خواب سے تعبیر تک

Peshawar

Peshawar

بالآخر ہم پشاور پہنچ ہی گئے، وہاں پہنچنے پر ہمارے تاثرات ویسے ہی تھے جیسے”نور نذیر” کے پہلی دفعہ گائوں سے شہر پہنچنے پر تھے۔ پشاور دیکھنے کی اک حسرت تھی جو ایک عرصہ سے دل میں مچل رہی تھی،لیکن پشاور کو دیکھنے کے بعد یوں محسوس ہوا کی وہ حسرت ہی رہتی تو بہتر تھا۔ جیسا سنا تھا ویسا ہی پایا، وہاں پر ہر شے وافر مقدار میں تھی، ٹریفک اتنی کہ جیسے پورے پاکستان کا ٹریفک یہاں پر ہے، ویسے پورے پاکستان میں سب سے زیادہ ٹریفک بھی یہاں والوں کا ہے، اگر پشاور والے گاڑیاں چلانا بند کر دیں تو پاکستان میں اکا دکا ہی عوامی گاڑیاں نظر آئیں اور لوگوں کیلئے مشکلات کے پہاڑ کھڑے ہو جائیں، یہاں کے لوگ ہر کام میں ماہر ہیںدھوکہ دینے اور چکر کرنے میں توان سے کوئی آگے نکل ہی نہیں سکتا، ہر رکشہ گاڑی میں تیز میوزک چل رہے ہیں، ایک گاڑی میں بیٹھے تو تیز دھن میں پشتو گانا چل رہا تھا، مجھے تو ایسے سمجھ آئی کہ جیسے گانا گانے والی کہہ رہی ہے کہ “پشتو نہ آئے تو پشاور نہ آنا” میرے یہ محسوسات ایسے ہی نہ تھے بلکہ حقیقت اس سے مختلف ہر گز نہ تھی۔

ایک دوکان سے ہم نے ایک ہاتھ میں پکڑنے والے بیگ کی قیمت پوچھی تو اس نے ہماری معصوم شکل دیکھتے ہوئے 1200 روپیہ بتایا جس کی قیمت ہمارے ہاں 200 روپیہ تھی اگر پشتو آتی تو وہ بیگ وہاں سے 150 روپیہ میں مل جاتا، یہ واقعہ دیکھنے کے بعد کسی بھی دکان سے کوئی بھی چیز خریدنی تو درکنار اس کی قیمت بھی پوچھنے کی ہمت نہ ہوئی اور یہ ارادہ کیا کہ جب تک پشتو نہ آجائے اس وقت تک یہاں سے خریداری نہ کریں گے اور ایسا تادم زندگی ممکن نہیں کیوں کہ پشتو تو ہمیں آئے گی نہیںاس لئے ہم لٹتے ہی رہیں گے۔

پشاور میں داخل ہوتے ہی یہ دھڑکا سا لگ گیا کہ یہ تو دھماکوں کا شہر ہے۔ یہ دھڑکا اس وقت حقیقت کا روپ دھار گیاجب ہمیں قصہ خوانی بازار میں پہنچے تھوڑی دیر گزری تھی تو یک دم فائرنگ کی آواز گونجی اور اس کے ساتھ ہی ایک زوردار دھماکہ ہوا اور بازار میں ہلچل مچ گئی، تھوڑی دیر بعد پتا چلا کہ پشاور کچہری میں بم دھماکہ ہوا ہے،چند لمحوں بعد ہی لوگ اپنے اپنے کاموں میں مشغول ہو گئے جیسے یہاں کچھ ہوا ہی نہیں، ان لوگوں کیلئے یہ بات معمولی نوعیت کی تھی لیکن ہمارے لئے معمولی نہیں تھی، پہلے تو ہمیں بھی موت سے ڈر نہیں لگتا تھا لیکن دھماکوں کی آواز سننے کے بعد موت سے ڈر لگنے لگا،موت سے مفر تو کسی کو نہیں،زبان سے تو ہر شخص کہتا رہتا ہے کہ موت تو ہر شخص کو آنی ہیں،لیکن عمل اور دل سے کہتا ہے”بلھیا اساں مرنا نہیں، گور پیا کوئی ہور”اس شہر نے بڑے بڑے دکھ اٹھائے ہیں یہاں پر اکثر تھانوں کے نام شہید پولیس والوں کے نام پر ہیں۔

