پشاور (جیوڈیسک) پشاور کی زرعی یونیورسٹی میں 7 سال کے طویل وقفے کے بعد کانووکیشن ہوا، اس میں کسی ایک بھی طالب علم کو ڈگری نہیں دی گئی بلکہ خالی فولڈرز تھما دیےگئے۔
پشاورکی زرعی یونیورسٹی کا دسواں مگر انوکھا کانووکیشن ہوا، جس میں 340 طلبہ و طالبات ڈگریاں لینے پہنچے مگر ان میں سے کسی کوبھی ڈگری نہ ملی،تقریب میں چانسلر سب کو خالی فولڈرز ہی تھماتے رہے۔
تقریب میں سونے پر سہاگہ جیسا ماحول تب پیدا جب یونیورسٹی انتظامیہ ایک گولڈ میڈلسٹ کا نام ہی لسٹ میں ڈالنا بھول گئی ۔ آئی بی ایم ایس کی گولڈمیڈلسٹ نازش شیرین کا کہناتھا کہ رجسٹریشن کرائی تھی جبکہ گولڈ میڈلسٹ طلبہ کی لسٹ میں میرا نام شامل ہی نہیں کیا گیا ۔
7 سال کے طویل وقفے کے بعدزرعی یونی ورسٹی کا کانووکیشن ہوا، جس میں بیشتر طلبہ3 ہزار روپے رجسٹریشن فیس یا اطلاع نہ ہونے کی وجہ سے شرکت سےرہ گئے،رہی سہی کسر چانسلر سردار مہتاب احمد خان نےیہ کہہ کر پوری کر دی کہ یونیورسٹی میں طلبہ کو عملی زندگی سے مطابقت رکھنےوالی تعلیم فراہم کی جائے،ان کا مزید کہناتھا کہ زرعی یونیورسٹی سے ہر سال ہزاروں گریجویٹس نکلتے ہیں لیکن آج بھی صوبے کو خوراک کے لیے دوسروں پر اکتفا کرنا پڑتا ہے ۔
ان سب کے باوجود زرعی یونیورسٹی سے سال 2009 تا 2012 کےدوران فارغ التحصیل طلبہ کو کانووکیشن کی شکل میں مل بیٹھنے اور سیلفیاں بنانے کا موقع ضرور میسر آیا،ایک گولڈ میڈلسٹ کا کہناتھا کہ وہ بہت خوش ہے ،مزید اسٹڈی کا ارادہ ہے ، ملک ہی میں رہ کر فیلڈ جائن کرونگا۔
کانووکیشن ختم ہونے کےبعد طلبہ واپس اپنے گھروں کو لوٹنے لگے تو یہاں بھی انہیں ایڈمن آفس میں رکھے گئے سیل فون کی وصولی کے لیےفی کس 50روپے دینے پڑے۔