لاہور جلسے سے پارٹی کو اوج پر لے گئے۔ پارٹی ان لوگوں کی وجہ سے ہاری جو آمر کی گود میں بیٹھ کر مزے لوٹتے رہے اور جب آمر رخصت ہوا تو تحریک انصاف کے گھوڑے پر سوار ہو گئے۔عمران خان صاحب کو جان لینا چاہئے کہ جسٹس وجیہ کی ساری باتیں غلط نہیں ہیں،اور میرا کیال ہے وہ سمجھ بھی چکے ہیں آئیندہ انٹرا پارٹی انتحابات میں تحریک انصاف میں کاٹھ کی ہنڈیا چڑھانے والوں کی چھٹی ہونے والی ہے۔
پنجابی میں ایک اور مثال بھی ہے ڈگا کھوتے توں تے غصہ کمہار تے(گرا گدھے سے اور غصہ کمہار پر) اس شکست کا سار غصہ ہری پور کی پٹھانی پر نکال دیا اور ریحام خان کو نظر بندی کا حکم دے دیا۔ہم کوئی نون لیگی نہیں جو خاموشی سے یہ زیادتی برداشت کر لیں ہم نے ہمیشہ عمران خان کو صیح مشورے دیے ہیں اس لئے کہ ہم ٹانگے کی سواری ہیں اور اب بھی بتائے دیتے ہیں کہ ایک گروہ جو پارٹی کے اندر ہے اس کی خواہش ہے کہ کہ ذہین و فطین ریحام کا راستہ روکا جائے۔دوسری اہم بات یہ ہے کہ خواتین کا بڑا طبقہ جو دھرنے کا روح رواں ہے خان صاحب کے اس فیصلے پر شاکی ہے۔ہم دعوی تو قائد اعظم کی تعلیمات پر عمل کرنے والی پارٹی کا کرتے ہیں۔قائد نے فاطمہ جناح کو کبھی بند نہیں کیا۔ البتہ اس خبر پر ہم خوش ہیں کہ ریحام انٹرا پارٹی الیکشن لڑیں گی۔اس سے پاکستان کی خواتین پارٹی کے ورکرز بھی خوش اور چودھری پرویز الہی بھی خوش ہو جائیں گے۔اس لئے کے انتحابات کے نتیجے میں پرویز الہی صاحب کو ان کے بچھڑے ساتھی اور تحریک انصاف کو ٣٠ اکتوبر والے پیارے مل جائیں گے۔پرویز الہی صاحب اپنے تحفے لے جائیں۔