بابا رحمت نے دام تو ہمرنگِ زمیں بچھایا اور حکم دے دیا کہ پرویز مشرف کو ایئرپورٹ سے سپریم کورٹ تک گرفتار نہیں کیا جائے گا اِس لیے وہ اگلے دِن اُن کی عدالت میں حاضر ہو جائیں لیکن پرویز مشرف بھلا کہاں قابو میں آنے والے تھے۔ بابارحمت سپریم کورٹ میں ”اَکھیاں اُڈیک دِیاں ،دِل واجاں مار دا” گاتے رہ گئے لیکن سابق کمانڈو نے آنا تھا نہ آئے۔ تب بابا رحمت نے جَل بھُن کر کہا کہ پرویز مشرف تو اپنے آپ کو بڑا بہادر کمانڈو کہا کرتا تھا ، اب کیا ہوا؟۔ شاید بابا رحمت نہیں جانتے کہ چوہا اگر ایک دفعہ” کڑکی” میں پھنس کر نکل جائے تو پھر کبھی قابو نہیں آتا۔ ماضی قریب کی تاریخ بتاتی ہے کہ پرویز مشرف بڑی مشکل سے بذریعہ” ایم ایچ” گرفتاری سے بچے۔ پھر اُس بیچارے کی بیماری نے اتنا طول پکڑا کہ کمر درد نے اُسے ہلنے جُلنے سے بھی معذور کر دیا اور بالآخر اُنہیں مزید علاج کے لیے بیرونِ ملک بھیجنا پڑا۔ یہ الگ بات کہ جہاز کی سیڑھیاں پھلانگتے ہوئے وہ بالکل تروتازہ اور نوجوان لگ رہے تھے۔ آصف زرداری نے تو میاں نوازشریف کو کہہ دیا تھا ”بِلّا قابو میں آگیا ہے ،اب اِسے چھوڑنا نہیں”۔ لیکن بِلّے کے ”ناخن” بہت تیز تھے، اُسے بھلا کون روک سکتا تھا؟۔
پرویز مشرف کی یہ بڑھکیں ہم نے کئی بار سنیں ”میں ڈرتا ورتا کسی سے نہیں”۔ اُنہیں مُکّے لہرانے کی بھی بہت عادت تھی۔ جب کراچی خونم خون ہوا تو اُسی دن راولپنڈی میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے پرویز مشرف مُکّے لہرا کر اپنی اندھی طاقت کا اظہار کرتے ہوئے پائے گئے۔ اُس جلسے کے سٹیج سیکرٹری شیخ رشید احمد تھے۔ غالباََ ڈرتے وَرتے وہ بھی کسی سے نہیںلیکن اِبتلاء میں وہ بھی موٹر سائیکل کے پیچھے بیٹھ کر ”دُڑکی” لگا جاتے ہیں۔ ہم اِس ”دُڑکی” کو بُزدِلی نہیں، عقلمندی کہیں گے کیونکہ اگر شیخ صاحب پکڑے جاتے تو اُنہیں ”پھینٹی” بہت پڑتی۔ بالکل اُسی طرح شیخ صاحب کے روحانی اُستاد پرویز مشرف نے بھی کہا کہ پاکستان نہ آنا بزدلی نہیں ،عقلمندی تھی۔ اُنہوں نے کہا کہ چیف جسٹس صاحب نے ایئرپورٹ سے سپریم کورٹ تک ہی اُنہیں گرفتار نہ کرنے کی گارنٹی دی تھی۔ اگر سپریم کورٹ سے باہر نکلتے ہی پولیس اُنہیں ”جَپھا” مار لیتی تو پھر اُن کا اور اُن کے طبلے سارنگی کا کیا بنتا؟۔ دراصل سابق کمانڈو واقعی ڈرتے وَرتے کسی سے نہیں لیکن یہ بھی عین حقیقت کہ وہ طبلے سارنگی اور اُم الخبائث کے بغیررہ بھی نہیں سکتے۔ اِس لیے اُنہوں نے ”نیویں نیویں ” ہو کر کھِسک لینے میں ہی عافیت جانی ۔ اب چونکہ وہ نااہل قرار پا چکے ہیں اور کوئی نااہل شخص سیاسی جماعت کا سربراہ نہیں بن سکتا، اِس لیے اُنہیں اپنی جماعت اے پی ایم ایل کی صدارت سے بھی ہاتھ دھونے پڑے۔ ویسے آپس کی بات ہے کہ جب تک عتیقہ اوڈھو اِس جماعت کی رُکن ہوا کرتی تھی، تب تک تو ہم بھی محدب عدسہ لے کر اِس جماعت کو ڈھونڈا کرتے تھے۔ وجہ یہ کہ ہمیں عتیقہ اوڈھو کی اداکاری بہت پسند تھی لیکن اب عتیقہ بھی مفقود الخبراور اے پی ایم ایل بھی البتہ ہم اب بھی یہی سمجھتے ہیں کہ کمانڈو ڈرتا وَرتا کسی سے نہیں، یہ الگ بات کہ نون لیگیئے کہتے ہیں کہ پردہ اُٹھ گیا اور کمانڈو کی بزدلی سامنے آگئی۔
