ملک کے سابق آرمی چیف اور سابق صدرِ پاکستان جنرل پرویز مشرف گیارہ اگست انیس سو تیتالیس میں پیدا ہوئے۔ دہلی کے ایک اردو اسپیکنگ گھرانے سے ان کا تعلق ہے۔پرویز مشرف کی شادی سہبا مشرف سے ہوئی۔ اور اُن کے کنبے میں دو اولادیں بھی ہیں۔ بیٹا بلال مشرف اور بیٹی عالیہ مشرف۔ فوج سے ریٹائرمنٹ کے بعد انہوں نے سیاسی پارٹی آل پاکستان مسلم لیگ بنائی۔ جسے ملک سے باہر بیٹھ کر کنٹرول کرتے رہے۔
الیکشن سے پہلے موصوف پاکستان کیا آئے اُن پر اُفتاد توڑ دی گئی۔ اتنے مقدمے قائم کئے گئے کہ بیچارے مشرف صاحب کی جان ابھی تک اُن مقدموں میں الجھی ہوئی ہے۔ شہزاد فارم ہائوس کو سب جیل بنا کر انہیں وہاں قید رکھا گیا، آج کل وہ کراچی میں مقیم ہیں۔اس کورٹ سے اُس کورٹ میں پیشی نپٹاتے نپٹاتے ان کو بیماریوں نے بھی جکڑ لیا ۔ ڈاکٹروں کے مطابق جناب کے ریڑھ کی ہڈی میں فریکچر ہے۔ جبکہ اُن کی والدہ بھی شارجہ میں شدید علیل ہیں۔ ملک کے مایہ ناز بیرسٹر جناب فروغ نسیم صاحب اُن کے وکیل کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔ اب ان تمام مقدمات کو سیاسی کہہ لیں یا اُن کے مخالفین نے بلا وجہ ہی اُن پر تلاش کرکرکے مقدمے قائم کئے۔
بہر حال کل سندھ کی عدالت نے اُن کے حق میں ایک اچھا فیصلہ سنایا ہے گو کہ یہ فیصلہ پندرہ دنوں کے بعد نافذ العمل ہوگا۔ مگر یہ فیصلہ اُن کے حق میں بہتر فیصلہ ہے۔ اب اُمید ہو چلی ہے کہ جناب مشرف صاحب اپنی والدہ سے ملاقات بھی کر سکیں گے اور اپنا علاج بھی کروا سکیں گے۔ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ سابق امریکی سفیر حسین حقانی گئے اور آج تک نہیں آئے، راقم کے خیال میں وہ ایک سولین شخص ہیں جبکہ مشرف صاحب نے اپنی زندگی کے کافی سال فوج کی وردی میں گزارے ہیں اس لئے یہ بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ وہ سپہ سالار رہ چکے ہیں اس لئے اگر وہ گئے تو ضرور واپس آئیں گے۔ جیسا کہ ہماری قوم کو اپنے افواج پر فخر ہے ، اور کیوں نہ ہو یہی تو وہ سپہ سالار ہیں جو ملک کے طول و عرض میں امن و امان قائم کرنے اور دہشت گردی سے نپٹنے میں مصروفِ عمل ہیں۔ اب سپہ سالار آن ڈیوٹی ہو یا ریٹائرڈ ، ہمیں تمام ہی افواج پر فخر ہے۔ اس لئے سربراہان کو انہیں جانے دینا چاہیئے اور ان کا نام عدالتی فیصلے کی روشنی میں ای سی ایل (ایکزٹ کنٹرول لسٹ) سے فوری نکال دینا چاہیئے۔ اگر پھر کسی طرف سے اپیل کی گئی تو یہ بات حقیقت میں بدل جائے گی کہ ان کے خلاف سیاسی انتقام لیا جا رہا ہے
۔بیرسٹر فروخ نسیم نے عدالتی فیصلے کے بعد کہا کہ ہمیں فخر ہے کہ ہماری عدلیہ آزاد ہے اور ہم سب کو اس پر مکمل اعتماد ہے۔ یہ بیان عدالت کے لئے نیگ شگون ہے اور عوام کے لئے بھی۔ وہ آئے اور مقدمے کا انبار لگا ، ضمانتیں بھی ہوئیں، اور کچھ کیس ابھی تک چل رہا ہے۔ مگر محسوس یہ ہوتا ہے کہ لوگوں کے دلوں میں یہ بات تازہ ہے کہ ان کا دورِ حکومت اچھا تھا ، مگر کیا کہیئے مقدر کی ستم ظریفی کہ ابھی تک انہیں گلو خلاصی نصیب نہیں ہوئی۔ شاعر کیا خوب کہتا ہے کہ:
وہ زلزلوں، طوفانوں سے بھی ڈٹ کے لڑا ہے اب تک وہ چٹانوں کی طرح جم کے کھڑا ہے
