ویسے تو ہمارے اساتذہ کرام کی فہرست کافی طویل ہے تاہم چند اساتذہ کہ جن کی صحبت اور محبت کی بدولت آج ہم ایک مقام حاصل کرچکے ہیں انہی اساتذہ میںایک نام معروف دینی سکالر علامہ مقصود احمد سلفی کا بھی ہے۔علامہ صاحب پشاور کیا بلکہ صوبہ خیبرپختونخوا کے معروف عالم دین میں شما رہوتے ہیں ۔اللہ تعالیٰ نے انہیں کیا خوب علم کا سرچشمہ بنایا ہے جہاں جاتے ہیں لوگوںکو اپنا گرویدہ بنالیتے ہیں۔اور شاید یہی کچھ وجہ ہوکہ علامہ صاحب کی چند سالوں کی شاگردی کی وجہ سے ہمیں ان کے سحر میں جکڑے لیا ہے۔ان کی سادگی،صبر اور خاموش طبیعت لوگوں کو ان کی جانب بڑھنے پر مجبور کردیتی ہے۔
ہم نے آج تک انہیں غصے کی حالت میںنہیں دیکھا ،سب سے یکساں رویہ اختیار کئے ہوتے ہیں،اور محبت اور شفقت کی انتہا ملاحظہ ہو کہ کسی کو ادنیٰ یا چھوٹا تصور نہیں کرتے۔ان کی محبتوں کی بارش ان کے حلقہ ارباب جوکہ کافی وسیع ہے کی طرح ہم پر اکثر وبیشتر برستی رہتی ہے ،اسی محبت کی ایک کڑی گزشتہ روز اس ادارے جس میں وہ اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں کے منعقدہ ایک دورے کی ہے ،یہ ادارہ پاک کونسل آف ورلڈ ریلجنز کے نام سے پشاور میں کام کررہاہے جس کا مقصد بین المذاہب ہم آہنگی کو فروغ دینا ہے۔سلفی صاحب نے ہر بار کی طرح اس روز بھی ہمیں پشاور میں واقع مختلف مذہبی مقامات کی سیر کا بھرپور موقع دیا۔
حالانکہ ہم اس ادارے کے منعقدہ کردہ دورے کے علاوہ بھی اپنے طور کئی بار مختلف مذہبی مقامات کا تفصیلی دورہ کرچکے ہیں،تاہم سلفی صاحب کی محبت ہمیں پشاور کی جون میں پڑنے والی گرمی سے کچھ زیادہ ہی عزیز ہے اس لئے ہم ان کی پرخلوص دعوت پر گزشتہ روز ان کے دفتر واقع پشاور صدر اپنے لنگوٹیا یا راور نوجوان قلم کار آصف خان عاجز کے ہمراہ پہنچے۔دفتر پہنچنے پر معلوم پڑا کہ علامہ صاحب کے آنے میں ذرا دیر ہے ،اس لئے اکائوٹنٹ ذیشان صاحب نے ہمیں ان کے کیبن میںبراجمان ہونے کے لئے کہا ابھی تھوڑی دیر گزری ہی تھی کہ علامہ صاحب دفتر میں داخل ہوئے۔ہم سے بغل گیر ہوتے ہی ہمارا حال احوال پوچھا۔اور اس روز کے منعقدہ دورے کی تفصیلات بتائیں۔یہی کچھ چل رہاتھا کہ ان کے دفتر کے سینئر ساتھی معظم بٹ صاحب نے گاڑیوں کی آمد کی اطلاع دی۔ہم دفتر سے نکلے تو اچانک محسوس ہوا کہ یک بستہ دفتر میں ہم شاید بھول ہی گئے تھے کہ پشا ورمیں جون چل رہاہے۔اللہ اللہ کرکے گاڑی میں سوا رہوئے تو یک دم جان میںجان آئی کیونکہ گاڑی میںپہلے سے ہی ایئر کنڈیشنڈ چالو تھا اور جس کی مصنوعی سہی مگر ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا دل کو مسحور کن بنا رہی تھی۔
