تحریر : وقار احمد اعوان پاکستان کے لیے یہ بات قابل فخر ہے کہ یہاں کئی خواتین مختلف شعبوں میں نمایاں کارکردگی دکھا رہی ہیں لیکن یہاں کی اکثر خواتین کے مصائب بھی بے پناہ ہیں۔ صنفی عدم مساوات کے حوالے سے ورلڈ اکنامک فورم کی طرف سے جاری ہونے والی تازہ ترین گلوبل جینڈر گیپ رپورٹ میں 144 ممالک میں پاکستان کا نمبر 143 ہے۔ پاکستان اس فہرست میں اپنے ہمسایہ ملکوں بنگلہ دیش اور بھارت سے بھی کہیں کم درجے پر ہے۔ اس فہرست میں آخری پوزیشن پر یمن ہے۔پاکستانی معاشرے میں سماجی ترقی کے اعتبار سے حیران کن تضادات نظر آتے ہیں۔ شہری علاقوں میں لوگوں کو تعلیم اور صحت سے لے کر کئی دیگر شعبوں میں بھی کافی زیادہ سہولتیں اور مواقع حاصل ہیں۔ چھوٹے شہروں اور قصبوں میں یہ سہولتیں کافی کم ہیں، دیہی علاقوں میں یہ سہولتیں نہ ہونے کے برابر ہیں جبکہ قبائلی علاقے ابھی تک گویا قرونِ وسطی کے دور ہی سے باہر نہیں نکلے۔اس وسیع تر تقسیم پر مردانہ شاونیت اور ایسے طے شدہ سماجی کرداروں کی چھاپ ہے، جس میں خواتین کی اپنی انفرادی حیثیت کو تسلیم نہیں کیا جاتا بلکہ انہیں ماں، بیویوں، بیٹیوں اور بہنوں ہی کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ اس کا نتیجہ مردوں کے غلبے والے معاشرے کی صورت میں برآمد ہوتا ہے۔
سماجی امور کی خاتون ماہر کے خیال میں خواتین کو ملازمتوں اور کیریئر کے حوالے سے بہت کم مواقع فراہم کیے جاتے ہیں،ان کی زندگیوں کا فیصلہ ان کے اہل خانہ کرتے ہیں، ان کے لیے اقتصادی طور پر آزادانہ کیریئر چننے کے بہت کم مواقع ہوتے ہیں، ان کے اقتصادی حقوق کا فیصلہ ان کے گھر کے مرد ارکان کرتے ہیں۔گھریلو ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ پاکستانی خواتین فیکٹریوں، اینٹوں کے بھٹوں اور کھیتوں میں بھی کام کرتی ہیں۔ انہیں ان کھیتوں پر کام کرنے کا کوئی معاوضہ نہیں ملتا، جو ان کے اپنے خاندان کی ملکیت ہوتے ہیں۔ کھیت کسی اور کے ہوں تو بھی انہیں ملنے والا معاوضہ یا تو خاندان کی کل کمائی کا حصہ بن جاتا ہے یا پھر سیدھا گھر کے مرد ارکان کی جیبوں میں چلا جاتا ہے۔پاکستان کے کچھ دیہی اور قبائلی علاقوں میں خواتین کی حیثیت ایسے غلاموں کی سی ہے، جنہیں صرف کھانے اور پہننے کو ہی دینا پڑتا ہے۔ شہری علاقوں میں ملازمت پیشہ خواتین کو کئی ایک مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جن میں جنسی طور پر پریشان کیے جانے سے لے کر تنخواہوں میں امتیازی سلوک اور استحصال تک شامل ہوتے ہیں۔جیسے ملالہ یوسف زئی نے لڑکیوں کی تعلیم کے لیے مہم چلائی، طالبان کی نفرت کا نشانہ بنیں اور اپنی کوششوں کے بدلے میں نوبل انعام حاصل کیا،اسی طرح پنجاب یونیورسٹی سے وابستہ سیاسی امور کی ایک ماہرکے خیال میں جن شہری خواتین کو ملازمت کی اجازت مل بھی جاتی ہے اور وہ پرکشش تنخواہیں بھی گھر لاتی ہیں تب بھی انہیں گھر کے فیصلوں میں شرکت کا حق نہیں دیا جاتا۔