تحریر: پروفیسر رفعت مظہر لاہور کا معرکہ سَر کرنے کے بعد پرویز رشید نے کہا”عمران خاں چوتھی بار بولڈ ہوگئے”۔ ایسے میں بھلا ہمارے خواجہ آصف سیالکوٹی کسی سے پیچھے کیوں رہتے۔ اُنہوں نے بھی تحریکِ انصاف کے لیے ٹویٹ پھڑکادیا ”کچھ شرم ہوتی ہے ،کچھ حیاہوتی ہے” لیکن بارہ مصالحے والابیان میاں شہباز شریف کاکہ ”نون نے قارون کو شکست دے دی”۔ ویسے بصدادب ”بریف کیس” کی سیاست کاالزام تو نوازلیگ پہ دھراجاتا تھا لیکن اب کی بار ”سیر کو سواسیر” مِل گیا اور لیگیوں کو بھی کہنا پڑا ”نوٹ کوووٹ سے شکست دیںگے”۔ دروغ بَرگردنِ راوی علیم خاں نے الیکشن کمیشن کے ضابطۂ اخلاق کوجوتے کی نوک پررکھتے ہوئے پچیس کروڑ سے زائدصرف کرڈالے لیکن مِلا ”کَکھ” بھی نہ۔گھِسا پِٹا لیکن حسبِ حال لطیفہ کہ ایک امیرکبیر شخص کے بیٹے کے ہاتھوں قتل ہوگیا ۔وہ شخص وکیل کے پاس گیاتو اُس نے پچیس ہزارروپے فیس مانگی۔
امیر شخص نے یہ سوچتے ہوئے کہ اتنی کم فیس والا وکیل بَس ”ایویںای” ہوگا اِس لیے اُس نے پچیس لاکھ والانامی گرامی وکیل ہائرکرلیا ۔ایک سال بعداُس امیرشخص کی پہلے وکیل سے سرِراہے ملاقات ہوگئی ۔وکیل نے پوچھا ”کیس کاکیا بنا؟”۔اُس نے جواب دیا”بیٹے کوپھانسی ہوگئی”۔ وکیل بولا ”جو کام میں نے پچیس ہزارمیں کروادینا تھا ،تُم نے ”ایویںخوامخواہ” اُس پرپچیس لاکھ ضائع کردیئے”۔ ہمارے کپتان صاحب اگرویٹوپاور استعمال کرتے ہوئے علیم خاںکی بجائے چودھری سرورکو کھڑاکر دیتے توچودھری صاحب نے پچیس کروڑوالا کام پچیس ہزارمیں کردینا تھا۔ لیکن علیم خاںتو کپتان صاحب کا ”خفیہ ہتھیار” تھاجو ”ٹھُس” ہوگیا۔اب خاںصاحب کہتے ہیں” اگر علیم خاںکی جگہ میںکھڑا ہوتاتو یقیناََ جیت جاتا۔ سوال مگریہ کہ کپتان صاحب کو روکا کِس نے تھا؟ اوروہ توہرروز یہ ”کھڑاک” کرتے تھے ” مقابلہ علیم خاںاورایاز صادق کے نہیںمیرے اورنوازشریف کے مابین ہے”۔
محترمہ مریم نوازنے ٹویٹ کیا”شیرآ نہیں رہا ،شیرآ گیاہے” لیکن ہم سمجھتے ہیںکہ شیرتو کبھی گیاہی نہیں تھا البتہ آجکل وہ تھوڑا کمزورلگ رہاہے ۔اگرایسا نہ ہوتاتو سردارایاز صادق کی قومی اسمبلی کی سیٹ کے نیچے صوبائی اسمبلی کی دونوںسیٹیں تحریکِ انصاف کے پاس نہ جاتیںاور اوکاڑہ میںمسلم لیگ کااُمیدوار چاروںشانے چِت نہ ہوتا۔ شنیدہے کہ میاںنواز شریف تو ”پکّے لیگئے ” ریاض الحق جج کوٹکٹ دینے کے حق میںتھے لیکن پارٹی فیصلے کے آگے سرِتسلیم خَم کرتے ہوئے علی عارف کوٹکٹ دے دیا ۔اگرنواز لیگ ایسے ہی ارسطوانہ فیصلے کرتی رہی توپھر وہ دن دورنہیںجب اِس کی بھی ”داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوںمیں”۔
Jahangir Tareen
انتخابی نتائج کے بعد ہنگامی پریس کانفرنس میں جہانگیرترین نے کہا ”کل سے 2013ء اور 2015ء کی ووٹر لسٹوں کا تقابل کریںگے۔ سینکڑوںووٹ دوسرے شہروں کو منتقل کردیئے گئے”۔ چودھری سرورنے کہا”۔ NA-122 کے بعض مکینوں کے بڑی تعدادمیں ووٹ اچانک دوسرے حلقوںمیں تبدیل کر دیئے گئے جس کے باعث متعدد ووٹر اپنا ووٹ نہیں ڈال سکے”۔ ہم سمجھتے ہیںکہ یہ سب ”ہتھ نہ پہنچا ،تھُو کَوڑی” کے مصداق ہے ۔جہاںتک ووٹرز کو اچانک دوسرے حلقوںمیں تبدیل کر دینے کاالزام ہے تواپنی نوعیت کے اعتبار سے یہ الزام ہی بے بنیادہے کیونکہ ووٹرلسٹیں الیکشن کمیشن چسپاں بھی کرتاہے اور اُن پراعتراض کے لیے مناسب وقت بھی دیاجاتا ہے۔ اِس کے علاوہ الیکشن سے بہت پہلے تمام امیدواروں کوووٹر لسٹیں مہیاکر دی جاتی ہیں اورانہی ووٹر لسٹوںکی بنیادپر اُمیدوار اپنی اپنی ”پولنگ سکیم” تیارکرتے ہیں۔
