تحریر : وقار احمد اعوان پشاور چونکہ ماضی کا پشاو رنہ رہ سکا اس لئے اب یہاں تہذیب وثقافت کی باتیں خشک معلوم ہوتی ہیں ،جہاں پشاور ماضی میں شاندار روایات کا امین کہلاتا تھا وہاں اسے پھولوں کا شہر کے لقب سے پکارا جاتا رہا،مگر وقت کی دھول پشاو رتو پشاور ساتھ اس کے باشندوں میں پائے جانے والے خلوص ومحبت،امن وبھائی چارے کو بھی دھندلا سا کرچکی ہے۔اب خال خال ہی یا پھر کہیں کہیں وہ محفلیں،مجلسیں ،بیٹھکیں سجی نظرآئیںگے ،پشاور کا باسی شایدہر گز نہیں چاہتا کہ اسے پشاور ی کے نام سے پکاراجائے ،بہرحال دیگر مسائل کے حل کی طرح ایک عرصہ سے پشاور کے لوگ کسی تفریح کے منتظر تھے جسے صوبائی حکومت نے محکمہ ثقافت کے ساتھ مل کر گزشتہ رو ز صوبائی دارالحکومت میں ایک شاندار دورروزہ نمائش منعقد کرواکے یہاںکے باشندوں کو تفریح مہیاکرنے کی کوشش کی۔نمائش آٹے میںنمک برابر ہی سہی کئی حوالوں سے بہتر تھی اورنہیں بھی۔یہاں نمائش کے انعقاد کو قابل تحسین اقدام اس لئے کہا جاسکتاہے کہ نمائش سے پشاورکے مخصوص لوگوں کو سستی تفریح کے ساتھ ساتھ صوبہ بھر کی ثقافت سے روشناس کرانے میںخاطر خواہ حد تک مدد مل سکی۔اس کے علاوہ ایک ہی چھت تلے صوبہ بھر میں ہاتھ سے بننے والی چیزیں کہ جن گھریلو دستکاری،زیور ات،لذیذ کھانے،دوائیاں ،جوتے وغیرہ شامل تھیں،دیکھنے اور خریدنے کا موقع ملا۔یوں مقامی خواتین کو دیگر شہروں کی خواتین کے وسائل مسائل سے بھی آگاہی مل گئی۔
یہاں یہ امر قابل ذکرہے کہ پہاڑی یا دوردراز علاقوں کی خواتین کا ملکی معیشت میںکتنا کردار شامل ہے،جو اپنے گھروں میں بیٹھ کر انتہائی کم میںپڑے کروڑوں کے ہیرے کی مانند ہیںجنہیں جوہری پرکھ اور تراش کر جب دنیا کے سامنے لاتاہے تب اس ہیرے کی مانگ میںاضافہ دیکھنے کوملتاہے۔ہرچند کہ کہیں کہیں بے چاریاں مناسب مواقع نہ ملنے پر ہنر کے ہوتے ہوئے بھی گمنامی کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہوتی ہیں۔ اس پرمزید سراسراناانصافی جب ان کی بنائی ہوئی چیزوں کو ایسی نمائشوں کی نذر کر دیاجاتاہے کہ جہاں چڑیا بھی دیکھ سمجھ کر پَر مارنے کی کوشش کرتی ہے۔کیونکہ حالیہ منعقد کی جانے والی دوروزہ نمائش پشاور کی ایسی جگہ پر منعقد کی گئی جہاں مقامی اور عام خواتین شاید سالوں میں بھی نہ جاتی ہوں۔اس کے برعکس اگر نمائش کا جناح پارک میں انتظام کیاجاتا تو شاید نمائش ،نمائش لگتی۔
پشاورکی مقامی خواتین زیادہ سے زیادہ شریک ہوتیں،فوڈز سٹالز لگائے جاتے ،بچوں کے لئے تفریحی مواقع میسر آتے،دنیا کو امن کا پیغام دیا جاتا۔زیادہ سے زیادہ فیملیز شریک ہوتیں،نمائش کے دورس نتائج برآمد ہوتے مگر ایسا کچھ بھی نہیں کیا گیا۔پشاورکے مقامی شادی ہال میں نمائش کے انعقاد سے اس کی اہمیت کا خاتمہ کردیاگیا۔ماناکہ موجودہ صورتحال کو مدنظر رکھ کر کسی بڑے سانحے سے بچنے کے لئے ایسا اقدام نہیںاٹھایا لیکن ان تمام باتوںکو مدنظر رکھنا ضروری ہوگا جس سے نمائش کے مثبت اثرات دیکھنے کوملتے۔جیسے پشاور کے وسط میں واقع تاریخی جگہ تحصیل گورگھٹڑی کسی بھی قسم کی نمائش کے لئے انتہائی موضوع جگہ ہے ،جہاں کھلے میدان،سرسبز وشاداب باغیچوں کے علاوہ تہذیبی وثقافتی رنگ نمایاں نظرآتے ہیں۔ایسی جگہوں میںنمائش کے انعقاد سے محکمہ ثقافت ایک تیرسے دوشکار کرلیتا۔
Culture