ایک پردہ الیکشن کمیشن نے بھی اُٹھا یا اور خوب اُٹھایا۔ الیکشن کمیشن نے پہلے تو یہ فیصلہ کیا کہ انتخابات 2018ء میں کسی بھی اُمیدوار کے اثاثے ظاہر نہیں کیے جائیں گے لیکن الیکشن کمیشن نے بھی ”دکھائی کھَبی اور ماری سَجّی”۔ جب سبھی اُمیدواروں نے مطمئن ہو کر اپنے سارے اثاثے ظاہر کر دیئے تو الیکشن کمیشن نے بیچ بازار بھانڈا پھوڑ دیا۔ اب سارا پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا اُمیدواروں کی ”کِٹ” لگا رہا ہے اور بیچارے اُمیدواروں کا حال یہ کہ ”کاٹو تو بَدن میں لہو نہیں”۔ غریبوں کے دُکھ میں سوکھ کر کانٹا ہو جانے اور اُن کے درد میں دھاڑیں مار مار کر رونے والوں کی جائیدادیں اربوں کھربوں میں۔ ہم یہ سوچنے پر مجبور کہ اگر اِن خودساختہ رَہنماؤں کے دِلوں میں غریب قوم کا اتنا ہی درد ہے تو وہ اپنی جائیدادوں کا صرف آدھا حصّہ حکومت کو ”دان” کر دیں۔ ہم دعوے سے کہتے ہیں کہ ایسا کرنے سے نہ صرف سارابیرونی قرضہ اُتر جائے گا بلکہ کوئی بھوکا بھی نہیں سوئے گا۔ یہی نہیں بلکہ یہ بھی یقین کہ حکومت اگلے کئی سالوں تک ٹیکس فری بجٹ پیش کرنے کے قابل بھی ہو جائے گی لیکن ایسا ہونا ناممکن کہ ہمارے بزعمِ خویش رَہنماء مزید پیسہ اکٹھا کرنے کے کیے ہی تو الیکشن پر کروڑوں ،اربوں روپے صرف کرتے ہیں۔
الیکشن کمیشن نے تو سارا پول کھول ہی دیا لیکن ہمارے رَہنما بھی بڑے کایاں ہیں۔ اُنہوں نے اپنی ساری جائیدادیں تو ظاہر کر دیں کہ سروں پر صادق وامین کی تلوار لٹک رہی تھی لیکن یہ ”ہَتھ” ضرور کر گئے کہ اپنی پراپرٹیز کی قیمت قیامِ پاکستان سے پہلے کی لکھ دیں۔ عارف علوی نے اپنے 50تولہ سونے کی قیمت ساڑھے تین لاکھ لکھی۔ ہم نے جب سے یہ خبر سُنی ہے ،ہماری رالیں ٹپکنا بند ہی نہیں ہوتیں۔ اب ہم عارف علوی کے فون نمبر کی تلاش میں ہیں تاکہ اُن سے دَست بستہ درخواست کر سکیں کہ وہ تین گُنا رقم لے کر یہ سونا ہمیں دے دیں ۔ علوی صاحب اِس رقم سے 150 تولے کے زیورات بنوا لیں، ہم 50 تولے پر ہی اکتفا کر لیں گے کیونکہ ہم تو صرافہ بازار کی ہر دُکان پر گئے لیکن کوئی سُنار پچاس تولے کے زیورات کی قیمت تیس ،پینتیس لاکھ سے کم نہیں بتاتا۔ اگر علوی صاحب کی اپنے زیورات سے یادیں وابستہ ہیں اور وہ بیچنے کو تیار نہیں تو پھر کم از کم اُس سنار کا پتہ ضرور بتا دیں جس سے اُنہوں نے یہ زیورات بنائے ہیں۔ اگر اُنہوں نے پتہ بتا دیا تو ہم اُنہیں یقین دلاتے ہیں کہ ہمارے سارے ووٹ تحریکِ انصاف کے پَکّے۔
