جو لوگ اندھا دھند مشرف کے حامی ہیں انکو اتنا کہتا چلوں کہ اگر کسی گھر کا مالک ناہل ہے۔ اسکی کارکردگی اچھی نہیں ہے اور گھر کا نظام بہتر نہیں چل رہا ہو تو کیا گھر کے چوکیدار کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ گھر پر قبضہ جمالے۔ دلیل یہ دے کہ چونکہ گھر کے حالات ٹھیک نہیں تھے اس لئے آج سے اس کا میں مالک ہوں۔ حقیقت یہ ہے کہ چوکیدار اور راہگیر و راہزن کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ اس بات کو جواز بنا کر شب خون مارے کہ گھر کے معاملات سہی ڈگر پر نہیں جا رہے ہیں۔
ادارے حالات کی بہتری کے لیئے مشاورت و معاونت تو کر سکتے ہیں مگر منتخب حکومتوں کو پابند سلاسل کرکے آئین و قانون سے کھلواڑ نہیں کیا جا سکتا ہے۔ اس ضمن میں جنرل مشرف کے 12اکتوبر اور ٣ نومبر کے اقدامات غیر قانونی اور شرمناک تھے۔ جو بھی شخص چھوٹے سے چھوٹا یا بڑے سے بڑا جرم کرتا ہے یا قانون کو ہاتھ میں لیتا ہے۔ اسے اسکی سزا ملنی چاہئے۔ چاہے وہ عام آدمی ہو، کوئی طاقت ور بیورکریٹ ہو، صاحب ثروت سیاستدان ہو یا کوئی جرنیل۔ خود عدالتوں میں بیٹھے ہوئے افراد بھی طاقت و غرور کے کھٹمنڈ میں ماورائے آئین کوئی قدم اٹھائیں تو انکی بھی سخت گرفت ہونی چاہئے۔
اس میں بھی دو رائے نہیں ہے کہ اس وقت پرویز مشرف سنگین حالات کا سامنا کر رہا ہے۔ کچھ تو اس کے اپنے قبیح اعمال کا شاخسانہ ہے اور کچھ ان انتہاپسند قوتوں کی کارستانی بھی ہے جنہیں اس نے اپنے دورا قتدار میں چیلنج کرنے کی کوشش کی تھی۔ دراصل ضیاء الحق کے عنانِ حکومت سنبھالتے ہی اسٹبلشمنٹ پوری طرح قدامت پسند اور انتہاپسند قوتوں کے ہاتھوں کھیلنے لگی۔
Lal Masjid Operation
یہی سے مسلح گروپ جنم لینے لگے۔ گولہ بارود کی ریل پیل ہونے لگی۔ جہادی گروہ افغانستان اور کشمیر کے نام پر طاقت ور ہونے لگے۔ پرویز مشرف نے اس فضاء میں تبدیلی کوشش کی۔ انہوں نے پاکستان کے امیج کو بہتر کرنے کی کوشش کی۔ یہاں سے اتنہاپسند قوتیں انکے مخالف آنے لگیں۔ ان پر خود کش حملے بھی ہوئے۔ لال مسجد آپریشن بھی اسی کی ایک کڑی ہے۔ المیہ یہ ہے کہ عام آدمی اس آپریشن کے حوالے سے محض افواہوں اور کنسپریسی تھیوریزپر نگاہ رکھتا ہے۔ اس آپریشن سے پہلے کی لاقانونیت اور راست کو درپیش چیلنجز اس کی نگاہ سے اوجل ہیں۔ اس آپریشن سے پہلے پاکستان آرمی اور ائین پاکستان کے خلاف واضح فتاویٰ کو پھیلایا جانے لگا۔ پاک فوج کو مرتد قرار دے کر اسکے خلاف محاز تیار کرنے کی کوشش کی گئی۔ جگہ جگہ پفلٹ تقسیم ہونے لگے۔ عملی طور پر لال مسجد اور جامعہ حفصہ سے ڈنڈا بردار افراد کی یلغار ہونے لگی ریاست کی رٹ چیلنج ہوئی۔ تب فوج حرکت میں آئی اور یہ آپریشن نا گزیر ہوا۔
اس وقت اسٹبلشمنٹ دو گروہوں میں تقسیم نظر آتی ہے۔ ایک ضیاء الحق کے طرز کی انتہاء پسند سوچ کی عکاسی کرتی ہے اور دوسری مشرف طرز کی روشن خیال۔ یہی وجہ ہے کہ مشرف کیس کے معاملے میں ہمیں گو مگوں کی کیفیت نظر آرہی ہے۔ خوش آئیند پہلو یہ ہے کی آرمی کی نئی ڈاکٹرائن کے مطابق پاک آرمی مسلح گرہوں اور انہتاپسندی کو ملک کیلئے سب سے بڑا خطرہ سمجھتی ہے۔ اس حوالے سے خود جنرل راحیل شریف کی کاوشیں قابل قدر ہیں۔ کوئی شک نہیں کہ آرمی ایک منظم فعال اور سب سے زیادہ محب وطن ادارہ ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ یہ ادارہ کیا اقدامات اٹھاتا ہے؟ مجموعی طور پر ان سوالات پر سنجیدگی سے غور کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
