تحریر : پروفیسر ڈاکٹر شبیر احمد خورشید پشاور کی پر سکون فضاﺅں کے ایک نجی اسکول، آرمی پبلک اسکول میں آج صبح 9 بجے اسکول کے ایک ہال میں طلباء کی فرسٹ ایڈ کی ٹریننگ کا سیشن جاری تھا۔ کہ اسی دوران کے قریباََ 6، دہشت گرد ایف سی کی وردیوں میں ملبوس اسکول کے پچھلے دروازے جوبہار کالونی کی جانب ہے سے اسکول میں داخل ہوئے ۔جس ہال میں اس وقت طلباءاپنی تربیت میں مصروف تھے۔
اس وقت ہال کر ایک وروازے کو دہشت گردوں نے زبردستی کھولا اور اندر داخل ہوگئے۔ جس گاڑی میں یہ دہشت گرد آئے تھے اسُ کو انہوں نے اسکول میں د خلے بعد آگ لگادی ۔ اسکول کے ہال میں داخل ہوتے ہی دہشت گردوں نے فائر کھول دیا۔ جس سے ہال میں افراتفری پیدا ہوئی تو کئی بچے کرسیوں کے نیچے چھپنے کی کوشش کر رہے تھے۔اسی دوران ایک اور خود کُش دہشت گرد نے اپنے آپ کو مبینہ طور پر اُڑا لیا جس سے بہت بڑے پیمانے پر بلڈ شیڈ ہوا اور بہت بڑی تعداد میں معصوم پھولوں نے شہادت کا لباس زیب تن کر لیا۔
ہمارے فوجی جونوں نے ان دہشت گردوں کا صفایا بڑی محنت و جدوجہد کے بعد کیا۔ایک دہشت گرد اپنے ہاتھوں خود کُش حملہ کے دوران جہنم رسید ہوا اور دو، دوران آپریشن ہال کے اندر ہی ہلاک کیئے گئے۔بقیہ تین دہشت گرد ایڈمنسٹریشن بلاک میں جا کر محصور ہوگئے۔جوان ان کے تعاقب میں پوزیشنیں سنبھال کر کھڑے رہے کہا جاتا ہے کہ دہشت گردوں کے بھانے کے تمام راستے مسدود کر دیئے گئے تھے۔ اب یہ دہشت گرد اپنی جان بچانے کی فکر میں ایڈمنسٹریشن بلاک میں ہی خاموش ہو کر بیٹھ رہے۔جس کی وجہ سے دو گھنٹے آپریشن میں کوئی بڑی پیش رفت اس وجہ سے نہ کی گئی کہ کہیں اور بے گناہ ان دہشت گردوں کے ہاتھوں اس بلاک میں نہ شہید کر دیئے جائیں۔لہٰذا دو گھنٹے مصلحتاََ فائر بند رکھا گیا۔اس دوران دہشت گرد اپنی منصوبہ بندی کرتے رہے۔ جس کے بعد انہوں اچانک تین بم دھماکے کئے تاکہ خوف سے فوجی ان کا راستہ چھوڑ دیں۔ اور پھر زبردست فائرنگ کرتے ہوئے آسنی کے ساتھ بھاگ نکلنے میں کا میاب ہو جائیں۔ ان دہشت گردوں نے خطر ناک ہتھیاروں سے فائرنگ شروع کردی اور نکل بھاگنے کی کوشش کی ۔جس کے دوران ہمارے جونوں نے تینوں دہشت گردوں کو گھیر کر باری باری جہنم رسید کر دیا۔ اور اس طرح یہ آپریشن اپنے منطقی انجام کو پہنچا۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب حکومت خیبر پختون خوا کو اس بات کا علم ہے کہ فوج نے ضربِ عزب کے نام سے ایک آپریشن شروع کیا ہوا ہے۔جس کے نتیجے میں کبھی بھی کسی Casualty ، کا امکان موجود تھا۔ تو صوبائی حکومت نے اس کے لئے اقدامات کیوں نہیں کیئے؟ صوبے کے وزیر اعلیٰ کی اس جانب توجہ تو جب ہوگی جب اُن کو سونامی اور نواز شریف کے استعفے کے مطالبے سے فرصت ملے گی۔دہشت گرد چن چن کر بچوں کو نشانہ بناتے رہے۔مگر ان معصوموں کی آہ و بگا کے باوجود کوئیحکومتوں کی جان سے ان کی مدد کرنے والا نہ تھا۔اس ضمن میں ہمارے انٹیلی جینس اداروں کی بھی کوتاہی معلوم ہوتی جن کو اس قدر خطر ناک واقعے کی سن گن تک نہ لگی۔