امریکا میں قائم اوپن سوسائٹی فانڈیشن سے وابستہ سماجی کارکن فوزیہ نقوی پاکستان میں ترقی اور اقتصادی متبادلات کا انسٹیٹیوٹ چلاتی ہیں۔ ان کے خیال میں بھی پاکستانی خواتین کے کام کی زیادہ قدر نہیں کی جاتی،کروڑوں خواتین گھر چلاتی ہیں لیکن ان کے اس کام کو کام ہی نہیں سمجھا جاتا۔ یہ خواتین تین روز کے لیے بھی کام چھوڑ دیں تو ملک کا دیوالیہ نکل جائے۔
تب انہیں خواتین کی اقتصادی اہمیت کا پتہ چلے گا۔پاکستان کی تاریخ میں ملک کے بانی محمد علی جناح کی بہن فاطمہ جناح کی طرح کی ممتاز خواتین کا نام بھی آتا ہے، جنہیں ایک ایسے اپوزیشن اتحاد نے اپنی سربراہ منتخب کیا تھا، جس میں انتہائی قدامت پسند مذہبی رہنما بھی شامل تھے۔ فاطمہ جناح نے فوجی آمر ایوب خان کے مقابلے پر صدارتی انتخابات میں حصہ لیا تھا اور اگر دھاندلی نہ ہوتی تو وہ ملک کی پہلی خاتون صدر منتخب ہو سکتی تھیں۔ پھر بے نظیر بھٹو کسی مسلمان ملک کی پہلی خاتون وزیر اعظم بنیں۔یاد رہے کہ سابق پاکستانی وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کسی مسلمان ملک میں اس عہدے تک پہنچنے والی پہلی خاتون تھیں۔حال ہی میں دیکھنے میں آیا کہ ملالہ یوسف زئی نے کیسے لڑکیوں کی تعلیم کے لیے مہم چلائی، کیسے وہ طالبان کی نفرت کا نشانہ بنیں اور کیسے انہوں نے اپنی کوششوں کے بدلے میں نوبل انعام حاصل کیا۔ شرمین عبید چنائے ایسی فلموں کی پروڈیوسر اور ڈائریکٹر بنیں، جنہوں نے آسکر ایوارڈ حاصل کیے۔ نگہت داد کو سائبر سکیورٹی کے شعبے میں اپنی سرگرمیوں کی بدولت ہالینڈ کی حکومت کے حقوقِ انسانی ٹیولپ ایوارڈ جیسے بین الاقوامی اعزازات سے نوارا گیا۔
پاکستان میں اور بھی بہت سی خواتین پولیس اور فوج کے ساتھ ساتھ سرکاری شعبوں میں بھی سرگرم عمل ہیں۔اسی حوالے پشاورکی ایک غیر سرکاری تنظیم ”دی سبلائم پشاور”کے زیر اہتمام گزشتہ روز پشاور کی مختلف شعبہ ہائے سے تعلق رکھنے والی خواتین کو ان کی بہترین خدمات پر ”پشاور ایوارڈبرائے 2017”سے نواز اگیا۔اس موقع پرخیبرپختونخوا اسمبلی کی موجودہ ڈپٹی سپیکر ڈاکٹر مہرتاج روغانی مہمان خصوصی تھیں،ان کے علاوہ پشاور کے نائب ناظم سید قاسم علی شاہ بھی موجود تھے۔تقریب میںپشاور سے تعلق رکھنے والی مختلف شعبہ جات سے خواتین کو ان کی بہترین خدمات پر پشاور ایوارڈ دیا گیا۔ان میں پشاورکی پہلی خاتون ایس ایچ او رضوانہ حمید،باچا خان گرلز کالج کی پرنسپل شاہین عمر،پشتو گلوکارہ نازیہ اقبال،پشتو اردو گلوکارہ ستارہ یونس،ہندکو شاعرہ رانی بانو،اینکر پرسن روبینہ قریشی،وائس چانسلر ویمن یونیورسٹی رضیہ سلطانہ،ڈاکٹر ماریہ مسرت،ماہین قاسم علی شاہ،اینکرپرسن حنا رئوف،اینکر پرسن فوزیہ بخاری،ڈاکٹر حمیرا گیلانی،ڈپٹی سپیکر مہرتاج روغانی،ویمن چمبر آف کامرس کی صدر شمامہ ارباب،رفعت علی سید،پشتو شاعرہ کلثوم زیب،شمیم فضل خالق،درِشاہ ور زمان،عفت صدیقی،اداکارہ ثمینہ سحر وغیر ہ شامل تھیں۔یاد رہے کہ اس سے قبل بھی دی سبلائم پشاور ،پشاورکی 36مرد شخصیات کو ان کی خدمات پر پشاور ایوارڈزدی چکی ہے۔اس موقع پر پشاور سے تعلق رکھنے والی خواتین وحضرات کی کثیر تعداد موجودتھی،ہال میں تل دھرنے کی جگہ نہ تھی،اوپر سے موسم کی خوشگواری یقیناپروگرام کو چارچاند لگا گئی۔
