سابق ڈکٹیٹر جنرل پرویز مشرف کے وکلاء کی جانب سے نیا پینترہ بدلتے ہوئے 3 نومبر کی ایمرجنسی کے حوالے سے سابق صدر کے ساتھیوں کیخلاف بھی عدالتی کارروائی کی درخواست داغ دی گئی ہے، درخواست میں موقف اپنایا گیا ہے کہ ایمرجنسی کے نوٹیفیکیشن میں جن افراد سے مشاورت کا زکر ہے ان پر بھی مقدمہ چلایا جائے۔
الطاف حسین، ق لیگ اور ڈاکٹر طاہر القادری اسی قسم کے مطالبات میں مصروف ہیں ، حالیہ دنوں میں آرمی چیف کے بیان کے بعد مشرف کے حامیوں کے حوصلے بڑھے اور وہ ایک بار پھر صف آرا ہو گئے ہیں اور اپنے تیئیں حکومت کو کمزور جان کر بڑھکیں لگانا شروع کر دیں ہیں، جہاں تک آرمی چیف کے بیان کا تعلق ہے تو وہ اپنی جگہ بالکل درست اور مکمل تھا فوج کو بحیثیت ادارہ اپنے وقار کا ہر صورت تحفظ کر نا چاہے۔
ٹی وی چینلز کی ریٹنگ بڑھانے کیلئے اس جملے کو سابق صدر پرویز مشرف سے جوڑنے کی کوشش کی گئی ،یہاں تک کہہ دیا گیا کہ فوج کی جانب سے وزیر دفاع کو فارغ کرنے کا مطالبہ کیا گیااور ایک ایسی فضا بنا کر پیش کی گئی جیسے حکومت خوف سے تھر تھر کانپ اٹھی ہو اور کسی تنکے کی مانند ہوا کے دوش پر اڑنے والی ہو ، چینلز پر بیٹھے جادو گروں اور چند کالم نویسوں نے حکومت کو یہ کہہ کر ڈرانا شروع کر دیا کہ فوج کی برہمی مول لینے سے بہتر ہے مشرف کو جانے دیا جائے ایک معروف کالم نویس جو حکومت سے ذاتی عناد رکھتے ہیں نے یہ تک کہہ ڈالا کہ مشرف کے فارم ہائوس کے گرد بم پروف دیوار سے سستی دبئی کی ٹکٹ تھی ،حکومت کوڈرا دھمکا کر نرمی دکھانے کے مشورے دئیے جا رہے ہیں،کہا گیا کیا ہم تھوڑی دیر کیلئے آئین وقانون کی حکمرانی کی باتیں کرنے سے احتراز نہیں کر سکتے۔
Altaf Hussain
پڑھے لکھے ، باشعور افراد جب ایسی باتیں کرتے ہیں تو انتہائی افسوس محسوس ہو تا ہے، اب میں ان معروف کالم نویس سے گوش گذار ہو ں جو متواتر حکومت کو پیچھے ہٹ جانے کے مشورے دیتے چلے آ رہے ہیں الطاف حسین ، چوہدری شجاعت ایسے مطالبے کریں تو سمجھ آتا ہے کہ یہ لوگ مشرف کے حصہ دار تھے اور اس وقت کی دستر خوانی سیاست کی بدولت انہوں نے ڈکٹیٹر کی آمریت کو دل و جان سے قبول کیا اب یہ اپنے ساجھی دار کو سزا ہو تی نہیں دیکھ سکتے، یہاں تک تو بات قابل فہم ہے لیکن مصلحت، پردہ پوشی، یا خوف کے نام پر آئین وقانون کو کیوں”غریب کو جورو” بنانے کے مشورے دئیے جا رہے ہیں۔
میں گذارش کرنا چاہتا ہو ں کہ ڈرائینگ روم میں بیٹھ کر اور مخصوص حالت میں کالم لکھنے کی بجائے آپ کسی عام پاکستانی سے بات کر کے دیکھ لیں،وہ یہ ہی کہے گا کہ مشرف کیخلاف قانونی کارروائی سے پاکستا ن کو فائدہ ہو گا،آپ نے اس کو بچا کر کیا کرنا ہے؟خدا کے واسطے آئیں بائیں شائیں کر کے پاکستان کو مت ڈرائیں ،اگر کچھ درست ہو نے جا ر ہا ہے تو اس کا ساتھ دیں، روکنے کی کوشش مت کریں، مسئلہ” تتتر بتر” کرنے کیلئے مشرف کے وکلاء کی طرح لاکھ دلیلیں و تاویلیں گھڑی جا سکتی ہیں۔
عوام کو” اندرونی کہانی” بتانے کی بجائے اصل حقائق کا سامنا کرنے دیں،ابھی چھوٹی سی چوری میں کسی محلے کے فرد پکٹرا جائے تو 50 لوگ اسے بچانے تھانے پہنچ جائیں گے یہاں معاملہ سابق صدر کا ہے ،آپ چاہتے ہیں کہ ایک بار پھر نظریہ ضرورت کو زندہ کر دیا جائے اور کیا آپ یہ چاہتے ہیں بیچارے عوام سے چاہے جیسا بھی سلوک ہو تا رہے ایسا کرنیوالے کے ہاتھ روکنے کا کوئی انتظام نہ کیا جائے۔
ڈیل، انڈر ٹیبل انڈر سٹینڈنگ، مفاہمت اور ایسی تمام تدابیر کو بخوبی جانتی بوجھتی حکومت کسی ایسے کام کیلئے تیار نہیں ، معاملہ عدالت میں ہے اور اب وقت اب گذر چکا، جیسے جیسے غداری کیس کے فیصلہ کا وقت قریب آتا جا رہا ہے ابھی تو حکومت کو ڈرا کر کام چلانے کی کوشش ہو رہی ہے پھربات معافی کی جانب بھی جائیگی، دھمکیا ں دینے والے یہ کالم نویس منتوں پر اتر آئیں گے، میرے خیال میں انہیں مصلحتوں کے خول سے باہر نکلتے ہو ئے اب آئین و قانونی کی حکمرانی کو تسلیم کر ہی لینا چاہے، اب ضرور افق پر سورج ڈوبنے کے بعد نئی صبح کا آغاز ہو گاافق تو نہیں البتہ سورج ضرور نیا ہو گا۔