Pakistan
اس وقت پورا پاکستان ان معصوموں کے سوگ میں غم واندوہ کا شکار ہے۔ اُن ماﺅں کے آنسو تو رُکنے میں ہی نہیں آرہے ہیں جنہوں اپنے ہاتھوں سے ان ننھے پھولوں کو بنا سنوار کر اس اَنجانے مقتل کی طرف روانہ کیا تھا۔اس اندوہناک خبر نے پاکستان کے بچے بچے کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔لوگ اپنے اداروں سے ان معصوموں کی شہادتوں پر سوال کرنے کا حق رکھتے ہیں۔کہ ہمارے ادارے اُس وقت کہاں سو رہے تھے جب یہ دہشت گرد کئی چوکیوں کو عبور کر کے اپنے ٹارگیٹ تک پہنچنے میں کامیاب ہوگئے؟ہر پاکستانی اپنے اداروں سے سوال کرتا ہے کہ ایسا کیونکر ہوا ؟اور یہ دہشت گرد کیسے کامیابی کے ساتھ اپنے ہدف تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے؟؟؟ اور سنکڑوںماﺅں کے دُلاروں کو چشمِ زدن میںآگ اور خون کے دریا میں نہلا دیا گیا؟؟؟ ہر جانب سنٹا کیوں چھایا ہوا ہے کوئی اس سوال کا جواب کیوں نہیں دے رہا ہے۔کہ لگ بھگ 130، کے قریب معصوم جانوں کی شہادتوں اور 250، کے قریب زخمیوں کا آخر کون ذمہ دار ہے؟صوبائی حکومت؟ہمارے ادارے؟یا مرکزی حکومت؟کسی نہ کسی کو تواس حادثہ ءدل دوز کی ذمہ داری لینا ہی ہوگی۔حکومتیں عوام کے لئے تو کچھ کر نہیں رہی ہیں۔ہر جانب بلیم گیم جاری ہیں۔یہ کھلاڑی انسانوں کی لاشوں پر سیاست میں کیوں میں مگنہیں؟ انسانوں کی جانوں سے کھیلنا گویا ان کے اہم ترین مشاغل کا حصہ ہے۔
اس حادثے نے وقتی طور پر بظاہر قومی اتحاد تو پیدا کر دیا ہے ۔جو ایک اچھی شروعات میں بھی بدل سکتا ہے۔وزیر اعظم نواز شریف اپنی تمام مصروفیات تج کر سیدھے پیشاور پہنچے ۔جہاں اہنواں نے خود اس آپریشن کو مانیٹر کرنے کا فیصلہ کیا اور اس انتہائی غمناک حادثے پر اپنے دلی صدمے کا اظہار کیا اور دہشت گردوں کو ان کے کیفرِ کردار تک پہنچانے حکم دیا۔دوسری جانب صدرِ پاکستان نے نے بھی اس حادثے پر اپنے انتہائی دکھ کا اظہار کیاہے۔پاکستان کی پوری سیاسی قیادتوں اور رہنماﺅں نے فرداََ فرداََ اپنے اپنے دکھ کا باقاعدہ اظہار کیا۔گویا اس منحوس حادثے نے ہماری یکجہتی کا اظہار تو کرادیا مگر دیکھنا یہ ہے کہ یہ یکجہتی کتنا عرصہ برقرار رہے گی؟
ہمیں یہ بات ہر گز فرا موش نہ کرنا چاہئے کہ اس حادثے کی ذمہ دار ہندوستان کی را بھی ہو سکتی ہے جو مسلسل ہمیں سبق سکھانے کا عزم رکھتی ہے۔مودی جیسا امریکہ کا سرٹیفائڈ دہشت گرد آج ہمارے پڑوس میں حکمران ہے جو مسلمانوں کا تو ازلی دشمن ہے۔ لہذا اداروں کو اس جانب بھی بھر پور توجہ دینی ہوگی۔کیونکہ آج 16، دسمبر ہے۔ ماضی میں اسی تاریخ کو اس نے ہمیں ایسا زخم دیا تھا جو مرہم پٹی کے باوجود اُس وقت تک رستا رہے گا جب تک کہ ہم اس کا بدلہ نہ لے لیں اور کشمیریوں کو اُن کا حق نہ دلا دیں۔
Shabbir Khurshid
تحریر : پروفیسر ڈاکٹر شبیر احمد خورشید shabbir4khurshid@gmail.com