تقریب کے میزبان معروف ٹی وی اینکر پروفیسر ملک ارشد حسین اور حنا رئوف تھے جو اکثر پاکستان ٹیلی وژن پشاورسے ہندکو کا پروگرام کرتے رہتے ہیں۔نہ صرف یہ بلکہ تقریب میںشریک محفل کے لئے موسیقی کا بھی بہترین انتظام موجود تھا جس سے حاضرین محفل لطف اندوز ہورہے تھے۔یہ پہلا موقع تھا جب کسی بھی تنظیم کی جانب سے پشاور کی مختلف خواتین کو ایوارڈز دیے گئے ،حالانکہ ماضی میں ایسی کئی تقریبات بپا کی گئیں تاہم مذکورہ تقریب دیدنی تھی جسے بھلایا نہیں جاسکتا۔ایسی تقاریب موجودہ دور میں امن کاپیغام لاتی ہیںتو ساتھ معاشرہ کا ایک اہم حصہ جنہیںاکثر دیوارسے لگادیا جاتاہے کی حوصلہ افزائی یقینا لائق تحسین اقدام ہے۔حالانکہ یہ تمام تر کامیابیاں بھی ملک کی خواتین کی اکثریت کی حالت بدلنے میں کوئی کردار ادا نہیں کر پا رہیں۔ماہرین کے خیال میں یہ خواتین اس لیے کچھ نہیں کر پاتیں کیونکہ انہیں مغرب زدہ اور اسلامی تعلیمات کا مخالف سمجھا جاتا ہے۔ ان کے اور خواتین کے امور کی ماہر دیگر خواتین کے خیال میں ضرورت اس بات کی ہے کہ مردوں کو خواتین کی قدر اور ان کا احترام کرنا سکھایا جائے جبکہ اس سے بھی زیادہ ضروری یہ ہے کہ معاشرے میں پائی جانے والی صنفی عدم مساوات کو ختم کیا جائے۔
اس موقع پر ڈپٹی سپیکر ڈاکٹر مہرتا ج روغانی کاکہنا تھاکہ جیساکہ ہم سب جانتے ہیںکہ عورت ہر معاشرے کا اتنا ہی اہم حصہ ہے جتنا کہ مرد۔ تب بھی ترقی یافتہ سے لے کر ترقی پذیر معاشروں تک عورتوں کو اپنے جائز مقام اور مردوں کے مساوی حقوق کے لیے جدو جہد کرنا پڑ رہی ہے۔ خواتین کی حوصلہ افزائی کی ایک کوشش۔مشرق ہو یا مغرب، خواتین کا مقام وہاں کی معاشرتی اقدار اور روایات کے مطابق ہوتا ہے۔ ترقی یافتہ دور میں دونوں ہی طرح کے معاشروں میں خواتین کے روایتی کردار میں تبدیلی آئی ہے۔ خواتین اب اپنی روایتی ذمہ داریاں پورا کرنے کے ساتھ ساتھ مختلف شعبہ ہائے زندگی میں بھی نمایاں کردار ادا کر رہی ہیں۔ اس کی سب سے بڑی اور اہم وجہ خواتین میں تعلیم حاصل کرنے کا بڑھتا رجحان ہے۔ عورتوں کی تعلیم کی اہمیت کا شعور اب دنیا کے ان قدامت پسند معاشروں میں بھی اجاگر ہونے لگا ہے جہاں والدین لڑکی کی پیدائش سے ہی زر اور زیور جمع کرنے کی فکر میں گھلنا شروع ہو جاتے تھے کیونکہ انہیں اپنی بیٹی کو بیاہنے کا بندوبست کرنا اپنا اولین فریضہ لگتا تھا۔ جیسے جیسے لڑکیاں تعلیم کے زیور سے آراستہ ہونے لگیں، ویسے ویسے والدین کے کندھوں پر سے یہ بوجھ کم ہونا شروع ہو گیا۔