گزشتہ دھائی سے پاکستان کی تاریخ خودکش حملوں اور بم دھماکوں سے سُرخ ترین ہے یہ حملے روز کا معمول رہے اور کوئی ایسی جگہ یا مقام نہیں جہاں حملے نہیں ہوئے سوائے مسیحیوں کے گرجہ گھر کے جبکہ امام باگاہیں، مساجد، مزاروں، جنازے کے اجتماع، زائرین پر 22 دسمبر 2007 کو موضیع شیر پاؤ میں عید الااضحٰی کے مقد س اجتماع پر خود کش حملہ ہوأ۔
کراچی مین نیول مہران بیس، کامرہ میں پولیس ٹرینگ سینٹر ہنگو، لاہور، پنجاب رجمنٹ مردان،فوج کے دل جی ایچ کیو، ڈیرہ جیل، ایف سی چوکیوں اور قافلوں پرغرض کوئی مقام اُنکی دستبرد سے باہر نہیں بیشک ایجنسیاں وزارت داخلہ کو مطلع کرتی ہیں، امن و امان کے زمہ دار ادارے اُن کے خلاف کسی قسم کی کاروائی کرنے کی بجائے دفاعی پوزیزشن پر آ جاتے اور وہ اپنے ٹارگٹ کو نشانہ بنا دیتے حکومت سامنا کرنے کی بجائے دفاعی پوزیشن اختیار کر لیتی، اُن کا ایجنڈا ہے حکومت سامنے آئے ….دشتگرد تھنک ٹینک نے تمام حربے استعمال کئے مگر ….آخرش فیصلہ کیا گیا کے چرچ پر حملہ کیا جائے تاکہ دنیا میں ہل چل مچ جائے سو اِس کے لئے کوئی اور دن یا تاریخ کی بجائے 22 ستمبر کا دن مقرر کیا گیا اِس کی خاص وجہ یو این اہ کا سالانہ اجلاس جس میں دنیا کے ڈیڑھ سو ممالک کے سربراہ بیٹھے ہیں وزیر آعظم میاں نواز شریف بھی خطاب کرینگے جوکچھ میاں صاحب نے اجلاس میں کہنا تھا اُ س کا بھی اُنہیں علم تھا …اِس کا جواب پہلے امریکی صدر اوبامہ نے اپنی تقریر میں دیا ،25ستمبر کے اخبار نے اپنی پیشانی پر چھ کالمی سُرخی سجائیامریکی صدر نے کہا…”خود مختاری کی آڑ میں عالمی برادری ظالموں کے ہاتھوں قتلِ عام پر آنکھیں بند نہیں کر سکتی ،ڈرون کا استعمال محدود کر دیا، صرف اُن ممالک میں ڈرون حملے کئے جارہے ہیں جہاں دہشت گردوں کو پکڑنا مشکل ہے۔
پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات قابل مذمت ہیں پشاور حملوں سے بڑا جانی نقصان ہوأ ہے مجھے علم نہیں کہ مبصرین نے صدر اوبامہ کے اِس بیان پر کن کن زاویوں سے خاما فرسائی کی۔ میرے معزز قاریئن کو علم ہوگا کہ میں گزشتہ دو ماہ سے آنکھ میں انفکشن کی وجہ سے غیر حاضر ہوں، گو کہ اخباری بیان کی زندگی محض ایک دن کی ہوتی ہے مگر بعض ایسے بیان تاریخ کا حصہ بن جاتے ہیں، امریکی صدر کے خطاب کے یہ جملے اپنے اندر بہت کچھ لئے ہیں ”خود مختاری کی آڑ میں” کیونکہ وزیر آعظم سے لے کر ہر چھوٹا بڑا یہی کہتا ہے کہ ہماری خود مختاری ہماری خود مختاری …اور پھر میاں صاحب نے اپنی تقریر میں یہی کہا کہ ڈرون حملے بند کئے جائیں یہ پاکستان کی خود مختاری اور سلامتی کی خلاف ورزی ہے …اِس کا جواب پہلے امریکی صدر نے دیا، واپس آتے ہوئے لندن میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر آعظم میاں نواز شریف نے کہا ..”پاکستان دہشت گردی کی سر پرستی نہیں کر رہا بلکہ خود غیر ملکی فنڈ سے ہونے والی دہشت گردی کا شکار ہے۔
Peshawar Church Blast
بیرونی قوتیں پاکستان کو عدم استحکام کا کرنے کے لئے کوشاں ہیں، ہمیں اِن خفیہ ہاتھوں اور اِن کی پشت پر کار فرما قوتوں کا پتہ چلانا ہوگا …”کمال ہے پچاس ہزار پاکستانی ان دہشت گردانہ کاروائیوں سے مارے جا چکے ہیں اور اب وزیر آعظم کہتے ہیں خفیہ ہاتھوں اور پشت پر کار فرما قوتوں کا پتہ چلانا ہے، پتہ چلانے تک شائد اتنے اور مروائیں گے ڈرون بند کئے جائیں کے یہ ہماری قومی سلامتی اور خود مختاری کے خلاف ہیں جبکہ GHQ ،کامرہ، مساجد اور اب چرچ پر حملہ یہ پاکستان کی خود مختاری اور سلامتی کے عین مطابق ہیں، ڈرون حملوں سے متعلق اہم سوال ہے کہ ڈرون حملے صرف شمالی وزیرستان تک ہی کیوں؟ جنوبی وزیرستان، کُرم ایجنسی،خیبر ایجنسی، اورک زئی، باجوڑ وغیرہ پر کیوں نہیں؟ اِس اہم سوال پر آج تک خاموشی ہے؟ ایمنسٹی انٹر نیشنل نے امریکا سے کہا ہے کہ امریکا معصوم عوام کی ہلاکتوں کی تحقیقات کرے پاکستان نے اس رپورٹ کا خیر مقدم کیا ہے۔