کیاتحریکِ انصاف کے اربابِ اختیاراتنے ہی نااہل تھے کہ اُنہیںیہ تک پتہ نہ چل سکاکہ اُس کے ہزاروںووٹ ”چوری” ہوگئے ۔حقیقت یہی کہ جب کپتان صاحب نے حلقہ 122 کے انتخاب کواپنی ”بڑھکوں”سے عام انتخابات میںڈھال دیاتب نوازلیگ جاگی اورخوب جاگی ۔ دوسری طرف سونامیے تین بجے تک محوِاستراحت رہے اورجب انگڑائیاںلیتے ہوئے پولنگ سٹیشنوںتک پہنچے تووقت ہاتھوں سے سرک چکاتھا ۔ چودھری سرورنے کہا” جس طرح سرکاری مشینری کااستعمال ہوا ،مہذب معاشروںمیں ایسانہیں ہوتا”۔ بجاارشاد لیکن مہذب معاشروںمیں ڈال ڈال ”پھُدکنے” والے بھی نہیںہوتے ۔چودھری صاحب کبھی گورنرہاؤس کے”باسی” بھی ہواکرتے تھے، تب اُنہیںبالکل پتہ نہ چلاکہ سرکاری مشینری بھی استعمال کی جاسکتی ہے لیکن تحریکِ انصاف میںپہنچتے ہی سب کچھ عیاںہو گیا۔
ویسے جہاںسے وہ ”امپورٹ” ہوئے وہاں انتخابی نتائج کوتسلیم نہ کرنے کارواج ہے نہ ملکی بربادی کے لیے دھرنے دینے کا۔اطلاعاََ عرض ہے کہ شایدیہ پاکستان کی تاریخ کاواحد انتخاب ہے جس میںالیکشن کمیشن نے صرف ایک سیاسی جماعت کے حکم کوصحیفۂ آسمانی سمجھا ،خاںصاحب حکم پہ حکم دیتے چلے گئے اورالیکشن کمیشن چوںچراںکیے بغیرسرِتسلیم خَم ۔ اِس کے علاوہ خاںصاحب نے پورے ملک سے دَس ہزار سونامیوںاوردو ہزاروکیلوں کوپولنگ سٹیشنوں پر تعینات کردیالیکن افسوس ،صدافسوس کہ پھربھی ”چاروںشانے چِت”اوراوکاڑہ میںتو ضمانت بھی ضبط۔
Sipa Salar Aman
اب نسیم الحق زاہدی کی کتاب ”سپہ سالارِامن” کے بارے میں کچھ باتیں ۔اِس نفسانفسی کے دَور میں نسیم الحق زاہدی کا مذہب کی طرف رجحان خوشگوار حیرت کاباعث بنتاہے کیونکہ عمومی طورپر ہمارے کالم نگاراپنے کالموںمیں مذہب گریزپالیسی پرعمل درآمد کرتے نظرآتے ہیںلیکن نسیم الحق مذہب کے دائرے سے باہر جھانکنا پسندنہیں کرتا۔ اُس کے بقول اُس نے جب آقاۖ کی شان میں لکھے گئے کالموں کو کتابی شکل دینے کا ارادہ باندھا توبزعمِ خویش عقیل وفہیم مدبرین نے اُس کی حوصلہ شکنی کی لیکن دھُن کے پکّے نے اپنے عزم کوعملی جامہ پہناکر ہی دم لیا۔اُس کی کتاب میںشاید وہ سب کچھ تونہ ملے جومارکیٹ میںبِکتا ہے لیکن دینِ مبیںکے متوالوں کے لیے بہت کچھ ہے کہ زاہدی توقُرآن وحدیث کے بغیرلقمہ بھی نہیںتوڑتا۔
اُس نے اپنی کتاب میںنہ صرف اسلام کے تمام بنیادی اصولوںکی تشریح کی بلکہ دیگرادیانِ عالم کے دینِ مبیں پراٹھائے گئے اعتراضات کاجواب دینے کی بھی سعی کی۔ وہ قرونِ اولیٰ اورآج کے مسلمانوں کاموازنہ کرتے ہوئے انتہائی بیباک ہوجاتاہے۔ اُس نے لکھا ”جس معاشرے میںنبی اکرمۖ تھے ،محبت کی سزاموت ہو، وہ معاشرہ کبھی بھی سلامت نہیںرہ سکتا”۔ اُس نے پاکستان میں معاشی ومعاشرتی نا انصافیوں پر بھی کھُل کر تنقید کی ۔اُس کادُکھ وہی جوپوری قوم کاہے ۔ معاشی ومعاشرتی ناہمواری پرکڑھتے ہوئے اُس کے ضبط کے سارے بندھن ٹوٹ جاتے ہیںاوراُس کی تحریریں بے باکی کالبادہ اوڑھ لیتی ہیں ۔دعاگو ہوںکہ اللہ تعالیٰ نسیم الحق زاہدی میں اور زیادہ زورِ قلم پیداکرے کہ نسلِ نَوکو ایسے ہی بیباک کالم نگاروںکی ضرورت ہے۔