بلاشبہ مشرف صاحب چار ستارہ ریٹائرڈ جرنیل ہیں، وہ پاکستان کے دسویں سربراہ جبکہ تیرویں چیف آف آرمی اسٹاف رہ چکے ہیں ، اس کے علاوہ وہ دسویں چیئرمین جوائنٹ چیف آف اسٹاف کمیٹی آف پاکستان بھی رہ چکے ہیں۔ ان کے دور میں جو بلدیاتی نظام رائج کیا گیا تھا اس سے ملک بھر کے تمام شہروں میں بے مثال ترقیاتی کام ہوئے۔ کراچی کو ہی دیکھ لیں پہلے کیا تھا اور اب کیسا ہے۔ جبکہ کئی سالوں سے جمہوری حکومتوں نے ابھی تک بلدیاتی الیکشن ہی نہیں کروائے جس کی وجہ سے شہر کھنڈرات میں تبدیل ہو رہے ہیں۔ بظاہر تو عدالت نے پرویز مشرف کو علاج کرانے اور اپنی والدہ سے ملنے کے لئے باہر جانے کی اجازت دے دی ہے اور ان کا نام ایکزٹ کنٹرول لسٹ سے نکالنے کا فیصلہ بھی صادر کر دیا ہے، مگر اس فیصلے میں ان کے لئے ایک پیچیدگی باقی ہے کہ یہ فیصلہ پندرہ دنوں کے بعد نافذ العمل ہوگا۔ اور اس دوران وفاقی حکومت چاہے تو سپریم کورٹ میں اپیل دائر کر سکتی ہے۔ اگر کوئی اپیل دائر نہیں ہوئی تو مشرف صاحب سولوہیں دن ملک سے کُوچ کر سکتے ہیں ۔ کل کی خبر کے مطابق پرویز مشرف نے وزارتِ داخلہ کو خط بھی لکھ دیا ہے کہ انہیں والدہ کی عیادت اور اپنے علاج کے لئے بیرونِ ملک جانا ہے۔اس لئے عدالتی فیصلے کی رو سے میرا نام ای سی ایل سے نکالا جائے ۔ اب دیکھئے کہ وہاں سے کیا جواب آتا ہے۔ ان کے لئے فضا آج بھی مکدر ہے مگر پندرہ دنوں کے بعد یہ اندازہ ہوگا کہ کیا ان کے باہر جانے کے لئے فضا صاف اور سازگار ہوگئی ہے یا نہیں؟اگر کسی اپیل کی بادل نے ان کا راستہ نہ روکا تو یقینا وہ اپنی والدہ سے ملنے اور اپنا علاج کرانے کے لئے ایئرپورٹ کا رُخ کر سکتے ہیں۔
Sindh High Court
عدالت کا فیصلہ آنے کے بعد اس فیصلے کو عوامی سطح پر بھی کافی پذیرائی مل رہی ہے، مگر ہماری سیاست میں کافی ہلچل مچ چکی ہے۔ عدالتی فیصلے پر اے پی ایم ایل کی دفتروں میں مٹھائی تقسیم کیا گیا اور طول و عرض کے دفاتر میں کافی جوش و خروش دیکھنے میں آ رہا ہے۔ ان کے کارکنان فرطِ جذبات سے مغلوب ہوکر ایک دوسرے سے بغلگیر بھی ہوتے ہوئے دکھائی دیئے۔ ویسے بھی بقول پرویز مشرف کے سپاہی سے لے کر جرنیل تک مجھ سے محبت کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ فوج میں زندگی کا ایک حصہ گزارا ہے اور آج بھی سپاہی سے لے کر جرنیل تک مجھ سے محبت کرتے ہیں ۔موصوف مزید کہتے ہیں کہ میرے خلاف تمام مقدمات بے بنیاد ہیں اور ان میں کوئی جان نہیں۔ اور مجھے عدلیہ سے انصاف کی توقع ہے۔ یہ تو آپ کی بات ہے مگر سچ یہ بھی ہے کہ عوام کی ایک بڑی تعداد بھی آپ سے محبت کرتی ہے ۔ ہمارے ایک قریبی دوست ہیں جناب فصیح الحق صاحب جو کہ میرے دوست کے سُسر ہیںاور وہ ہمارے لئے تو گھر کے کسی بزرگ سے کم درجہ نہیں رکھتے۔میں نے اُن کوہر وقت مشرف صاحب کی باتیں کرتے ہی سنا ہے۔
غرض کہ انہیں مشرف صاحب کا دیوانہ پایا۔وہ اس لئے کہ ان کا تعلق بھی دہلی سے ہی ہے،آج کل بیچارے شدید علیل ہیں، وہ یہ کہتے ہیں کہ میری خواہش ہے کہ میری ایک تصویر مشرف صاحب کے ساتھ ہوتی تو مزا آ جاتا۔ ان کی روزانہ کی یہ جستجو اور لگن نے انہیں ایک دن جنرل مشرف صاحب سے کراچی کے کسی پروگرام میں ملوا دیا اورموصوف نے ایک تصویر ان کے ساتھ بنوا لی جسے وہ آج بھی فریم میںسنبھال کر رکھتے ہیں۔اور یہ کہتے ہیں کہ میری دلی خواہش اللہ تعالیٰ نے پوری کر دی۔ اس کے بعد میں یہ فقرہ لکھنے میں حق بجانب ہوں کہ صرف سپاہی اور جرنیل ہی نہیں لوگ بھی آپ سے پیار کرتے ہیں۔