تحریر: پروفیسر رفعت مظہر سانحہ پشاور نے طالبان کے چہروں پر پڑا نقاب مکمل طورپر ہٹا دیا اور اُنکے مکروہ چہرے سامنے آ گئے۔ اب کی بار اُنہوں نے براہِ راست حصولِ علم کے پروانوں پر وار کر کے یہ ثابت کر دیا کہ وہ مسلمان ہوہی نہیں سکتے اور اُن کی طالبانی شریعت کا دینِ مبیں سے کوئی تعلق نہیں۔ میرے دین میں حصولِ علم پر سب سے زیادہ زور دیا گیا ہے۔ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے مومن کی گمشدہ میراث کہا اور حکمت کی کتاب میں ربّ کردگار نے یہ فیصلہ ہی فرما دیا کہ ”رَبّ کو جاننے والے اُس کے عالم بندے ہیں۔
وحشی درندوں نے معصوم ”طالبانِ علم”کے خون سے ہولی کھیل کر یہ ثابت کردیا کہ اُن کا قتل ہر مسلمان پر واجب ہی نہیں ،فرض بھی ہے ۔اِن درندوں نے اساتذہ کے خون سے ہاتھ رنگ کے اپنے آپ کو دائرۂ اسلام سے خارج کرلیا ۔یہ وحشی اتنابھی نہیں جانتے کہ اسلام میں استاد کو باپ کا درجہ دیاگیاہے اورعالمِ اسلام کی اولین درسگاہ ”صفہ ”کے معلمِ اعظم خود میرے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تھے ۔کسی نے ایک بار سکندرسے پوچھا کہ وہ اپنے باپ سے کہیں زیادہ عزت اپنے استاد ارسطو کی کیوں کرتا ہے ؟۔ سکندرنے جواب دیا ”باپ مجھے آسمان سے زمین پرلایا اور استاد مجھے زمین سے آسمان پرلے گیا ”لیکن اِن باتوں کا جنونی درندوںپر کیا اثر جن کے مُنہ کو انسانی خون کی چاٹ لگ چکی ہو۔
بائرن نے کہا”زندگی تو اُس پنڈولم کی مانندہے جو آنسوؤں اور قہقہوں کے درمیان جھولتارہتاہے ۔ہم نے زندگی کا یہ سبق سیکھ لیااور برداشت بھی کرلیا ۔خون آلودگھڑیاں گزرچکیں اب بدلہ چکانے کا وقت ہے اور پوری قوم عزمِ صمیم کے ساتھ یکسو ۔ساری سیاسی جماعتیں ایک صفحے پر اور افواجِ پاکستان پُرعزم ۔وزیرِاعظم میاںنوازشریف نے فرمایا ”ایک آپریشن ضربِ عضب قبائلی علاقوںمیں جاری ہے اور دوسرا شہروںمیں ۔اب اِن دہشت گردوںکے خلاف فیصلہ کُن جنگ ہوگی ۔ہم دہشت گردوں اور اُن کو پناہ دینے والوں میں کوئی تفریق نہیں کریںگے ۔دہشت گردی اور فرقہ واریت پاکستان کے لیے ایک کینسر ہے اور اب اِس ملک کو اِس سے نجات دلانے کا وقت ہے ”۔پنجاب کے وزیرِاعلیٰ میاںشہبازشریف نے فرمایا ”نئی نسل کو محفوظ پاکستان دینے کی ذمہ داری نبھائیں گے ۔یہ وقت ”ڈُو آر ڈائی”کا ہے۔اگر یہی جذبہ سلامت رہا تو وہ وقت دور نہیں جب انشاء اللہ اِس فتنے سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے نجات مل جائے گی۔ویسے جس جانفشانی سے گلی گلی میں دہشت گردوںکا تعاقب ہورہاہے اور اُن کو پورے پاکستان میں واصلِ جہنم کیاجا رہاہے اُس سے تویہی محسوس ہوتا ہے کہ اب گلی گلی میں ضربِ عضب جاری ہے ۔اُدھر افغان فورسزنے پاکستان کے مطالبے پر افغانستان کے صوبہ کنڑ میں آپریشن شروع کردیاہے ۔پاکستان تو عرصۂ درازسے افغان حکومت سے یہ مطالبہ کررہا تھا کہ مُلّا فضل اللہ کنڑ میں چھپا ہواہے ،اُسے پاکستان کے حوالے کیاجائے لیکن وہ تو افغان انٹیلی جنس کی پناہ میں تھا اور کرزئی حکومت اُسے پاکستان کے حوالے کرنے کوتیار نہیںتھی ۔سوات کے بھگوڑے مُلافضل اللہ نے فوجی آپریشن کے بعد افغانستان پہنچ کر یہ اعلان کیا کہ وہ بحفاظت افغانستان پہنچ گیاہے ۔کرزئی حکومت کے خاتمے کے بعد پہلی دفعہ ایسا ہورہا ہے کہ دونوں حکومتیں طالبان کے خاتمے کے لیے ایک صفحے پرہیں ۔کنڑ میں کارروائی پر وہاں کے گورنر نے کہا کہ یہ ساری کارروائی حکومتِ پاکستان کے مطالبے پر ہورہی ہے ۔افغان حکومت کا یہ بیان انتہائی خوش آئند ہے ،اگر افہام وتفہیم کی یہی فضاء قائم رہی تو ملافضل اللہ بھی جلد واصلِ جہنم ہو جائے گا۔
