اسلام آباد (جیوڈیسک) سابق صدر پرویز مشرف وطن واپس آئے تو سیاست کرنے تھے مگر مشکلات میں پھنس گئے، ایک طرف جہاں انہیں سنگین غداری کیس کا سامنا ہے اور فی الوقت انہیں ملک سے بھیجنے یا نہ بھیجنے کی باتیں ہو رہی ہیں وہیں یہ قریبی دوستوں کا مشورہ ہے یا پھر کوئی ڈیل کہ سابق صدر پرویز مشرف نے خود کو سیاست سے تقریباً دور کر لیا ہے جبکہ ان کی سیاسی جماعت آل پاکستان مسلم لیگ بھی غیرفعال ہو کر رہ گئی ہے اور مختلف شہروں میں کئی دفاتر کو تالے لگے ہوئے ہیں۔
کچھ مصدقہ ذرائع کے مطابق سابق آرمی چیف جنرل (ر ) پرویز مشرف کو ان کے قریبی رفقاء کی جانب سے مشورہ دیا گیا ہے کہ وہ سیاست کو خیرباد کہہ دیں اور دیگر سابق آرمی سربراہان کی طرح اپنی زندگی گزاریں۔ پارٹی ذرائع کے مطابق پرویز مشرف نے اس پر غور بھی شروع کر دیا ہے اور پارٹی رہنماؤں کو ہدایات بھی جاری کی گئی ہیں کہ وہ کسی بھی قسم کی سیاسی سرگرمی میں حصہ نہ لیں جبکہ آل پاکستان مسلم لیگ کو تحلیل کر نے کے حوالے سے بھی مشاورت ہور ہی ہے ۔دوسری جانب بعض ذرائع کا یہ کہنا ہے کہ پرویز مشرف نے اپنی سیاسی جماعت اے پی ایم ایل کا مسلم لیگ ق اور متحدہ قومی موومنٹ کے ساتھ الحاق کا فیصلہ کیا ہے، احمد رضا قصوری ، اشرف گجر ، ڈاکٹر امجد اور دیگر عہدیداروں کو مکمل طور پر فارغ کر دیا گیا۔
پارٹی کے دیگر سینئر رہنماؤں اور قریبی ساتھیوں کو مسلم لیگ ق اور ایم کیو ایم سے رابطوں کے احکامات جاری کیے گئے ہیں،ایم کیو ایم کے تعاون سے کراچی میں پارٹی کا دفتر کھولنے کی تیاریاں بھی کی جا رہی ہیں ۔ پرویز مشرف کے وکیل فروغ نسیم ، بیرسٹر سیف ، راشد قریشی اور دیگر چند ساتھی اس حوالے سے انتہائی متحرک ہیں اور پرویز مشرف کے بیرون ملک جانے کی صورت میں ان کی کمزور ترین سیاسی جماعت کو ایم کیو ایم کی مدد سے بہتر بنانے کی کوشش کی جائے گی۔
اس حوالے سے پرویز مشرف نے اپنے قریبی ساتھیوں کو فری ہینڈ دے دیا ہے ، پرویز مشرف نے چترال سے قومی انتخاب جیتنے والے ایم این اے نوابزادہ افتخار کو اہم عہدہ دینے کا فیصلہ بھی کیا ہے،پرویز مشرف بیرون ملک جانے کی اجازت ملنے یا نہ ملنے دونوں صورتوں میں اپنی پارٹی کو فعال کرنا چاہتے ہیں۔