یادرہے کہ مغربی دنیا میں حقوق نسواں کی تحریک انیسویں صدی میں فرانسیسی سرزمین سے شروع ہوئی، جسے Feminism یا نسائیت کا نام دیا گیا۔ اس کا بنیادی مقصد خواتین کو سماجی حقوق کے ساتھ ساتھ اپنا حق رائے دہی استعمال کرنے یعنی ووٹ ڈالنے کا حق دلوانا تھا۔ نسائیت کی تحریک کے مقاصد میں عورتوں کے لیے حقِ رائے دہی، مساوات، عورتوں کی ضروریات، حقِ وراثت، آزادی رائے، خود کفالت اور آزاد خیالی کے ساتھ ساتھ خانگی ایذا یا گھریلو تشدد اور آبروریزی سے تحفظ وغیرہ بھی شامل ہیں۔مغربی معاشروں میں سیاسی سطح پر خواتین کو ان میں سے بہت سے حقوق دلوانے کے لیے حقوق نسواں کی علم بردار تنظیموں اور سرگرم افراد کی کوششیں کافی حد تک رنگ لائیں اور مذکورہ حقوق میں سے بیشتر مغربی عورتوں کو رفتہ رفتہ مل ہی گئے۔ یہ الگ بات ہے کہ مغربی معاشروں میں زندگی کے بہت سے شعبوں میں اب بھی خواتین کو مردوں کے مساوی حقوق اور مقام حاصل نہیں ہے تاہم آزادی رائے، تعلیم، خود کفالت اور گھریلو تشدد وغیرہ کے خلاف قانونی تحفظ جیسے حقوق انہیں حاصل ہو گئے۔حقوق نسواں کے ضمن میں مشرقی معاشروں بالخصوص جنوبی ایشیا میں صورتحال مغرب سے کہیں مختلف ہے۔ اٹھارہ سو ستاون کی جنگ آزادی کے بعد اگرچہ جنوبی ایشیا میں بھی خواتین کے لیے ایسی تحریکوں نے سر اٹھایا تاہم یہ تحریکیں دور حاضر تک بھی وہاں کی عورتوں کو وہ حقوق نہ دلا سکیں، جو مغرب کی عورتوں کو بیسویں اور اکیسیوں صدی میں میسر آ چکے ہیں۔ اس کی کیا وجہ ہے؟ متحدہ ہندوستان میں، جہاں اب بھارت، پاکستان اور بنگلہ دیش کی صورت میں تین علیحدہ علیحدہ خود مختار ریاستیں وجود رکھتی ہیں، انیسویں صدی میں مولوی سید ممتاز علی کے ایما پر تحریک حقوق نسواں کا آغاز ہوا لیکن اس کے اثرات بہت سست روی کے ساتھ مرتب ہونا شروع ہوئے۔ برصغیر کی خواتین نے تعلیم حاصل کرنا شروع کی اور انہوں نے اپنے حقوق کے لیے آواز بھی اٹھانا شروع کی تاہم ایسی خواتین کی تعداد بہت کم تھی اور ان کا تعلق معاشرے کے ایک خاص طبقے سے تھا۔
بیسویں صدی میں بر صغیر کی سر زمین پر پہلے دو اور سقوط ڈھاکہ کے بعد تین ریاستوں نے جنم لیا۔ان تینوں معاشروں میں تعلیم تیزی سے عام ہوئی اور خواتین میں تعیلم اور اپنے حقوق کے حصول کا شعور بھی بیدار ہوا۔ صنعتی ترقی کے مثبت اثرات کے نتیجے میں خواتین روزگار کی منڈی میں بھی نظر آنے لگیں۔ اگرچہ ان ممالک کی اقتصادی ترقی میں بھی خواتین کا کردار اہم ہے تاہم دنیا کے دیگر ایسے معاشروں کی طرح، جہاں مردوں کی اجارہ داری ہے، جنوبی ایشیائی ملکوں میں بھی خواتین کے چند بنیادی حقوق کا تحفظ اب بھی قانونی دستاویزات میں تو موجود ہے تاہم اس پر پوری طرح عملدرآمد نہ ہونے کے سبب عورتوں کی صورتحال نہایت دگرگوں ہے۔ سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ خواتین کے مساوی حقوق کا تصور ان معاشروں کے مردوں کی اکثریت کے لیے اب بھی قابل قبول نہیں ہے۔ عورت اب بھی مرد کی جاگیر تصور کی جاتی ہے۔ تعلیم کے فقدان والے معاشرتی طبقے میں تو ایسا ہے ہی مگر تعلیم یافتہ طبقے میں بھی آئے دن ہونے والے واقعات اس امر کا منہ بولتا ثبوت ہیں کہ معاشرے کے مرکزی دھارے کا عورت کے مقام کے بارے میں تصور، سوچ اور رویہ بدل نہیں پایا۔ جنوبی ایشیائی معاشروں میں روزمرہ زندگی کے چھوٹے موٹے واقعات اور گھریلو مسائل سے لے کر پارلیمان کے ایوانوں تک عورتوں کے ساتھ مردوں کا رویہ اس امر پر غور کا متقاضی ہے کہ آخر ایسا کیوں ہے؟
بہرحال پاکستان میں زندگی کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والی خواتین نہ صرف اپنی مثال آپ ہیں بلکہ عزم و ہمت کی زندہ جاوید تصویر بھی ہیں۔ ایسی چند پاکستانی خواتین کا تعارف، جو دوسروں کے لیے مشعل راہ ہیں۔اس موقع پر دی سبلائم پشاور کی چیئرپرسن منزہ ارشدکاکہنا تھاکہ آج کے دور میں عورت کے ساتھ نا انصافی اور استحصال کے خلاف خود خواتین بھی باہمی رابطوں اور مدد کے لیے زیادہ منظم اور کشادہ دِل نظر آتی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ خواتین کے مابین مکالمے اور رابطے کی آج کتنی اہمیت اور ضرورت ہے؟خواتین اگر ایک دوسرے کا ساتھ دیں تو نہ صرف دفتری فضا کو اپنے حق میں بہتر بنا سکتی ہیں بلکہ سماجی سطح پر بھی وہ تبدیلی لا سکتی ہیں جو کوئی اور نہیں لا سکتا۔یادرہے کہ اس سال خواتین کے عالمی دن کے موقع پر اقوامِ متحدہ کے خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والے ذیلی ادارے یو این وومن کا موضوع ملازمتوں کی بدلتی ہوئی فضا میں خواتین کے حقوق کی صورت ِ حال اور سن 2030 تک مرد اور عورت کے درمیان حقوق میں توازن لانا ہے۔ اس منصوبے کو یواین وومن نے پلینٹ ففٹی ففٹی 2030 کا نام دیا ہے۔یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ عمومی طور پر دفاتر میں کام کرنے والی خواتین کو جس ماحول کا سامنا کرنا پڑتا ہے وہ کس حد تک ان کی کام کی صلاحیتوں کو متاثر کر سکتا ہے اور ایسے میں اپنی خاتون ساتھی کی حمایت اور مدد کتنی ضروری ہو جاتی ہے۔
پاکستان کی نامور اداکارہ عفت صدیقی کاکہنا تھاکہ جس تیزی سے زمانہ بدل رہا ہے اس میں کیا عورت اور کیا مرد ہر دو اصناف کی سوچ میں تبدیلی آرہی ہے، تاہم بعض طبقات میں آج بھی یہ تسلیم نہیں کیا گیا کہ عورت ایک جیتا جاگتا وجود ہے۔ اور اسی لیے غیرت کے نام پر قتل اور کمسن بچیوں کے عمر رسیدہ افراد سے شادیوں کے واقعات آئے دن سننے کو ملتے ہیں۔ آج بھی دفاتر میں مردوں کی جانب سے ان کے ساتھ کام کرنے والی خواتین کے بارے میں اکثر اوقات یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ وہ ان صلاحیتوں کی مالک نہیں، جن سے ان کے ساتھی مرد حضرات مالا مال ہیں۔ لیکن اگر ملازمت کی جگہ پر کام کرنے والی خواتین اس رویے کے خلاف متحد ہو جائیں اور ایک دوسرے کا ساتھ دیں تو ان سماجی رویوں کو تبدیل کیا جا سکتا ہے۔خواتین اگر ایک دوسرے کا ساتھ دیں تو نہ صرف دفتری فضا کو اپنے حق میں بہتر بنا سکتی ہیں بلکہ سماجی سطح پر بھی وہ تبدیلی لا سکتی ہیں جو کوئی اور نہیں لا سکتا۔بیگم قاسم علی شاہ کاکہنا تھا کہ بظاہر تو ایسا لگ رہا ہے کہ خواتین معاشرے میں ہر سطح پر اپنا مقام بنا رہی ہیں تاہم اصل حقیقت یہ ہے کہ عورت کو آزادی کے نام کا لالی پاپ تھما کر اسے دہری ذمہ داری سونپ دی گئی ہے۔ جس طرح چودہ سو سال پہلے بیٹی کو پیدا ہوتے ہی دفنا دیا جاتا تھا، دنیا کے مختلف سماجوں میں عورت آج بھی روایات میں، خواہشات میں اور اپنے بیڈ روم میں دفنائی جا رہی ہے، صرف طریقہ کار تبدیل ہوا ہے۔ آج پہلے سے کہیں زیادہ اِس بات کی ضرورت ہے کہ خواتین منظم ہو کر ایک دوسرے کا ساتھ دیں۔ معاشی اور سماجی سطح پر مضبوط خواتین محروم طبقے کی خواتین کی طرف ہاتھ بڑھائیں اور انہیں مستحکم ہونے میں مدد دیں۔ان کی رائے میں جو بات ایک خاتون اپنے شوہر، باپ یا بھائی سے نہیں کہہ سکتی وہ اپنی ماں، بہن اور سہیلی سے کہہ سکتی ہے۔ جو بات ایک خاتون اپنے شوہر، باپ یا بھائی سے نہیں کہہ سکتی وہ اپنی ماں، بہن اور سہیلی سے کہہ سکتی ہے، کیونکہ پاکستان جیسے روایت پسند معاشرے میں عورت کا ایک بڑا مسئلہ کیتھارسس ہے۔ اس تناظر میں ایک عورت کی دوسری عورت سے مکالمت بہت اہم ہے۔میں سمجھتی ہوں کہ خواہ وہ دفاتر میں کام کرنے والی خواتین ہوں یا اپنا بزنس چلانے والی خواتین یا کسی بھی شعبہ ہائے زندگی سے وابستہ ہوں، ان میں نہ صرف اپنے حقوق کے حوالے سے بلکہ دوسری عورتوں کے حقوق کی پاسداری کے حوالے سے بھی شعور کی سطح بہت بلند ہوئی ہے۔ اور ایک دوسرے کے لیے مشکلات پیدا کرنے کے بجائے مدد اور ہمدردی کے جذبات اجاگر ہو رہے ہیں۔ اور یہی وہ موڑ ہے جہاں سے کسی بھی سماج میں عورت کے معاشی اور جذباتی استحکام کا دور شروع ہوتا ہے۔
ماہر تعلیم اورباچاخان گرلز کالج پشاورکی پرنسپل شاہین عمر کی رائے میں اب یہ کہنا بجا ہو گا کہ ہر کامیاب عورت کے پیچھے ایک دوسری کامیاب عورت کا ہاتھ ہے، اب یہ فقرہ کہ ہر کامیاب مرد کے پیچھے ایک عورت کا ہاتھ ہے پرانا ہو چکا ہے بلکہ اب یہ کہنا بجا ہو گا کہ، ہر کامیاب عورت کے پیچھے ایک دوسری کامیاب عورت کا ہاتھ ہے۔ شاہین عمر نے عورت کے استحصال کے حوالے سے اپنا موقف بیان کرتے ہوئے کہا کہ چاہے مشرق ہو یا مغرب ہر جگہ عورت کے استحصال کی صورتیں جدا جدا ہیں۔ عورت کو آج بھی بیچا جارہا ہے، خریدا جا رہا ہے، بانٹا جا رہا ہے لیکن اس کے باجود جہاں جہاں عورتوں نے ایک دوسرے کو سہارا دیا ہے وہاں موسم بدل چکے ہیں اور امید ہو چلی ہے کہ اگر خواتین ایک دوسرے کے ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر چلیں گی تو یہ معاشرہ ایک دن ضرور بدلے گا۔ ان کے مطابق پاکستان کی موجودہ حکومت حقوق نسواں کے تحفظ کے لئے موثر اقدامات کر رہی ہے۔ معاشرے کے ہر شعبے میں خواتین کو ترقی کے مواقع فراہم کئے جا رہے ہیں۔ اس کی جیتی جاگتی مثال، موجودہ حکومتی دور میں ایک لیڈی ڈپٹی اسپیکر ڈاکٹر مہرتا ج روغانی کی تقرری ہے۔ اس عہدے پر اس سے پہلے کسی خاتون کو فائز نہیں کیا گیا۔ پاکستان میں خواتین کے امور سے متعلق قوانین میں بہت سی اہم ترامیم ہو چکی ہیں۔ آج پاکستان میں عورتوں کی صورتحال وہ نہیں جو دس سال پہلے تھی۔ اب پاکستانی خواتین مسائل کے انبار تلے دبی نظر نہیں آتیں۔ قوانین کے حوالے سے خواتین کو اس حد تک قانونی تحفظ فراہم کر دیا گیا ہے کہ پاکستانی مرد اب اس امر پر تشویش کا اظہار کر رہے ہیں کہ ان کے معاشرے میں خواتین کو کچھ زیادہ ہی قانونی تحفظ دیا جا رہا ہے۔یادرہے کہ خواتین کے تحفظ سے متعلق بہت سے حقوق موجود ہیں تاہم المیہ یہ ہے کہ خود خواتین کو اس کا علم بہت کم ہے اور ان کے اندر اپنے حقوق جاننے اور ان کے حصول کی کوشش کا شعور بھی نہیں پایا جاتا۔ پاکستان میں فیملی لاز کے تحت خواتین کے نکاح اور طلاق سے متعلق قوانین میں اصلاحات کا عمل مسلسل جاری رہتا ہے۔ اعلی عدالتوں کی مسلسل یہ کوشش ہوتی ہے کہ خواتین کے لئے طلاق یا خلا وغیرہ کے قوانین کو سہل بنایا جائے اور ایسے مقدمات کو طویل عرصے تک کھنچنے کے بجائے اس کا فیصلہ جلد ممکن بنایا جائے۔اس قسم کے مسائل کا حل راتوں رات ممکن نہیں۔ پاکستانی معاشرے میں مردوں کی سوچ اور رویے میں تبدیلی کی ضرورت ہے جو آہستہ آہستہ رونما ہونا شروع ہوگئی ہے۔
آج سے دس سال پہلے اور اب کی صورتحال میں بہت تبدیلی آچکی ہے۔ اس وقت کوٹا سسٹم کی وجہ سے خواتین کو مختلف شعبوں میں مردوں کے شانہ بشانہ کام کرنے کے مواقع میسر ہیں۔ پاکستان میں اب عورتیں بھی معاشرتی ذمہ داریوں کو نبھانے کے عمل میں اہم کردار ادا کر رہی ہیں اور اس طرح مرد آہستہ آہستہ اس بات کے عادی ہو رہے ہیں کہ خواتین بھی مختلف شعبوں میں کام کرتی دکھائی دے سکتی ہیں۔ اب کام کرنے والی عورتوں کو عجوبہ نہیں سمجھا جاتا۔دوسری جانب دفاتر اور تعلیمی اداروں میں کوٹا سسٹم کے نفاذ سے خود خواتین کے اندر آگے سے آگے بڑھنے اور مقابلہ کرنے کا شوق بیدار ہوتا جا رہا ہے۔ پاکستان میں بہت سے شعبوں میں خواتین کو اعلی عہدے بھی دیے جا رہے رہیں۔ زیادہ سے زیادہ خواتین ججوں کی تقرری کو فروغ دیا جا رہا ہے تاکہ فیملی یا خاندانی مسائل کے قانونی حل میں عورتوں کی پوری پوری نمائندگی ہو سکے اور انکے مسائل مردوں کے رحم و کرم پر نہ چھوڑ دئیے جائیں۔اس لئے ضرورت اس امرکی ہے کہ خواتین کو ان کے جائز حقوق دیے جائیں تو ساتھ انہیں آگے آنے کے بہترین مواقع تاکہ وہ بھی اپنی بھرپور صلاحیتوںسے معاشرہ ،ملک اور قوم کی خدمت کرسکیں۔تبھی ہمارا معاشرہ ترقی کر سکتا ہے۔