ایک اور رپورٹ کے مطابق اب 350 ڈرون حملے ہوئے اور یہ شمالی وزیرستان میں، اس رپورٹ نے بھی کیسی بندوبستی علاقے پر ڈرون حملے کی نشان دہی نہیں کی اور نہ ہی ایک ہزار میل لمبی سرحد پر کہیں اور حملے نہیں، جب یہ ڈرون حکومت پاکستان کے علم میں اور ایمنسٹی انٹرنیشنل کو بھی علم کہ یہ ڈرون بند نہیں ہو سکتے تو پھر ضرورت ہے کہ معصوم عوام کو وہاں سے نکال لیا جائے، یا عوام خود ہی ڈرون حملوںکی ذد سے بندو بستی علاقوں میں چلے جائیں، مگر ایسا نہیں ہو رہا ،ایمنسٹی انٹرنیشنل اور دگر ایجنسیوں نے عوام کے مارے جانے کی نشاندہی کی ہے مگر وہاں چھپے دہشت گردوں کی ہلاکت کا زکر نہیں کیا کہ جن کے تعاقب میں ڈرون وہاں پہنچا…ساتھ ہی اِس کو بھی پڑھیں وزیر خزانہ نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا امریکا کولیشن فنڈ کے 32 کروڑ ڈالر جلد دینے کی یقین دہانی کرادی …اور اسی کے ساتھ میاں صاحب کا بیان ملا کر پڑھیں پاکستان دہشت گردی کی سرپرستی نہیں کر رہا بلکہ خود غیر ملکی فنڈ سے ہونے والی دہشت گردی کا شکار ہے ….ایک طرف دہشت گردی کے لئے فنڈنگ ہو رہی ہے تو دوسری طرف دہشت گردی کے خاتمے کے لئے ….؟ بات ڈرون حملوں کی طرف نکل گئی ہے یہ بھی آج کا سلگتا ہوأ اہم موضوع ہے، مگر میرا موضوع چرچ پر خود کش حملہ جس نے پہلی مرتبہ دنیا کو ہلا دیا ملک کے تمام دینی و سیاسی راہنماؤں نے مسیحیوں سے اظہار یکجہتی کے ریلیاں نکالیں۔
شدید ترین لفظوں میں دہشت گردوں کی مذمت کی…امیر جماعت الدعوة پرفیسر سعید احمد نے کہا ”بھارت پاکستان میں انتہا پسندی اور تخریب کاری پھیلا رہا ہے چرچ حملے میں بھی اِس کا ہاتھ ہو سکتا ہے ٹی وی سے مزید گفتگو میں کہا کچھ طاقتیں پاکستان کو دہشت گرد ملک قرار دینے کی سازش کر رہی ہیں”پروفیسر صاحب فکر کی کوئی بات نہیں ہم کافی ہیں جہاں تک ملک کو دہشت گرد قرار دینے کا تعلق تو یہاں جہادی تنظیمیں یہکام کر رہی ہیں لیکن انہوں نے مذمت نہیں کی ….میاں صاحب بھی یہی کہتے ہیں مگر خیال رہے خام مال یہاں سے وافر دستیاب ہے ،ورنہ سات سمندر پار سے آئے سات سو گورے صرف ڈھائی ہزار مقامی سپاہ سے 1757ء کی جنگ پلاسی میں کامیابی حاصل نہ کر سکتے۔
پھر شیر میسور کو شکست ….. پشاور چرچ پر خود کش حملے اُسی سلسلے کی ایک کڑی ہے ابھی اور حملے بھی ہونگے تحریک طالبان جس کے ساتھ کالعدم کا لاحقہ لگا ہے مگر وہ فعال ہے اور اُن کی حیثت کو تسییم کیا گیا تا کہ اُن کے ساتھ مذاکرات کے لئے جواز ہویہ کالعدم کا لاحقہ محض عوام اور دنیا کو بے وقوف بنانا …کے ترجمان شاہد اللہ شاہد نے کہا ہے چرچ پر حملہ شریعت کے مطابق ہے ،مطلب یہ کہ مزید حملے کی گنجائش ہے۔
پاکستان کے دشمنوں کے لئے کہ پاکستان کے خلاف کاروائی کے لئے آسانی ہو ان نام نہاد انٹرنیشنل تنظیموں کی رپورٹیں بھی درپردہ دہشت گردوں کی حمائت کرتی ہیں اِس کے لئے اب میمنے کو اوپر اور بھیڑئے کو نیچے لایا گیا …. مگر حکمران پاکستان دشمنوں کے خلاف کاروائی کرنے کی بجائے اُن سے مذاکرات کی بھیک مانگ رہے۔ ملک انتہائی نازک دور میں دشمن گھیرا تنگ کرتے جا رہے ہیں۔