اسلام آباد (جیوڈیسک) وفاقی حکومت نے پشاور ہائی کورٹ کے سات اپریل کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا ہے۔ واضح رہے کہ 7 اپریل کو پشاور ہائی کورٹ نے وفاق کے زیر انتظام قبائلی لوگوں کے لیے اعلٰی عدالتوں کے دائرہ کار میں توسیع کرنے کے لیے آئین کے آرٹیکل 247 (7) میں ترمیم کے لیے پارلیمنٹ کو ہدایت کی تھی۔
اٹارنی جنرل کے دفتر کی طرف سے فاضل عدالت میں آئین کے آرٹیکل 247 کی شق 7 سے متعلق پشاور ہائی کورٹ کے حکم کے خلاف ایک اپیل دائر کی گئی ہے۔ تاہم کیس کی سماعت کے لیے ابھی تاریخ مقرر نہیں کی گئی ہے۔ آرٹیکل 247 (7) کہتا ہے کہ آئین کے تحت نا سپریم کورٹ اور نہ ہی ہائی کورٹ قبائلی علاقوں کے سلسلے میں مداخلت نہیں کر سکتا تا کہ وقت کہ پارلیمنٹ اس معاملے پر قانون فراہم نہ کرلے۔
پشاور ہائی کورٹ نے اپنے سات اپریل کے فیصلے میں وفاقی حکومت کے ذریعے پارلیمنٹ کو فاٹا کے لوگوں کے لیے ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ کے داہرہ کار میں توسیع کے لیے آئین کے آرٹیکل 247 کی شق 7 میں مناسب ترامیم کرنے کی ہدایت دی تھیں۔
وفاقی حکومت نے اپیل میں یہ موقف اختیار کیا ہے کہ اس معاملے پر انہیں اپنا مؤقف پیش کرنے کا موقع فراہم نہیں کیا گیا تھا اور پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ یکطرفہ ہے اور انصاف کے اصولوں کے خلاف ہے۔
حکومتی درخواست میں کہا گیا ہے کہ آرٹیکل 247 (7) میں ترامیم کے لیے مناسب فورم پارلیمنٹ ہے نہ کہ ہائی کورٹ۔ ہائی کورٹ کی پارلیمنٹ کو ہدایت دینا جائز نہیں ہے، اور اس طرح کے فیصلہ عدلیہ، پارلیمنٹ اور ایگزیکٹو کے درمیان طاقت کے توازن کے اصولوں کی خلاف ورزی ہے۔
درخواست میں کہا گیا ہے کہ ہر عدالت آئین کے ماتحت ہے، جو اختیارات آئین یا قانون نے اسے دیے ہیں، تاہم ہائی کورٹ کے کسی معاملے میں مداخلت کو آئین نے خصوصی طور پر روک دیا ہے، لہذا فیصلہ آئین کے آرٹیکل 175 کی شق 2 کی دفعات کے خلاف ہے۔
درخواست میں کہا گیا ہے کہ ہائی کورٹ پارلیمنٹ کو آئین کے آرٹیکل 2A کی کسوٹی پر آرٹیکل 247 (7) میں ترامیم کی ہدایت جاری نہیں کر سکتا کیونکہ ہائی کورٹ آئین سے بالا تر نہیں ہے۔ جیسا کہ سپریم کورٹ نے 1992 میں حکیم خان کیس میں کہا تھا۔