پرویز مشرف کی آڑ میں فوج کو آڑے ہاتھوں لینے کی کوششیں

کراچی (ناصر علی ) اربن ڈیمو کریٹک فرنٹ (U D F) کے بانی چیئرمین ناہید حسین نے کہا ہے کہ حکمران سابق صدر اور چیف آف آرمی اسٹاف پرویز مشرف کی آڑ میں فوج کو آڑے ہاتھوں لینے کی کوششیں کررہے ہیں اور یہ تاثر دینے کی کوششین کی جارہی ہیں کہ ہم نے فوج کے بارے میں کچھ نہیں کہا بلکہ چیف آف آڑمی اسٹاف راحیل شریف کا حالیہ بیان حکومتی وزرا کے خلاف نہیں ہے ینعی انہیں در پرد ا بُرا اور بھلا بھی کہا جارہا ہے اور اس کے بعد انکی ناراضگی کو بھی بجا کہہ دیا جائے یعنی چٹ بھی اپنی اور پٹ بھی اپنی تمام مال بھی میرے باپ کا تم کون اور میں کون؟ ان خیالات کا اظہار انہوں نے سینئر صحافی سلیم قریشی سے گفتگو کے دوران کیا ناہید حسین نے مزید کہا ایک طویل عرصے سے پاک فوج کو مسلسل تصحیک کا نشا نہ بنانے کی کوشش کی جارہی ہیں جبکہ تصحیک کا نشانہ بنانے والے بذات خود فوج کی گود میں بیٹھ کر ایوان اقتدار میں پہنچتے ہیں خواہ وہ مرحوم ذولفقار علی بھٹو ہوں یا مسلم لیگ (ن) کی قیادت رہی ہو ان سب نے فوج کی گود میں پرورش پائی ہے

مگر اب وہ خود کو سپر پاور سمجھنے لگے ہیں ۔دنیا کے ہر ملک میں خواہ وہ ترقی پذیر ہو یا نہ ہو ان کی حکومتیں اور انکی خارجہ پالیسیاں فو ج ہی کی مرہون ِ منت ہوتی ہیں جبکہ جمہوریت اور دیگر ڈھکوسلے صرف خود کو اور قوم کو مطمئن کرنے کے حربے یا پھر طریقے ہوتے ہیں۔ ناہید حسین نے کہا کہ دنیا میں امن ہو یا جنگ یا پھر قدرتی آفات ان تمام حادثات اور واقعات میں تمام ملکوں کی اپنی اپنی فوجیں امداد کے علاوہ ریلیف کے کاموں میں حکومت وقت کی مدد کرتی ہیں ہر مشکل وقت میں صرف فوج ہی ملک اور قوم کے کام آتی ہے۔

حکمر ان تو صرف حکم چلانے کے عادی ہوتے ہیں۔ فعال انداز میں کام کرنے کا فن صرف فوج کو آتا ہے جب ہر اہم اور حساس معاملے میں فوج کو آگے رکھا جاتا ہے تو پھر انکی اہمیت کو کیوں کم کیا جا رہا ہے؟ انہوں نے کہا کہ یہ صرف اپنے اندر کا خوف اور ڈر ہوتا ہے کہ کہیں کرپشن غیر دانش مندانہ فیصلے سے ایوان اقتدار ِ کی بساط کو نہ لپیٹ دیا جائے اسلئے چور مچائے شور کی ماند ہر طرف سے سیاست دان خصوصاً حکمران اور اپوزیشن جماعتیں فوج کے خلاف اپنے دل کی بھڑاس نکال رہی ہیں ۔ نانہید حسین نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ خُد ا کیلئے ایک ہی مضبوط ادارہ باقی رہ گیا ہے اسے نقصان پہنچانے کی کوششیں نہ کی جائیں ورنہ بساط صرف لپیٹی ہی نہیں جائے گی بلکہ مہروں کو بھی چن دیا جائے گاکیونکہ جب صبر کا پیمانہ لبریز ہوتا ہے تو پھر وہ چھلکنے لگتا ہے اور ویسے ہی عوام کئی سالو ں سے حکمران موجود اور سابق حکمرانوں کے ناز و انداز سے تنگ آچکی ہے انہیں زندہ رہنے کیلئے امن کی ضرورت ہے۔

جو حکمرانوں کے بس کا روگ نہیں رہا لیکن مزے کی بات یہ ہے کہ دہشت گردوں سے تو مذاکرات جاری ہیں جبکہ حقیقی محافظوں سے تو پُر خاش ہیں یہ فلسفہ سمجھ سے بالا تر ہے انہوں نے کہا فوج اور عوام سب جاتے ہیں کہ اصل معاملہ کیا ہے۔ لہذا لیپا پوتی سے گریز کیا جائے اور ماضی سے سبق سیکھا جائے ۔ناہید حسین نے آخر میں کہا کہ کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ حکومت سے مذاکرات کرنے والے دبائو ڈال کر فوج کو اپنے زیر اثر لینا چاہتے ہوں خواہ کچھ بھی ہو حکومت انکی رٹ بیشک قبول کر لے مگر فوج سے یہ توقع نہ رکھے تو بہتر ہے۔ واضح رہے کہ فوج نے کبھی دہشت گردوں سے کبھی ہار نہیں مانی تو پھر چند مٹھی بھر لوگوں سے کیسے ہار جائیں گے۔ کیونکہ صحیح معنوں میں عوام پاک فوج کے ساتھ کھڑی ہے اور ان کی عزت بھی کرتی ہے اور انکی خدمات کا اعتراف بھی کرتی ہے کیونکہ ہمارے ملک کے سیاست دان ، حکمران اور وزراء پانچ برسوں میں صرف الیکشن کے دوران عوام کے درمیان ہوتے ہیں جبکہ پاک فوج ہر وقت ہر لمحے ان کے دکھ درد میں شریک ہوتے ہیں جو انہیں معاشرے میں نمایاں کرتے ہیں ۔