جیسا کہ ہم عرض کرچکے کہ پاک کونسل آف ورلڈ ریلجنز مختلف مذاہب کے لوگوں میں ہم آہنگی پرکام کررہاہے اس لئے مذکورہ گاڑی میں مختلف مذاہب کے نوجوان بھی سوا رتھے۔ان میںہندئو مذہب سے تعلق رکھنے والے دونوجوانوں” راجن اور اویناش” سے ہماری بول چال تھی اس لئے حال احوال کے بعد اِدھر اُدھر کی باتیں شروع ہوئیں۔ہم چونکہ دین اسلام کے ماننے والے ہیں اور اسلام کا مطلب ”امن وسلامتی ”ہے ۔دوسرا ہمارے پیارے نبی حضرت محمدۖنے کسی دوسرے مذہب کے ماننے والے سے کبھی برا سلوک یا رویہ اختیار نہیں کیا اور نہ ہی مسلمانوں کو ایسا کرنے کی تلقین کی۔دوسرااویناش سے بات کرتے ہوئے کبھی یہ محسوس نہیںہوا کہ وہ الگ مذہب سے ہے۔وہ جب بھی ملتا ہے” السلام علیکم” یعنی ہم پر سلامتی بھیجتا ہے۔
باقی اس کا اپنا ایمان ہمارا اپنا۔جناب یہاں ہم ہمارے ہر دلعزیز پروفیشنل فوٹو گرافر تنزیل الرحمان بیگ کا تو نام لینا ہی بھول گئے۔تنزیل بھائی اللہ تعالیٰ ان کی عمردراز کرے ۔آمین۔کے یومیہ کی بنیاد پر سبق آموز برقی پیغامات موصول ہوتے رہتے ہیں۔کہ جن کے پڑھنے کے بعد ان کے لئے ہمیشہ دل سے دعا نکلتی ہے۔تنزیل بھائی چونکہ ہم سے عمر میں بڑے ہیں اس لئے ہم انہیں بھائی کہہ کر پکارتے ہیں۔ان کے ساتھ بھی حال احوال کے بعداِدھر اُدھر کی باتیں ہوئیں۔ہم پہلے تاریخی مسجد مہابت خان گئے جہاں وہاں کے خطیب مولانا طیب قریشی نے ہمارا گرم جوشی سے استقبال کیا۔اس کے بعدکوہاٹی میں واقع چرچ ،وہاں سے نکل کر جوگیواڑہ میں واقع گوردوارہ اور پھر آخر میں پشاور صدر میں واقع مندر کا تفصیلی دورہ کیا۔
بہرحال دین اسلام میںکوئی زبردستی نہیں اگر ہوتی تو دوجہان کے سردار اور اللہ تعالیٰ کے آخری نبی ۖ ہمیں تلقین کرجاتے۔ہمیں سیرت طیبہۖ میں ایسا کہیں دیکھنے کونہیںملتا۔اس کے علاوہ اللہ تعالیٰ قرآن مجید فرقان حمید میں فرماتے ہیںکہ”لا اِکراہ فی الدین”۔یعنی ہمارا اپنا دین ان کا اپنا۔لیکن بوجوہ ان سب کے ہم سوشل میڈیا پر نام نہاد دانشور بنے بیٹھے دکھائی دیتے ہیں۔حالانکہ کسی کی دل آزاری سے صرف نفرت ہی پھیلائی جاسکتی ہے۔کہ جس کی دین اسلام میں قطعاً اجازت نہیں۔اس لئے ان تمام اُمور کو ترک کردینا ہی موجودہ وقت اور معاشرہ کی اہم ترین ضرورت ہے کہ جن کی بدولت معاشرہ ،معاشرہ نہ رہے۔