پشاور؛ تاجروں نے حکومت کے جاری کردہ لاک ڈاؤن نوٹیفکیشن کو مسترد کر دیا

Peshawar Lockdown

Peshawar Lockdown

پشاور (اصل میڈیا ڈیسک) پشاور کے تاجروں نے حکومت کی جانب سے جاری کردہ لاک ڈاؤن نوٹیفکیشن کو مسترد کر دیا۔

مرکزی تنظیم تاجران خیبرپختون خوا کے صدر ملک مہر الہی کی زیر صدارت تنظیم کا ہنگامی اجلاس ہوا جس میں شہر بھر کے مختلف بازاروں کے صدور نے کثیر تعداد میں شرکت کی۔

اجلاس میں صوبائی حکومت کی جانب سے جاری کردہ لاک ڈاؤن کے نوٹی فکیشن کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا محمود خان نے تاجروں کے وفد سے ملاقات کرتے ہوئے لاک ڈاؤن کے حوالے سے جو وعدہ کیا اس کو ایفاء کرے، انہوں نے ملاقات میں تاجروں کو یقین دہانی کرائی تھی کہ اگر لاک ڈاؤن لگایا گیا تو صرف ٹورازم پر لگایا جائے گا اور کسی قسم کا لاک ڈاؤن نہیں کیا جائے گا، اگر بیماری کے اعدادوشمار میں اضافہ دیکھنے میں آیا تو تاجروں سے مشاورت کرکے لاک ڈاؤن کا فیصلہ کیا جائے گا۔

ملک مہر الہیٰ نے کہا کہ حکومت کاروباری اوقات کار میں کمی کر کے بازاروں میں ہجوم بنا رہی ہے اور بیماری پھیلانے کی آلہ کار بنی ہوئی ہے، اب تو بیماری کے پھیلاو کے اعدادوشمار میں کافی حد تک کمی آ چکی ہے اور تاجر برادری مکمل طور پر ایس او پیز پر بھی عملدرآمد کر رہی ہے، حکومت کے اس قسم کے فیصلوں سے تاجروں کا معاشی قتل کیا جا رہا ہے، یہ نہ ہو کے تاجربرادری حکومت کے ان ظالمانہ و جابرانہ فیصلوں کو ماننے سے انکار کرتے ہوئے احتجاج کرنے پر مجبور ہوجائیں، ماہ رمضان میں ہی کاروبار کچھ بہتر ہوتا ہے اور ملک کا غریب سے غریب آدمی عید کے پر مسرت موقع کے لئے خریداری کرتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ حکومت کے ان فیصلوں سے جہاں تاجر متاثر ہے وہاں دیہاڑی دار طبقہ بھی بے روزگار ہو گیا ہے اور فاقہ کشی پر مجبور ہے جس کے پیش نظر اسٹریٹ کرائم میں اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے حکومت کے ان فیصلوں سے تاجر برادری اور ملک کی عوام متنفر ہو چکی ہے جو کہ ایک بہت بڑی حکومت مخالف احتجاجی تحریک کی صورت اختیار کرتی جا رہی ہے اور ایسی تمام تر صورتحال کی ذمہ داری حکومت کی ہوگی۔

ان کا کہنا تھا کہ تاجروں نے وزیراعلیٰ محمود خان سے ملاقات پر جو مطالبات پیش کیے تھے ان میں ایک مطالبہ یہ تھا کہ چاند رات تک بلا کسی تعطل کے کاروبار کرنے کی اجازت دی جائے لہذاجاری کردہ نوٹی فکیشن پر نظرثانی کی جائے اور لاک ڈاؤن کے حوالے سے بیماری کے اعداد و شمار کو دیکھتے ہوئے عید الفطر کے بعد تاجروں سے مشاورت کرتے ہوئے فیصلے کیے جائیں۔