پشاور صوبہ خیبر پختونخوا کا دارالخلافہ اور مر کزی شہر ہے، جہاں گزشتہ پانچ سال پاکستان تحریکِ انصاف کی حکومت رہی ہے اور اب 2018 کے الیکشن میں دوبارہ بھی بر سرِ اقتدار آئی ہے ، پی ٹی آئی کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے صوبہ خیبر پختونخوا کو ملک کا سب سے بہتر صوبہ بنایا ہے۔پولیس ریفارمز، تعلیمی اصلاحات اور طبّی سہولیات کا ذکر موجودہ وزیرا عظم عمران خان بھی بڑے فخریہ انداز میں کرتے ہیں مگر سچ کیا ہے ؟ یہ تو وہی بتا سکتا ہے جس کے شب و روز پشاور میں بسر ہو رہے ہوں ۔یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ پشاور ہو یا لاہور، کراچی ہو یا ملتان ‘ پاکستان کے تمام بڑے شہروں کا حال ایک جیسا ہے ،شہر کے باسیوں کو ایک جیسے مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
مثلا تعلیم کو ہی لے لیں، تعلیمی ادارے تو ہیں مگر تمام نجی تعلیمی ادارے تجارتی مرکز بن چکے ہیں فیسیں اتنی زیادہ ہیں کہ ایک متوسط گھرانے کا فرد بھی اپنے بچوں کو کسی اچھے تعلیمی ادارے میں تعلیم نہیں دلوا سکتا۔ سرکاری اسکولوں کا یہ حال ہے کہ ایک کلاس کے ایک ایک سیکشن میں اسّی اسّی طلباء بیٹھتے ہیں اور اساتذہ کرام اپنی توانیئاں انہیں صرف چھپ کرانے اور شرارتوں سے منع کرنے پر صرف کرتے ہیں۔بچوںکو سکول تک لے جانے اور لانے کا مسئلہ الگ دردِ سر بنا رہتا ہے۔علاوہ ازیں صبح اٹھتے ہیں تو گیس نہیں ہو تی ۔ ناشتہ تیار کرنا ،کھانا پکانا جوئے شیر لانے کے مترادف ہوتا ہے۔
آبادی روز بروز بڑھ رہی ہے۔گیس کے پائپ پرانے ہیں ،جس کا والیوم کم اور مصرف زیادہ ہے جس کی وجہ سے گیس کا پریشر عموما کم رہتا ہے ،یوں خواتین کی زبانی حکومت پر لعنت ملامت بھی عموما سننے کو ملتی رہتی ہے۔ گھر سے باہر نکلیں تو گلی محّلے کی صفائی اور کھچرا دیکھ کر بلڈ پریشر میں اضافہ ضرور ہوتا ہے۔ سڑک پر چلیں تو موت کا ڈر سر پر سوار ہی رہتا ہے۔ بے ہنگم ٹریفک ، ٹریفک قوانین کی کھلم کھلا خلاف ورزی پاکستا ن کی پہچان بن چکی ہے۔پشاور شہر میں ریپیڈ بس ٹرانسپورٹ ،جسے عرفِ عام میں میٹرو بس کہتے ہیں ،ایک طویل عرصہ سے شہریوں کے لئے وبالِ جان بن چکی ہیں ،نہ جائے رفتن، نہ پائے ماندن ” والی بات ہے۔
حکومت پانچ مرتبہ اس منصوبہ کو مکمل کرنے کی تاریخ دے چکی ہے مگر ناقص منصوبہ بندی کی وجہ سے نہ صرف یہ کہ اس کے وقتِ تکمیل میں اضافہ ہو رہا ہے بلکہ اس کے اخراجات میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔بجلی کا مسئلہ الگ ہے ، لوڈ شیڈنگ روز کا معمول ہے، آئے روز واپڈا والے کام کرنے کے بہانے گھنٹوں بجلی کی ترسیل روک دیتے ہیں بجلی کا فی یونٹ ریٹ بہت زیادہ ہو نے کی وجہ سے بجلی چوری بھی عام ہو چکی ہے ۔ واپڈا والے بِلوں میں اپنی خسارہ پورا کرتے ہیںجس کی وجہ سے سفید پو ش طبقہ بجلی بِلوں کی وجہ سے ذہنی مریض بن چکے ہیں ، یا بلڈ پریشر کی گولی ضرور جیب میں رکھتے ہیں۔کیونکہ کرے کوئی بھرے کوئی ،والی بات تو یقینا اذیّت کا باعث ہو تی ہے۔شہر میں مِلاوٹ بھری خوراک ایک الگ مسئلہ ہے ۔ گوشت خریدتے ہیں تو کوئی پتہ نہیں ہوتا کہ یہ گوشت حلال ہے یا حرام، گدھے کا ہے یا کتّے کا ، کیونکہ اس قسم کے واقعات کا ذکر عموما اخبارات کے صفحات کی زینت بنتی رہتی ہے۔
سبزی جیسی عام چیز بھی عموما جراثیم سے لدّی بھدی ملتی ہے۔دودھ کا خالص ملنا تو بالکل محال ہے۔آپ ہزار بار دودھ کے گوالوں سے درخواست کریں کہ بے شک دودھ میں پانی ڈال دیں مگر کیمیکل نہ ملائیں مگر خالص دودھ کسی صورت میں آپ کو نہیں ملے گا۔ یوں ملاوٹ شدہ خوراک کا نتیجہ لازما کسی نہ کسی بیماری کی صورت میں نکلتا ہے جو سیدھا ہسپتال کا راستہ دکھاتا ہے۔یوں ایک نہیں ،ہزاروں مسئلے ایسے ہیں جس کا حل کسی شہری کے پا س مو جود نہیں اور وہ ان مسائل کا سامنا کرنے پر مجبور ہے ۔ اگر کسی کے پاس حل موجود ہے تو وہ صرف حکومتوں اداروں کے پاس ہے۔
مذکورہ بالا تمام مسائل کے حل کے لئے حکومتی ادارے موجود ہیں مگر افسوس صد افسوس کہ حکومتی اداروں کی توجہ عوام کے مسائل حل کرنے پر مرکوز نہیں بلکہ انہوں نے اپنی تمام تر توجہ اپنے مسائل حل کرنے پرفوکس کی ہو ئی ہے ۔اداروں کی غفلت اور شہریوں کی بے بسی دیکھ کر حبیب جالب کے یہ اشعار ذہن میں لا محالہ در آتے ہیں ۔ دیپ جس کا محلات میں ہی جلے۔۔چند لوگوں کی خوشیوں کو لے کر چلے ایسے دستور کو ، صبح بے نور کو ۔۔۔۔۔میں نہیں مانتا ، میں نہیں مانتا لہذا حکومتِ وقت سے اپیل ہے کہ وہ عوام کے مسائل کو حل کرنے کے لئے ترجیحی بنیاد پر عملی اقدامات اٹھائے تاکہ مایوسی کا خاتمہ ہو اور ملک اندھیرے سے روشنی تک کا سفر جاری و ساری رکھ سکے۔