ایک علوی صاحب ہی کا کیا رونا ،یہاں تو ہر کسی نے ہی ڈنڈی ماری ہے۔ میڈیا کے مطابق شرجیل میمن نے اپنے 450 تولے سونے کی صرف 3 لاکھ بتائی ہے۔ عمران خاں کے اے ٹی ایم علیم خاںسب سے زیادہ غریب نکلے۔ یوں تو اُن کی 41 کمپنیاں ہیں اور جائیداد 91 کروڑ روپے کی لیکن وہ بیچارے ایک ارب روپے کے مقروض بھی تو ہیں۔ یہ الگ بات کہ اُنہوں نے یہ قرض اپنی ہی کمپنیوں سے لیا ہوا ہے۔بیچارے سیّد خورشید شاہ تو بہت ہی مفلس ہیں ۔ سکھر میں اُن کے گھر کی مالیت صرف 3 لاکھ روپے ہے۔ یقیناََ وہ ایک آدھ مرلے پر جھونپڑی نما مکان ہی ہوگا۔ بلاول ہاؤس کراچی ، جس کے قصّے پوری دنیا میں مشہور ہیں ،اُس کی قیمت صرف 30 لاکھ روپے ۔ ہمارے محترم سراج الحق اُس کے 50 لاکھ دینے کو تیار ہیں تاکہ وہاں یتیم خانہ کھولا جا سکے۔ چھ بُلٹ پروف گاڑیوں کے مالک آصف زرداری بھی مفلس۔ اُن کے 10 کروڑ مالیت کے گھوڑے اُن کی ساری کمائی ”چَٹ” کر جاتے ہیں۔ وہ سوچتے تو ہوں گے کہ وہ ”ایویں خوامخواہ مسٹر ٹین پرسنٹ اور مسٹر سنٹ پرسنٹ کا لیبل لگوا کر بدنام ہوئے۔ کمائی تو اتنی ہی ہے جو گھوڑے کھا جاتے ہیں۔دروغ بَر گردنِ راوی ایک دفعہ بلاول نے اپنے بابا سے کہا کہ اگر یہ گھوڑے نہ ہوتے تو پیپلزپارٹی ”روٹی، کپڑا اور مکان کا نعرہ ضرور پورا کر دیتی۔ یوں تو حمزہ شہباز اپنے والد میاں شہباز شریف سے بھی زیادہ امیر ہیں لیکن حالت اُن کی بھی ”پتلی”۔ یقیناََ اُن کی 21 فیکٹریاں خسارے میں جا رہی ہوں گی، اِسی لیے اُنہوں نے پولٹری کا کاروبار شروع کیا ۔ اب وہ بیچارے انڈے بیچ بیچ کر گزارہ کرتے ہیں۔ کپتان نے بھی بنی گالا میں اپنے تین سو کنال پر مشتمل محل کی قیمت سوا لاکھ روپے مرلہ بتائی۔ ہم تو سمجھتے تھے کہ اسلام آباد پاکستان کا مہنگا ترین شہر ہے لیکن وہ تو واں رادھا رام سے بھی سستا نکلا۔
الیکشن کمیشن نے صرف جائیدادوں کا بھانڈا پھوڑ کر ہی ظلم نہیں کیا بلکہ گھر گھر لڑائی بھی ڈلوا دی۔ خواجہ سعد رفیق کی 2 بیویاں نکل آئیں اور اب پہلی بیوی گنڈاسا لے کر پھِر رہی ہے۔ عامر لیاقت کو ڈاکٹر کہتے کہتے ہمارا حلق خشک ہو گیا، اب پتہ چلا کہ وہ تو ایم اے ہیں ،ڈاکٹر نہیں۔ ہو سکتا ہے کل کلاں یہ انکشاف ہو کہ اُن کی ماسٹرز کی ڈگری بھی جعلی ہے۔ عامر لیاقت کی ایک بیوی الیکشن کمیشن کے فارم پر ہے اور دوسری شناختی کارڈ پر۔ دروغ بَر گردنِ راوی، دوسری بیوی عنقریب میڈیا سے رجوع کرنے والی ہے۔ انکشافات تو اور بھی بہت لیکن کالم کا دامن تنگ ،اِس لیے گاہے گاہے ذکر ہوتا رہے گا۔ آخری بات یہ کہ ۔ ہم تو بَس ”ایویں ای” لکھا کرتے تھے کہ اِس حمام میں سبھی ننگے ہیں لیکن الیکشن کمیشن نے تو ثابت ہی کر دیا۔