Pakistan Army
اِدھر طالبان کے خلاف بھرپور کارروائی ہورہی ہے تو اُدھر کچھ لوگ اپنی سیاسی دوکانداری چمکانے کی کوششوں میں مگن ہیں ۔لال مسجد کے خطیب مولانا عبد العزیز نے انتہائی نامعقولیت کا ثبوت دیتے ہوئے نہ صرف سانحہ پشاور پرطالبان کی مذمت سے انکار کیا بلکہ یہاں تک کہہ دیاکہ یہ آپریشن ضربِ عضب کا ردِعمل ہے اور طالبان ایسے حملے کرتے رہیں گے ۔مولانا عبدالعزیز کے اِس بیان پر ایم کیو ایم کے الطاف بھائی بھڑک اُٹھے اور جامع حفصہ اور لال مسجد کو گرانے کا مطالبہ کرتے ہوئے جواز یہ پیش کیا کہ حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی ”مسجدِضرار”کو گرانے کا حکم دیاتھا ۔عرض ہے کہ مسجدِ ضرارکی کہانی ذرا مختلف ہے ۔آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مدینہ منورہ تشریف لے جانے سے پہلے مدینہ میں ابو عامر نامی عیسائی کی درویشی اور علمی وقار کا سکہ چل رہاتھا ۔آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب مدینہ تشریف لائے تو اُس راہب کو اپنی درویشی ڈانواںڈول ہوتی نظرآئی اور اُس نے مدینہ کے منافقین کے ایک گروہ کے ساتھ مل کر ایک سازش تیار کی۔
یہ لوگ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضرہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے درخواست کی کہ چونکہ مسجدِ قبا ء اور مسجدِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اُن سے کافی فاصلے پر ہیں اِس لیے اُنہیں مسجدِ ضرار بنانے کی اجازت دی جائے ۔آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اجازت مراحمت فرمادی اور یوں مسجدِ ضرار کی صورت میں سازشوں کا گڑھ تیار ہوگیا ۔یہ مسجد آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُس وقت گرانے کا حکم دیا جب ربِ کردگار نے اِس مسجدکا سارا پول سورة توبہ میں کھول کر رکھ دیا (سورة توبہ 106-110 )۔لال مسجد اور جامع حفصہ نہ تو کسی اسلام مخالف گروہ نے تعمیرکیں اور نہ ہی وہاں دینِ مبیں کے خلاف سازشیں ہوتی ہیں ۔یہ بالکل بجا کہ اِس وقت لال مسجدکا خطیب ایک ایسا شخص ہے جسے نرم سے نرم الفاظ میں ہوش وحواس سے عاری کہا جا سکتا ہے لیکن منافق ہرگز نہیں اِس لیے لال مسجد گرانے کا مطالبہ کسی بھی صورت میں درست نہیں۔یہ بھی ذہن میں رکھنا چاہیے کہ مسجدِ ضرار علیم وخبیر ربِ کائینات کے حکم سے گرائی گئی اور آقاۖ نے اُس وقت تک اِس مسجد کو گرانے کا حکم نہیں دیا جب تک اللہ کا واضح پیغام نہیں آگیا ۔مسجدِ ضرار غالباََ اسلام کی وہ پہلی اور آخری مسجد ہے جسے مسلمانوں نے خود اپنے ہاتھوں سے گرایا ۔ہم ”زمینی خُداؤں ” کو ہرگز یہ اجازت نہیں دے سکتے کہ وہ اپنی زبانوں پر اِس قسم کے الفاظ بھی لائیں۔البتہ یہ ضرور کہ لال مسجد کو مولانا عبد العزیز سے پاک کر دیا جائے تاکہ شَر نہ پھیلے۔