تحریر : ملک اسرار آرمی پبلک سکول پشاور پر دہشت گردوں کے خودکش حملے اور معصوم طلبہ کی شہادت نے گزشتہ روز سقوط ڈھاکہ کے غم کو دوگنا کر دیا۔ 43برس قبل 16 دسمبر کو بھارت نے مکتی باہنی کے نام پر اپنے فوجی مشرقی پاکستان میں داخل کرکے اْسے ہم سے جْدا کرنے کی راہ ہموار کی تھی اور آج بھی اس دن کی تکلیف اور اذیت زندہ ہے اور سانحہ پشاور کے بعد دہشت گردوں نے اس اذیت کو مزید بڑھا دیا۔ کینٹ ایریا میں ورسک روڈ پر واقع آرمی پبلک سکول میں دہشت گردوں کے بزدلانہ حملے کے نتیجے میں 132 بچوں، 9 سٹاف ممبرز سمیت 141 افراد شہید اور 124 زخمی ہوئے، شہید بچوں کی عمریں 9 سے 16 سال کے درمیان تھیں، سکیورٹی فورسز نے کارروائی کر کے بڑی تعداد میں بچوں کو محفوظ مقام پر منتقل کردیا، جوابی کارروائی میں 7 دہشت گرد مارے گئے واقعہ کے بعد ہسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ کر دی گئی۔
سکول میں نصابی سرگرمیاں جاری تھیں کہ ایف سی اور سکیورٹی فورسز کی وردی میں ملبوس دہشت گرد سکول کی عمارت کے عقبی حصے سے دیوار پھلانگ کر اندر گھس آئے اور فائرنگ شروع کردی۔ فائرنگ کی اطلاع ملتے ہی سکیورٹی فورسز نے سکول اور علاقے کو گھیرے میں لے کر دہشت گردوں کیخلاف آپریشن شروع کردیا۔ سکیورٹی فورسز کی جانب سے فوری طور پر کارروائی شروع کی گئی، فائرنگ کا تبادلہ کئی گھنٹے جاری رہا، فائرنگ کے تبادلے کے دوران دو دہشت گردوں نے خود کو دھماکے سے اڑا لیا اور کئی دھماکوں کی آوازیں سنی گئیں۔ سکول پر دہشت گرد حملے کی خبر پورے شہر میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی’ سکول جہاں پر ایک ہزار سے زائد چھوٹی اور بڑی کلاسوں کے طلبہ زیر تعلیم ہیں کے والدین پر یہ خبر بجلی بن کر گری ‘ بچوں کے والدین جن میں گھروں میں موجود مائیں’ بوڑھی خواتین شامل تھیں اندھا دھند اپنے بچوں کو تلاش کرنے کے لئے سکول کی طرف دوڑ پڑے۔ سکول کے باہر قیامت صغریٰ کے مناظر دیکھنے میں آرہے تھے۔
خاص طور پر جب اندر سے دہشت گردی کا نشانہ بننے والے بچوں کی نعشیں باہر لائی جا رہی تھیں تو سکول کے باہر موجود خواتین جن میں بڑی تعداد زیر تعلیم بچوں کی مائوں کی حالت دیکھی نہیں جا رہی تھی۔ ان پر غشی کے دورے پڑتے رہے۔ دہشت گرد حملے کے بعد سکیورٹی فورسز نے پورے علاقے کو گھیرے میں لے لیا جس کی وجہ سے والدین کو اپنے بچوں کی خیریت معلوم کرنے میں پریشانی ہوئی اور وہ اسی پریشانی میں ادھر سے ادھر دوڑتے پھرتے رہے۔سانحہ پشاور پر وفاقی اور چاروں صوبائی حکومتوں نے بھی تین روزہ سوگ کا اعلان کردیا۔ واقعہ کے بعد پشاور کینٹ سمیت تمام بازار بند ہو گئے، پشاور میں انتہائی سوگ اور غم کا ماحول پایا جاتا ہے۔ والدین ہسپتالوں میں اپنے پیارے بچوں کو ڈھونڈتے رہے جبکہ تابوت بھی کم پڑ گئے۔ آرمی پبلک سکول کی پرنسپل طاہرہ قاضی بھی دہشت گردوں کی فائرنگ سے شہید ہوگئیں، انکی نعش سی ایم ایچ پشاور پہنچا دی گئی۔ شہدا میں ٹیچر پروفیسر سعید احمد بھی شامل ہیں۔ خیبر پی کے کے وزیر مشتاق غنی نے کہا تھا کہ 5حملہ آوروں نے خود کو دھماکوں سے اْڑا دیا۔16 تا 18دسمبر تک سرکاری عمارتوں پر قومی پرچم سرنگوں رہیگا۔
Maulana Fazlullah
طالبان کے مولانا فضل اللہ گروپ جس نے ملالہ پر بھی حملہ کیا تھا، نے ذمہ داری قبول کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ آپریشن ضرب عضب کا جواب ہے۔پشاور کے تمام قبرستان منگل کی شام آباد ہوگئے سکول حملے میںشہیدہونے والے بچوں اوراساتذہ کے جنازے مغرب کے بعد اٹھنا شروع ہوگئے اورمختلف علاقوں سے اٹھنے والے جنازے قطار در قطار قبرستان کی جانب چلنے لگے اچانک 132شہادتوں کے بعد پشاور کی مارکیٹوں میںدستیاب تابوت کم پڑ گئے اور دکانداروں نے ہنگامی بنیادوں پر تابوت بنانا شروع کردیئے جنازئے گھروں سے اٹھتے وقت آہ بکا کی چیخیں بلندہوتی تھیں اور ہر آنکھ اشکبار ہوئی بعض والدین اپنی ا کلوتی اولاد کاجنازہ اٹھتے وقت غش کھا کر بے ہوش ہوگئے جنازئے اٹھنے کاسلسلہ رات گئے تک جاری رہا قبرستانوں میںہر طرف روشنی نظر آتی تھی مگر شہداء کے گھروں میںاندھیرا پھیل چکا تھا اورقبرستانوںمیں رات گئے تک لوگوں کی آمدرفت جاری تھی۔ سانحہ پشاور میں شہید ہونے والے ایک بچے کے والد نے کہا کہ الحمدللہ ہمیں فخر ہے کہ میرے بیٹے نے شہید ہو کر پوری کلاس کو بچا لیا۔ ایک اور بچے کے والد نے بتایا کہ میرے بچے کا نام عبداللہ شاہ ہے، میں پولیس میں ہوں، ایک ڈی ایس پی کی حفاظت کیلئے 8، 8 سپاہی پھر رہے ہیں۔ اتنے چھوٹے بچوں کو بھی کوئی گولی مارتا ہے؟ سی ایم ایچ میں 30، 40 نعشیں ہیں، کئی بچوں کے سر میں گولیاں لگی ہیں۔ جنازے رکھے ہیں ہمیں تابوت دے رہے ہیں کہ جاؤ اور انہیں دفناؤ۔
ایک والد نے کہا کہ الحمدللہ میرے بچے نے شہادت پائی۔وزیراعظم محمد نواز شریف نے پشاور میں آرمی پبلک سکول پر دہشت گردوں کے حملے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ دہشت گرد سن لیں ہم اپنے بچوں کے لہو کے ایک ایک قطرے کا حساب لیں گے، دہشت گردی کی اس واردات نے پوری قوم کو نیا عزم دیا ہے۔ وزیراعظم نوازشریف نے ہنگامی طور پر پشاور پہنچ کر وزیراعلیٰ خیبر پی کے سے ملاقات کی۔ آرمی چیف جنرل راحیل شریف بھی کوئٹہ کا دورہ مختصر کرکے ہنگامی طور پر پشاور پہنچ گئے۔ انہوں نے پشاور میں سکول میں دہشت گردی کی صورتحال کا جائزہ لیا۔ وزیراعظم نے آرمی چیف سے ملاقات کی اور کہا وقت آگیا ہے کہ پوری قوم دہشت گردوں کے خلاف اٹھ کھڑی ہو۔ وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کی زیر صدارت پارلیمانی جماعتوں کے اجلاس سے قبل وزیر اعظم نے سزائے موت پانے والے دہشتگردوں کو سزائے موت دینے کی منظوری دیدی ہے۔پارلیمانی جماعتوں کے اجلاس کے دوران وزیر اعظم نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آج قوم ایک بدترین سانحے سے گزر رہی ہے ہم نے اپنی حکومت سنبھالنے کے بعد دہشتگردی کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے اے پی سی بلائی جس میں فیصلہ ہوا کہ معاملہ مذاکرات سے حل کیا جائے جس کے بعد اس کا آغاز کیا گیا لیکن کوئی کامیابی حاصل نہیں ہو سکی جس کے بعد ان کیخلاف فوجی آپریشن کا آغاز کیا گیا جس میں پاک فوج نے نمایاں کامیابی حاصل کی ۔ہم نے اس سلسلے میں کافی سفر طے کر لیا ہے تھوڑا باقی ہے لیکن سانحہ پشاور کو کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا.وزیراعظم نے افغان صدر سے اپنی ملاقات کا بھی زکر کیا کہ افغان صدر نے بھرپور تعاون کی یقین دہانی کرائی۔
Parliamentary Parties Meeting
اجلاس کے دوران کے سانحہ پشاور کے شہدا کیلئے فاتحہ خوانی بھی کی گئی۔اجلاس سے قبل ترجمان وزیر اعظم نے بتایا اب دہشتگردی کے مقدمات میں سزائے موت پانے والے دہشتگردوں کو اب سزائے موت دی جا سکے گی۔سانحہ پشاور میں شہید ہونے والوں کی غائبانی نماز جنازہ تمام شہروں میں ادا کی گئی۔جماعة الدعوة،جماعت اسلامی کی اپیل پر لاہور سمیت دیگر شہروں میں ہونے والے غائبانہ نماز جنازہ میں کثیر تعداد میں شہریوں نے شرکت کی۔پشاور میں ہونے والے نماز جنازہ میں گورنر مہتاب عباسی ، وزیر اعلیٰ پرویز خٹک سمیت آرمی چیف جنرل راحیل شریف ، کور کمانڈر پشاور اور اعلیٰ سول و عسکری قیادت نے شرکت ۔ اس قومی المیہ سے ان لوگوں کی آنکھیں کھل جانی چاہئیں جو اب بھی سمجھتے ہیں کہ طالبان اور پاکستان ایک ساتھ موجود رہ سکتے ہیں۔سانحہ پشاوریہ قومی المیہ ہے جس پر پوری قوم کو شدید دکھ ہوا ہے۔ قاتل اور انہیں سکول پر حملہ کرنے کیلئے بھیجنے والوں کے دلوں میں نہ تو مذہب کا احترام ہے اور نہ ہی وہ مہذب رویہ رکھنے والے لوگ ہیں۔ دہشت گردوں کے بدترین عمل نے ایک بار پھر ثابت کردیا ہے کہ جب تک انہیںمکمل طور پر شکست نہیں دیدی جاتی پاکستان میں اس وقت تک امن قائم نہیں ہوسکتا۔