یوں ثقافتی نمائش کے ساتھ ساتھ تحصیل گورگھٹڑی کی تاریخی وثقافتی اہمیت سے آنے والوںکو اچھی خاصی جانکاری بھی حاصل ہوجاتی۔اور سب سے بڑھ کر کسی بھی بڑے سانحے سے بچنے میںمدد مل جاتی،کیونکہ یہ سب کے علم میںہے کہ پشاور کے مشہور بازارجہاں خواتین کا ہروقت رش رہتاہے ان میںمینا بازار،شاہین بازاراور اسی کے ساتھ کوچی بازار شامل ہیں بھی تحصیل گورگھٹڑی کے بالکل نزدیک پڑتے ہیں۔اس پر سونے پہ سہاگہ کہ مقامی تاجر دیگر شہروں سے آئی ہوئی مہمان خواتین کی مصنوعات میںاچھی خاصی دلچسپی لیتے اور یوں مہمان خواتین کی محنت سفل ہوجاتی۔گورگھٹڑی میں خواتین کے رش اورمصنوعات میںدلچسپی کو مدنظر رکھتے ہوئے مقامی تاجر زیادہ سے گھریلو دستکاریوں کو ترجیح دینے لگ جاتے،ملکی مصنوعات کی مانگ بڑھ جاتیں،ملکی پیسہ ملک ہی میں خرچ ہوتا،دیرپا اورپائیدار زچیزوں کی خرید وفروخت میںماضی کی طرح ایک بارپھر اضافہ دیکھنے کوملتا۔اوریوں معیشت کے پہیہ کو رواں دواں رہنے میںکسی بھی قسم کی دشواری کا سامنا نہ رہتا لیکن ایسا صرف سوچاجاسکتاہے۔ صوبائی حکومت واقعی میں ثقافت کے انعقادمیں دلچسپی رکھتی تو باقاعدہ پلان شدہ منصوبے کے تحت ان جگہوں کا تعین کرتی جہاں سے عام خواتین تو ساتھ دنیا کو پاکستان کے علاقائی رنگ دکھائے جاسکتے۔
ایک طرف تاریخی ،تہذیبی اور ثقافتی قدروں کو پھر سے اجاگر کرنے کے راگ الاپے جارہے ہیں تود وسری جانب پی ایس فائنل کے جیسے شہر کے انتہائی پوش علاقے میں سیکیورٹی کے درمیان نمائش کروائی گئی کہ جس کے بارے میں عام خواتین کو کوئی جانکاری نہیں۔یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ حالیہ نمائش میں غیر ملکی بھی شریک ہوئے لیکن کیا تحصیل گورگھٹڑی میںکروانے سے وہاں غیر ملکیوںکو تاریخی عمارت کے ساتھ نمائش کے مزے بھی لوٹنے دیے جاسکتے تھے۔اس کے علاوہ غیر ملکی شہر کے اندر واقعی دیگر تاریخی عمارتوںکی سیر حاصل سیرکرلیتے ،مگر جناب ایسا کچھ بھی نہیں کیا گیا۔پشاور کے مقامی شادی ہال میں برگر فیملیز شریک ہوئیں ،جن کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر تھی،حالانکہ باہر کسی دوسری جگہ نمائش کے انعقادسے اچھا خاصا ریونیو بھی حاصل کیا جاسکتاتھا،جیسے یہاں انٹری فیس سو روپے فی آدی رکھی گئی۔اگر یہی فیس دس روپے ہوتی اور کسی مقامی جگہ کا تعین کیا جاتا تو ہزاروں خواتین کے شریک ہونے سے ریونیو لاکھوںمیںہوتا تو ساتھ دیگر شہروںسے آئی ہوئی خواتین کی مصنوعات کی فروخت میں اضافہ دیکھنے کوملتا۔اور تو اور مستقبل میں بھی اس جیسی نمائشیں منعقد کروانے کی عوامی ڈیمانڈکی جاتی۔بہرحال اب چڑیا کھیت چگ چکی ہیں۔
اب اس پر جتنی بھی بحث کی جائے کارگر ثابت نہیںہوگی۔البتہ اس بارے آئندہ سوچا ضرور جاسکتاہے۔اس لئے ضرورت اس امرکی ہے کہ صوبائی حکومت بالعموم اور محکمہ ثقافت بلخصوص آئندہ کے لئے ایسی جگہ کا تعین کریں کہ جس سے پشاورکی عام خواتین زیادہ سے زیادہ مستفید ہوسکیں۔اگر تو صوبائی حکومت اور محکمہ واقعی میں اپنی ثقافت کی ترقی وترویج چاہتے ہیں،اپنی تاریخ وثقافت بارے دنیاکو پیغام دینا چاہتے ہیں،اور دنیا کو یہ بآور کرانا چاہتے ہیں کہ پشاور امن کا گہوارہ بن چکاہے ،بصورت دیگرایسی نمائشیں محدود سطح پر منعقد ہوتی رہیںگی اور جس کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔اور جس سے شدید متاثر دیگر شہروںسے آئی ہوئی ہنر مند خواتین ہونگی کہ جن کی مصنوعات بین الاقوامی سطح کی ہوتے ہوئے بھی مقامی ہی رہیںگی،اور یوں مقامی ہنرمند خواتین کا ہنر ماضی کی طرح زنگ آلود ہونے میں ذرا دیر نہیں کرے گا۔