تحریر : روشن خٹک یوں تو پاکستان کے ہر بڑے شہر میں ٹریفک کا مسئلہ سنگین سے سنگین تر ہوتا چلا جا رہا ہے، مگر خیبر پختونخوا کے دارلخلافہ پشاور کو اس وقت شدید قسم کے ٹریفک مسائل کا سامنا ہے۔سڑکیں وہیں ہیں جو آج سے پچاس سال پہلے تھیں جبکہ آبادی اور گاڑیوں کا بوجھ پہلے سے کئی گنا بڑھ چکا ہے۔پشاور میں سوائے حیات آباد کے کو ئی قابلِ ذکر ہا ئوسنگ سوسائٹی نہیں بنی جس کی وجہ سے بڑھتی ہوئی آبادی کا سارا بوجھ پشاور شہر پر آگرا ہے۔ شمالی وزیرستان، جنوبی وزیرستان، چترال تا ڈیرہ اسمعیل خان، مضافات اور دیہات سے بہت ساری آبادی پشاور کی طرف آچکی ہے ۔جس کی وجہ سے تمام دن خصوصا سکول اور دفتروں کے آنے جانے کے اوقات میں سڑکوں پر عوام اور گاڑیوں کا سمندر امڈ آتا ہے جبکہ زمین کا دامن پہلے کی طرح اتنا ہی ہے ،حکومت سڑکیں اور چوراراہوں کو کشادہ کرنے پر تھوڑی بہت توجہ بھی دے رہی ہے ۔حیات آباد فیز تھری چوک پر فلائی اوور اور مفتی محمود پل وغیرہ ٹریفک مسائل کی حل کی طرف ایک کو شش ضرور ہے مگر سڑکیںآبادی اور ٹریفک میں کئی گنا اضافہ کے حساب سے چوڑی کرنا ممکن نہیں ہے۔
موجودہ صوبائی حکومت نے ٹریفک کنٹرول کے لئے کثیر تعداد میں ٹریفک وارڈن بھرتی کئے، انہیں قیمتی موٹر سائیکلیں اور گاڑیاں بھی دے دیں مگر ٹریفک کے نظام میں کو ئی قابلِ ذکر تبدیلی نظر نہیں آئی۔ اگر چہ خیبر پختونخوا کی ٹریفک پولیس دوسرے صوبوں کی نسبت زیادہ بااخلاق اور فرائض کی بجا آوری میں پہلے نمبر پر ہے مگر اس میں مزید اصلاح کی ضرورت ضرور ہے۔ مثلا مشاہدے میں یہ بات آئی ہے کہ شہر کے بڑے بڑے چوراہوں پر، جیسے خیبر روڈ اور ورسک روڈ کا سنگھم، صدر، مال روڈ چوک وغیرہ ٹریفک اہلکار ٹریفک سگنلز کو بند کر کے Take Careوالے زرد رنگ کے بتی پر لگا دیتے ہیں اور خود ٹریفک کنٹرول کرنے کی ناکام کو شش میں لگ جاتے ہیں۔
ٹریفک اہلکار ایک طرف گاڑیوں کو اشارہ دے کر لمبی لائن کو گزرنے دیتے ہیں تو دوسرے تین اطراف میں لمبی لمبی قطاریں لگ جاتے ہیں۔یوں سڑک استعمال کرنے والوں کو سخت پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور لاکھوں روپے کا فیول بھی ضائع ہو جاتا ہے۔ پشاور میں قائم سیکیوریٹی چیک پوسٹیں تو ایک مجبوری ہے جس کی وجہ سے بھی عموما ٹریفک کے بہاوء میں بڑی رکاوٹ آتی ہے مگر ٹریفک سگنلز کو ماسوائے وی وی آئی پی مومنٹ کے ہر گز بند نہیں کرنا چاہئیے البتہ ٹریفک کے بہائو کو مدنظر رکھتے ہوئے سگنلز کے تبدیلی کے وقت کو ایڈجسٹ کیا جا سکتا ہے۔
Peshawar Rickshaw
پشاور میں ٹریفک نظام میں خرابی کی ایک بڑی وجہ رکشوں کی بھر مار ہے۔ دیکھا گیا ہے کہ رکشے، ٹیکسیاں اور موٹر سائیکل سوار عموما ٹریفک قوانین کی پروا نہیں کرتے، جہاں ان کو موقعہ ملتا ہے، وہاں یہ اپنی چونچ گھسیڑنے کی کو شش کرتے ہیں، یا سڑک پر اپنی لائن میں جانے کی بجائے غلط لائن پر رواں دواں ہو تے ہیں۔ ٹریفک اہلکاروں کو ان کے ساتھ نرمی کے بجائے سختی کرنی چا ہئیے۔ کبھی کبھار خیبر پختونخوا کی ٹریفک پو لیس عوام میں ٹریفک اصولوں کا شعور اجاگر کرنے کے لئے لاوڈسپیکر کے ذریعے مہم چلاتی ہے جو بڑااچھا اقدام ہے جو موقعہ پر ہی غلط لائن اختیار کرنے والوں کو یا ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کرنے والوں کو ہدایات دیا کرتے ہیں۔ایسی کوشیشیں جاری رکھنی چاہیئں۔موٹر سائیکل سواروں کی تعداد میں پچھلے کچھ عرصہ میں بے تحاشا اضافہ ہوا ہے۔
تیز رفتاری اور ٹریفک قوانین کی پروا نہ کرنے کی وجہ سے ان کے ایکسیڈنٹ میں بھی کافی اضافہ ہوا ہے لہذا ان کو کنٹرول کرنے کی بھی اشد ضرورت ہے۔ پشاورکے ٹریفک نظام میںخرابی کی ایک بڑی وجہ گاڑیوں کے لئے پارکنگ کی جگہ کی عدم دستیابی ہے۔ بے شمار لوگوں نے اب بازار جانا اس لئے بھی چھوڑ دیا ہے کہ انہیں گاڑی پارک کرنے کی جگہ نہیں مِلتی جس کی وجہ سے انہیں پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔صدر بازار ہو، یا قصہ خوانی بازار، کسی بھی جگہ گاڑی پارک کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔
حکومت کو چاہیے کہ وہ اس مسئلہ کا حل ڈھونڈ نکالے۔ بڑے بڑے پلازے بن رہے ہیں مگر پارکنگ کے لئے جگہ مختص نہیں ہو تی جو حکومت کی ناقص منصوبہ بندی کی علامت ہے۔ مناسب ہوگا کہ حکومت اور ٹریفک کے اربابِ اختیار و اقتدار مل بیٹھ کر پشاور میں ٹریفک کے نظام کو درست کرنے کا کوئی حل تلاش کریں تاکہ عوام کو سڑک استعمال کرتے ہو ئے کسی پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