پشاور (جیوڈیسک) پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا میں پشاور ہائی کورٹ کے ایک حکم پر صوبے میں بچوں کے اغوا کی روک تھام کے لیے ہسپتالوں میں سی سی ٹی وی کیمرے نصب کر کے ان کی سیکیورٹی بڑھائی جا رہی ہے۔
پشاور ہائی کورٹ کے حکم پر لیڈی ریڈنگ ہسپتال کے صرف گائنی وارڈ میں 40 سی سی ٹی وی کیمرے نصب کیے جا چکے ہیں جبکہ ہسپتال کے اہلکار برائے تعلقات عامہ جمیل شاہ نے بتایا کہ اب تک کل 96 کیمرے نصب کیے جا چکے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ صرف لیڈی ریڈنگ ہسپتال میں 160 کیمرے آئندہ چند ماہ میں تنصیب کر دیے جائیں گے ۔شہر کے دیگر ہسپتالوں میں اعلیٰ معیار کے 700 سے زیادہ کیمرے نصب کیے جانے کا منصوبہ ہے۔
ان کیمروں کی تنصیب سے پشاور کے بڑے ہسپتالوں میں بچے شاید اب پہلے سے زیادہ محفوظ سمجھے جا رہے ہیں ان کے اغوا یا بچوں کے رد و بدل کے واقعات کی روک تھام کے لیے اقدامات کیے گئے ہیں۔
لیڈی ریڈنگ ہسپتال کی انتظامیہ کے مطابق ابتدا میں کیمرے گائنی وارڈ، بچوں کے وارڈ نرسری، اور لیبر روم میں نصب کیے گئے ہیں تاکہ یہاں سے بچوں کی حفاظت کو یقینی بنایا جاسکے۔ اس کے بعد دیگر وارڈز اور دفاتر میں نصب بھی کیمرے کیے جائیں گے۔
ماہرِ قانون نور عالم ایڈووکیٹ نے بتایا کہ اپنے طور کسی کا بچے گود لینے یا کسی کا بچہ اغوا کر کے بے اولاد جوڑوں کو دینے کا طریقہ کار غیر قانونی ہے
پولیس نے دو ماہ پہلے ایسے ایک گروہ کے اراکین کو گرفتار کیا تھا جو بچوں کے اغوا اور بچوں کی خرید و فروخت میں ملوث بتائے گئے تھے۔
پشاور میں پولیس اہلکار عباس مجید مروت نے بتایا اب تک اس گروہ کی پانچ خواتین سمیت سات افراد کو گرفتار کیا گیا ہے جنھوں نے نو بچوں کو اغوا کر کے آگے بیچ دیا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ لوگ مردہ بچوں کو فریزر میں رکھ دیتے تھے اور جب کسی کا زندہ بچہ پیدا ہوتا تھا تو اسے مردہ بچے سے تبدیل کر دیتے تھے اور زندہ بچہ کسی بے اولاد جوڑے کو دے دیا جاتا تھا۔ گرفتار خاتون کے شوہر نے پولیس کے دعووں کی تردید کی ہے۔
انھوں نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ان کی بیوی لوگوں کے لیے اچھائی کا کام کرتی تھی۔ ان کے مطابق جو لوگ اپنے بچے پال نہیں سکتے، ملزمہ ایسے لوگوں سے بچے لے کر ان بے اولاد جوڑوں کو دیتی تھیں جو اولاد کے لیے ترستے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ان کی بیوی اور دیگر گرفتار افراد سب میٹرنیٹی ہوم کے حوالے سے کام کرتے تھے جہاں اگر کوئی ناجائز بچہ پیدا ہو جاتا تو وہ اس بچے کو بے اولاد افراد کو دیتے تھے۔ پشاور ہائی کورٹ نے ملزمان کی ضمانت کی درخواست مسترد کر دی ہے۔
ماہرِ قانون نور عالم ایڈووکیٹ نے بتایا کہ اپنے طور کسی کا بچے گود لینے یا کسی کا بچہ اغوا کر کے بے اولاد جوڑوں کو دینے کا طریقہ کار غیر قانونی ہے۔
انھوں نے کہا کہ یہ کوئی سلطانہ ڈاکو والا نظام نہیں ہے کہ امیروں سے لوٹی ہوئی رقم غریبوں میں تقسیم کر دی جائے۔
انھوں نے کہا کہ اس بارے میں قوانین موجود ہیں اور ان پر عمل درآمد ضروری ہے۔ نور عالم ایڈووکیٹ کے مطابق خیبر پختونخوا میں چائلد پروٹیکشن ایکٹ دو ہزار دس قائم ہے جس کے تحت بچوں کی حفاظت حکومت پر عائد ہے۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ حکومت ان بچوں کی کفالت کی ذمہ داری خود لے جن کے والدین اپنے بچوں کی پرورش نہیں کر سکتے۔