کیا صرف مشرف کے خلاف ہی سلکٹیو ججمنٹ ملک کے مفاد میں ہو گا؟ ایک ایسا شخص جس نے اپنی پوری زندگی سرحدوں کی حفاظت اور دفاع وطن میں گزاری ہو اس کو کرپٹ حکمرانوں اور ملک دشمن دہشت گردوں کی حمایت میں قربان کیا جانا دانشمندی ہو گی؟ مشرف کا ٹرائل اگر ہونا اتنا ہی ناگزیر ہے تو ٣ نومبر کے بجائے ٢ اکتوبر سے ہونا چاہئے۔ میری دانست میںانصاف کا تقاضا تو یہی ہو گا کی تحقیقات کا دائرہ کارگل کے معاملات تک پھیلایا جائے۔ تب جاکر دوھ د کا دوھد اور پانی کا پانی واضع ہو جائے گا۔
آخر میں یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ عدلیہ کی جانب سے مشرف کیس کا ممکنہ نتیجہ کیا نکل سکتا ہے؟ چونکہ اب عدلیہ بھی تبدیلی کی راہ پر گامزن ہے۔ اس حوالے سے میں ایک نہایت دلچسپ پہلو آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں۔ ہو سکتا ہے یہ آپ کو بے حد حیرت انگیز معلوم ہو۔ اگر اس وقت چیف جسٹس کے مسند پر افتخار چوہدری فائز ہوتے تو جنرل مشرف تمام کیسز سے بری ہوبھی چکے ہوتے۔ وہ عدالت سے پوری طرح ڈرائی کلین ہو کر نکل آتے۔ یاد رہے کہ اسے تمام اہم کیسز میں کلئیر قرار بھی دیا جاچکا تھا۔ اس تمام اچھوتے کھیل کے محرکات کے پیچھے افتخار چوھدری کی چند مجبوریاں ہیں جن کا فائدہ عرب اور خلیجی ممالک نے بھر پور فائدہ اٹھایا۔ بے شک افتخار چوہدری نے وقت کی جابر قوتوں کو للکارا تھا۔ عوامی پزیرائی بھی ملی۔ وہ طاقت و شہرت کا منبہ بھی بن گئے۔
یہ حقیقت ہے کہ ایک وقت ایسا بھی آیا تھا جب زرداری دور حکومت میں اسٹبلشمنٹ اور حکومت تمام ججز کو باور کرنے میں کامیاب ہوئی تھی کہ وہ ریٹارمنٹ لے لیں۔کہانی میں اس وقت موڑ آیا جب بیرون ملک سے ڈوریاں ہلنے لگی۔ چند خلیجی اور عرب ممالک کا آشیرباد حاصل ہونے لگا۔ اور خوب سرمایہ لگنے لگا۔ عدلیہ تحریک جنم دینے لگی۔ یاد رہے کہ اس تحریک میں اس وقت جان آگئی جب نواز شریف میدان میں اترے کیونکہ پنجاب میں گورنر راج نافذ ہو چکا تھا۔ رنگ میں بھنگ! یہ تمام سرمایہ انتہاپسند قوتوں کے ذریعے اس تحریک کی بھٹی میں جھونگ دیا گیا۔
یہی وجہ ہے کہ گزشتہ عدلیہ انتہاپسندی اور دہشت گردی کے سنگین اور غیر انسانی واقعات کے دوران خاموش تماشائی بنی رہی۔ البتہ بہت سے دہشت گرد رہا بھی کئے گئے۔ ڈارمائی رخ یہ ہے کہ مشر ف بھی ہمیشہ سے عرب ممالک کے منظور نظرر ہے ہیں۔ حاصل گفتگو اگر افتخار چوہدری ہوتے تو رقابت کے باوجود مشرف کیلئے یہ پتہ خوب کام آتا۔ اب مشرف کی کیفیت بے آب ماہی کی طرح ہو چکی ہے۔ مشرف کے ستارے اس وقت تک گردش میں نظر آتے ہیں جب تک اسٹبلشمنٹ کی روشن خیال اور معتدل قوتیں کھل کر اپنا وزن انصاف کے ترازوں میں نہ ڈالیں۔ ورنہ غداری کا داغ ہمیشہ کے لئے انکے ماتھے کا ٹیکہ بن جائے گا۔