Police

Police

یہاں پر ہر شخص اپنے من میں مگن اپنے کام میں مشغول ہے، جس قدر یہاں حالات خراب ہیں اس سے کہیں زیادہ پولیس والے بے فکر اور لا پرواہ ہیں، پولیس والے اپنے کام سے کام رکھتے ہیں یعنی کہ وہ کسی کو چھیڑتے نہیں اور کوئی انہیں لفٹ کراتا نہیں، پولیس کا کسی کو کوئی ڈرخوف نہیں ہر شخص ان کے سامنے سے ایسے گزر جاتا ہے جیسے شیر گھاس کے پاس سے۔ ہر چوک پر ٹریفک اہلکار تعینات ہے کبھی ایک بازو ہوا میں اٹھا لیتا اور کبھی دوسرا، دوکانوں میں لوٹ سیل جاری ہے، سمجھدار آدمی وہاں سے سستے داموں خریداری کر لیتے ہیں اور پنجاب میں آ کر گاہکوں کو لوٹ لیتے ہیں اور ہمارے جیسے لوگوں کو پشاور کے دوکان دار لوٹ لیتے ہیں یعنی آگ برابر لگی ہوئی ہے۔دنیا کی ہر چیز یہاں پر مل سکتی ہے اور کوئی پوچھنے والا بھی نہیں لیکن جیسے ہی اٹک کا پل کراس کرتے ہے تو وردی والے راستہ روکے کھڑے ہوتے ہیں اور ایک ایک چیز کو کھول کے دیکھتے ہیں اس کے برعکس پشاور میں آپ ایک ایک چیز کھول کر گھومیں پولیس آپ کو دیکھتے ہی ایسے آنکھیں بند کر لے گی جیسے بلی کو دیکھ کر کبوتر۔

اگر پشتو آتی ہے تو مشکل سے مشکل کام آسان، نہیں تو آسان سے آسان کام بھی مشکل ہو جاتا ہے۔بات یہ نہیں کہ وہاں کے باسیوں کو اردو نہیں آتی بلکہ وہاں نسلی تعصب بہت پایا جاتا ہے وہ دوسروں کو کم تر سمجھتے ہیں جس کی وجہ سے دوسری زبان والوں اور خاص کر اردو والوں کی حالت غیر ہی رہتی ہے۔اگر پشتو آتی ہیں تو آپ کے تمام کام حل ہو سکتے ہیںنہیں تو آپ کو ان کے نسبت کرایہ بھی زیادہ دینا پڑے گا۔

ہاں یہ بات سچ ہے کہ یہاں کے لوگ مہمان نواز ہیں لیکن بن بلائے اور ان جان مہمان کی کوئی قدر نہیں کی جاتی۔پشاور ایک تاریخی شہرہے اس کے بازار اس کے مکین خاص کر شہر کے اندر قلعہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے،سنتے ہیں کہ اگر کوئی پشاور آیا اور اس نے باڑہ بازار نہ دیکھا اور نمک منڈی سے اونٹ کا گوشت نہ کھایا تووہ ایسا ہے جیسے کوئی دریا کے پاس سے پیاسا آ گیا،فی الحال ہمیں ان دونوں چیزوں سے واسطہ نہیں پڑالیکن پھر بھی یہی سمجھتا ہوں کہ ہم نے بہت کچھ سیکھا اور دیکھا۔

SHAHID IQBAL SHAMI

SHAHID IQBAL SHAMI

تحریر: شاہد اقبال شامی
0300.9879585