پشاور کی آدھی آبادی افغان مہاجرین اور غیر مقامیوں پر مشتمل

Peshawar

Peshawar

پشاور (جیوڈیسک) 80 کی دہائی میں افغانستان سے مہاجرین کا ایک سیلاب پشاور میں امڈ آیا۔ شہری آبادیوں میں بلا روک ٹوک کرائے کے گھروں میں رہائش کے بعد مہاجرین اس قابل بھی بنا دئیے گئے کہ انہوں نے جائیدادیں خرید لیں۔ رہائش کے ساتھ ساتھ وسیع پیمانے پر کاروبار بھی جما لئے۔

حکومت نے ایک بار پھر فیصلہ کیا ہے کہ غیر قانونی مقیم افغان مہاجرین کی نقل حرکت محدود کی جائے جس کے لیے پراپرٹی ڈیلرز سے مدد لی جائے گی۔ 33 برس میں آج صرف پشاور میں ان کی اتنی بڑی تعداد ہے کہ انتظامی اداروں کے پاس اعدادوشمار تک نہیں ہیں۔ پشاور کی آبادی اس وقت 70 لاکھ کے قریب پہنچ چکی ہے جس میں 35 لاکھ اس شہر کی اصل آبادی ہے۔ باقی افغان مہاجرین اور شورش زدہ پاکستانی علاقوں سے نقل مکانی کرنے والے ہیں۔

پشاور شہر اور کینٹ میں ذاتی رہائش اور کاروبار رکھنے والے مہاجرین کو صوبے یا شہر سے بے دخل یا نقل و حرکت پر پابندی عائد کرنا کیسے ممکن ہو گا۔ اس کی منصوبہ بندی ایک مشکل مرحلہ ہے۔ پاک افغان سرحد پر تعینات اہلکاروں کی غفلت یا چشم پوشی کی وجہ سے اب بھی روزانہ کئی افغان خاندان پشاور میں داخل ہو رہے ہیں۔ حکومت اور عدلیہ برملا اظہار کر چکی ہے کہ بیشتر سنگین وارداتوں میں مہاجرین ملوث ہوتے ہیں لیکن انتظامیہ کی مسلسل غفلت سمجھ سے بالاتر ہے۔